أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ لَّا رَيۡبَ فِيۡهَا وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک قیامت ضرور آنے والی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

بے شک قیامت ضرور آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول فرمائوں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں، وہ عنقریب ذلت سے جہنم میں داخل ہوں گے (المومن : 59-60)

ایمان کامل کا معیار

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے امکان پر دلائل قائم فرمائے تھے اور اس آیت (المومن : ٥٩) میں قیامت کے وقوع کی خبر دی ہے، لیکن کفار اس کی تصدیق نہیں کرتے، کیونکہ یہ اپنے مشرک آباء و اجداد کی تقلید میں اس قدر راسخ ہیں کہ محسوسات سے معقولات پر استدلال نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی توحید پر اور قیامت پر ایمان نہیں لاتے۔

اس آیت میں فرمایا ہے : ” لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “ کافروں میں تو اصلاً ایمان نہیں ہے، لیکن اکثر مسلمانوں میں ایمان کامل نہیں ہے، ہم یہاں پر ان احادیث کا ذکر کررہے ہیں جن میں کمال ایمان کا معیار مذکور ہے، اس کسوٹی پر پرکھ کر ہمیں جانچنا چاہیے کہ آیا ہمارا ایمان کامل ہے یا نہیں۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ پانچ چیزیں ایمان سے ہیں، جس شخص میں ان میں سے کوئی چیز نہ ہو اس میں ایمان بالکل نہیں ہے : (١) اللہ کے حکم کو تسلیم کرنا (٢) اللہ کی قضاء (تقدیر) پر راپی رہنا (٣) اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کردینا (٤) اللہ پر توکل کرنا (٥) جب پہلی بار صدمہ پہنچے تو اس پر صبر کرنا اور وہ شخص ایمان کی حقیقت کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا جس سے لوگوں کی جانیں اور ان کے مال مامون اور محفوظ نہ ہوں۔ کسی شخص نے پوچھا : یارسول اللہ ! ایمان کا کون سا وصف سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : جس شخص کی زبان اور اس کے ہاتھوں سے لوگ سلامت رہیں، جس طرح راستہ پر مینار علامت ہوتا ہے، اسی طرح ایمان کی علامت کے یہ مینار ہیں : (١) لا الہ الا اللہ کی شہادت دینا (٢) نماز قائم کرنا (٣) زکوٰۃ ادا کرنا (٤) کتاب اللہ کے موافق حکم دینا (٥) نبی امی کی اطاعت کرنا (٦) جب بنوآدم سے ملاقات ہو تو ان کو سلام کرنا۔ (حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں سعید بن سنان راوی ہے جس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاتا، مجمع الزوائد ج ١ ص ٥٦، دارالکتاب العربی، بیروت)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص امانت دار نہ ہو اس کا کوئی دین نہیں اور جو شخص اپنے عہد کو پورا نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، اس وقت تک کسی بندہ کا دین درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو اور اس کی زبان اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک اس کا دل درست نہ ہو اور اس وقت تک کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک اس کے بوائق سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو، آپ سے پوچھا گیا : یارسول اللہ ! بوائق کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اس کا دھوکا دینا اور اس کا ظلم کرنا اور جس شخص نے حرام مال حاصل کیا اور اس کو خرچ کیا اس میں برکت نہیں ہوگی اور اگر اس سے صدقہ کیا تو وہ قبول نہیں ہوگا اور اس مال میں جو اضافہ کیا وہ دوزخ میں جائے گا اور خبیث چیز سے خبیث کام کا کفارہ نہیں ہوتا۔ لیکن طیب چیز سے کفارہ ہوتا ہے۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٥٥٣، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں حصین بن مذعور ہے جو فرس تیمی سے روایت کرتا ہے، میں نے ان کا ذکر نہیں دیکھا۔ مجمع الزوائد ج ١ ص ٥٧ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی گلیوں میں ایک شخص سے ملے جس کا نام حارثہ بن مالک انصاری تھا، آپ نے اس سے پوچھا : اے حارثہ ! تم نے کس حال میں صبح کی ؟ اس نے کہا : میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں برحق مومن تھا، آپ نے فرمایا : ہر ایمان کی حقیقت ہوتی ہے، تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے، اس نے کہا : میں نے دنیا سے اپنے نفس کا منہ موڑ لیا، میں نے دن میں پیاس کو برداشت کیا اور رات کو جاگتا رہا اور گویا کہ میں نے آپنے رب کے عرش کو بالکل سامنے دیکھا اور گویا کہ میں نے اہل جنت کو جنت کی نعمتوں میں دیکھا اور اہل دوزخ کو دوزخ کے عذاب میں دیکھا، تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے درست کہا، تم اس پر لازم ہو، مومن کے دل کو اللہ نے منور کردیا۔ (حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے، اس کی سند میں یوسف بن عطیہ ہے جس کی روایات سے استدلال نہیں کیا جاتا، مجمع الزوائد ج ١ ص ٥٧ )

(ہر چند کہ ان احادیث کی اسانید ضعیف ہیں، لیکن فضائل اعمال میں ضعاف معتبر ہوتی ہیں، نیز ان احادیث کی اصل احادیث صحیحہ میں موجود ہے) ۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 59