اِنَّ الَّذِيۡنَ يُجَادِلُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰٮهُمۡۙ اِنۡ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ اِلَّا كِبۡرٌ مَّا هُمۡ بِبَالِغِيۡهِؕ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 56
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُجَادِلُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰٮهُمۡۙ اِنۡ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ اِلَّا كِبۡرٌ مَّا هُمۡ بِبَالِغِيۡهِؕ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
ترجمہ:
بیشک جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کررہے ہیں ان کے دلوں میں صرف بڑا بننے کی ہوس ہے جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں، سو آپ اللہ سے پناہ طلب کیجئے، بیشک وہ خوب سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
بے شک جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کررہے ہیں ان کے دلوں میں صرف بڑا بننے کی ہوس ہے جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں، سو آپ اللہ سے پناہ طلب کیجئے، بیشک وہ خوب سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے ضرور بہت بڑا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہے اور نہ مؤمنین صالحین بدکاروں کے برابر ہیں، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو “ (المومن : 56-58)
فتنہ باز لوگوں سے اللہ کی پناہ طلب کرنا
اس سورت کے شروع میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا :
ما یجادل فی ایت اللہ الا الذین کفروا۔ (المومن :4) اللہ کی آیتوں میں صرف کفار ہی جھگڑتے ہیں۔
اس کے بعد اسی سے مربوط کلام کا ذکر فرمایا اور اب المومن : ٥٦ میں پھر ان کافروں کا ذکر فرمایا جو اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی ایسی دلیل کے جھگڑتے ہیں جو ان کے پاس آچکی ہو، اس کے بعد اس سے متصل یہ وجہ بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی آیتوں میں کسی مقصد کے لیے جھگڑتے ہیں۔ سو فرمایا : ” ان کے دلوں میں صرف بڑا بننے کی ہوس ہے “ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے آپ کو نبی مان لیا تو انہیں آپ کے احکام کی اطاعت کرنی ہوگی، آپ کو مقتدا اور پیشوا ماننا ہوگا اور پھر آپ کے سامنے ان کی چودھراہٹ کا چراغ نہیں جلے گا اور کل تک جن لوگوں کے سامنے وہ بڑا بنتے چلے آتے تھے اب ان کے سامنے انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنی ہوگی تو وہ اس لیے آپ کو نبی نہیں مانتے تھے کہ اگر آپ کو نبی مان لیا تو ان کو بڑائی نصیب نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس بڑائی کی یہ ہوس کررہے ہیں وہ کبھی ان کے ہاتھ نہیں آئے گی کیونکہ بالآخر مکہ مکرمہ آپ کے ہاتھوں فتح ہوگا اور آج جو لوگ چودھری اور و ڈیرے بنے ہوئے ہیں کل وہ سب آپ کے ماتحت ہوں گے اور ان سب کی گردنیں آپ کی تلوار کے نیچے ہوں گی، سو آپ ان کی سازشوں کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کریں، بیشک اللہ ان کی باتوں کو خوب سننے والا ہے اور ان کے کاموں کو اچھی طرح دیکھنے والا ہے، پس وہ آپ کو ان کی سازشوں کے شر سے محفوظ اور مامون رکھے گا اور آپ کو ان کے اوپر غالب کردے گا، اس کا وعدہ ہے :
کتب اللہ لا غلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز (المجادلہ : 21) اللہ لکھ چکا ہے کہ بیشک میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوں گے، بیشک اللہ بہت قوی اور بےحد غالب ہے
ہر چند کہ یہ آیت ان کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو اپنی بڑائی کی ہوس میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے لیکن دراصل یہ آیت ان تمام بدمذہب اور مبتدعین کو شامل ہے جن کے سامنے مذہب حق پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور وہ ان کو صرف اس لیے نہیں مانتے کہ اگر ان دلائل کو تسلیم کرلیا تو ان دلائل پر مبنی مذہب حق کو بھی ماننا ہوگا اور اس کو ماننے سے ان کی بڑائی میں فرق آئے گا اور ایسے ہٹ دھرم لوگ صرف مکہ کے کفار نہیں تھے بلکہ ہر دور میں ایسے ضدی، معاند اور جھگڑالو لوگ ہوتے رہے ہیں، خود مصنف کو ایسے ہٹ دھرم اور جھگڑالو لوگوں کا سامنا ہے، یہ بہت بڑا فتنہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسے لوگوں کے فتنہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی ایسے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے اور ہم کو بھی ان سے پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو نجار کے ایک باغ میں خچر پر سوار ہو کر جارہے تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، اچانک وہ خچر لڑکھڑایا، پس قریب تھا کہ وہ آپ کو گرا دیتا ، وہاں پر چھ، یا چار پانچ قبریں تھیں، آپ نے پوچھا : ان قبر والوں کو کون پہچانتا ہے ؟ ایک شخص نے کہا : میں پہچانتا ہوں، آپ نے پوچھا : یہ لوگ کب مرے تھے ؟ اس نے کہا : یہ زمانہ شرک میں مرگئے تھے، آپ نے فرمایا : ان کی قبروں میں آزمائش ہوتی ہے، پس اگر تم (دہشت کی وجہ سے) مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دیتے تو میں تم کو بھی عذاب قبر کی وہ آوازیں سنوا دیتا جو میں سن رہا ہوں، پھر آپ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو، مسلمانوں نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، پھر آپ نے فرمایا : ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، مسلمانوں نے کہا : ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو، مسلمانوں نے کہا : ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور کے ضدی، ہٹ دھرم اور معاندلوگ بہت بڑا فتنہ ہیں اور ان کا فتنہ دجال کے فتنہ سے کم نہیں ہے سو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ان کے فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 56