برکات ۷
sulemansubhani نے Wednesday، 16 June 2021 کو شائع کیا.
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ
وَعَلٰی آلِکَ وَ اَصْحَابِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہِ ﷺ
جھوٹ کی لعنت
جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں اَن گنت برائیاں محض جھوٹ کی وجہ سے پروان چڑھتی ہیں۔ جھوٹ بظاہر ایک گناہ ہے لیکن اس سے ہزاروں گناہ جنم لیتے ہیں۔ جھوٹے آدمی پر کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں کرتا اور نہ اسکی کسی بات کا کوئی اعتبار ہوتا ہے۔ جو آدمی جھوٹا ہوتا ہے اس کی سچ بات بھی مشکوک و مشتبہ ہو جاتی ہے۔ غرض جھوٹا آدمی دنیا میں بھی بے اعتبارو ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب ِنار کا مستحق ہوتا ہے۔
جھوٹ کی برائی اور جھوٹ کی مذمت کیلئے یہی کافی ہے کہ قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلٰی الْکٰاذِبِیْنَ ‘‘ تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ ( سورئہ آل عمران )
لعنت کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ کہ بندہ جھوٹ بول کر اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔
کثیر احادیث کریمہ جھوٹ کی مذمت اور جھوٹے کے ملعون و مردو ہونے کے بارے میں موجود ہیںجن میں سے چند احادیث کا ذکر کیا جاتا ہے۔
مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا
حضرت َصفْوَان بن سُلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم ﷺ سے دریا فت کیا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں (ہو سکتا ہے) پھر عرض کیا گیا مومن بخیل ہو سکتا ہے ؟ فرمایا ہاں ہو سکتا ہے، پھر پوچھا گیا کیا مومن کذَّاب (جھوٹا ) ہو سکتا ہے ؟ مدنی تاجدار ﷺ نے فرمایا نہیں مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
(امام مالک، مشکوٰۃ )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!جو مومن ہوگا وہ یقینا جھوٹ سے اپنے آپ کو بچائے گا کیونکہ مومن اللہ سے ڈرتا ہے، اس کی رحمت کا طلب گار ہوتا ہے۔ مومن پر لوگوں کا اعتبار ہوتا ہے اگر ایک کلمہ پڑھنے والا جھوٹ بولے تو لوگ اسلام کی تعلیم پر کیچڑ اچھا لیں گے اور جھوٹ بولنے والے کی عزت و وقار بھی مجروح ہوگا اور واقعی جھوٹ اتنا برا فعل ہے کہ معاشرے میں جھوٹے کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ تاجدار کائنات ﷺ کے فرمان کے مطابق ایمان اور جھوٹ دونوں کسی بندے میں جمع ہوں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے فرمایا مومن کا بزدل ہونا ممکن ہے، مومن کا بخیل ہونا ممکن ہے لیکن مومن کذاب نہیں ہو سکتا، اللہ نہ کرے صد بار نہ کرے کہ ہماری زبان سے جھوٹ نکل جاتا ہوتو ڈرنا چاہئے کہ ہمارا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے لہٰذ ا جھوٹ سے بچنا گویا ایمان کو بچانا ہے۔ اللہ عزوجل صادق الوعد الا مین ﷺ کے صدقہ و طفیل جھوٹ سے بچنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے اور ایمان کی حفا ظت فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ (ترمذی)
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!فرشتے انسان کی حفاظت کرتے ہیں ہر انسان کے ساتھ فرشتے بے حساب ہوتے ہیں اس کے علاوہ ذکر الٰہی اور ذکر رسول ﷺ کی محفل میں بھی فرشتے ہوتے ہیں، بازار میں بھی فرشتے ہوتے ہیں۔ لیکن بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منھ سے اتنی بدبو نکلتی ہے کہ فرشتے ایک میل دور ہٹ جاتے ہیں۔ غور کریں کہ جب جھوٹ بولنے والے کے ساتھ فرشتے نہیں رہنا چاہتے تو اللہ عزوجل کی رحمت اس کے ساتھ کہاں سے رہے گی ؟ اور جب رحمت نہیں رہے گی تو برکت کہاں سے رہے گی خدارا اپنے آپ کو ہلاکت سے بچائو اور اللہ کی رحمت وبرکت کے حصول کے لئے اپنے دامن کو جھوٹ کے داغ سے بچائو۔ اللہ اپنے سچے نبی ا کے طفیل ہم سب کو سچا بنائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
جھوٹ علامتِ نفاق ہے
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا چار خصلتیں جس کے اندر پائی جائیں وہ پکا منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت موجود ہے جب تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے۔ وہ خصلتیں یہ ہیں(۱)جب اس کو امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۳)جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔ (۴)جب جھگڑا کرے تو بیہودہ باتیں یعنی گالی گلوچ کرے۔ (بخاری و مسلم )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!منافقوں کی خصلت کا ذکر حدیث شریف میں کیا گیا ہے سب سے پہلے منافق کا ٹھکانہ قیامت میں کیاہے اسے جان لیں تاکہ نفاق سے بچنے کی کوشش کریں۔
قرآن مقدس میں رب قدیر نے ارشاد فرمایا’’اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرَکِ الاسْفَلِ مِنَ النَّارِ‘‘ بیشک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہیں۔ (کنز الایمان)
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!نفاق کی چار علامتیں جو مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان فرمائی گئی ہیں وہ آج تقریبا امت مسلمہ کے اکثر افراد میں نظر آتی ہیں۔ پہلی علامت خیانت کی بلاہے جو ہمارے درمیان عام ہے، لوگ امانتوں میں خیانت کوگناہ تصور ہی نہیں کرتے۔ دوسری علامت وعدہ خلافی ہے جو تجارت کے میدان سے لیکر ہر محاذ پر عام ہے۔ تیسری علامت جھوٹ ہے یہ تو آج کے دور میں فن کا درجہ پا چکی ہے۔ (معاذ اللہ) اور چوتھی علامت جھگڑے میں بے ہودہ گوئی ہے یہ بھی قوم مسلم میں ایک عام بات ہو گئی ہے،اس کو بھی لوگ برا نہیں سمجھتے حالانکہ سب مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اگر یہ برائیاں ہم میں ہیں تو فرمانِ رسولﷺ کے مطابق ہم سے بڑا کمبخت کوئی نہیں کہ نفاق کی نشانیاں ہم میں پائی جا رہی ہیں۔ اسلئے ہم کو چاہئے کہ مذکورہ چاروں خصلتوں سے توبہ کریں اور اللہ عزوجل آئندہ بھی ہم سب کو نفاق کی جملہ علامتوں سے بچائے اور رحمت عالم ا کے دامن میں جگہ عطافرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
سب سے بڑاجھوٹ
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے جو انہوں نے نہیں دیکھیں۔ ( بخاری شریف )
جھوٹ گناہِ کبیرہ ہے
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ِصادق ﷺ نے فرمایا کیا میں گناہِ کبیرہ میں سے زیادہ بڑے بڑے گناہوں کو نہ بتادوں ؟ تو میں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بڑے گناہوں میں سے زیادہ بڑے بڑے گناہ یہ ہیں۔
٭ خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا
٭ ماں باپ کی نافرمانی اور اِیذا رسانی کرنا۔
یہ فرماتے وقت حضور تاجدار عرب و عجم ﷺ مسند لگا کر لیٹے ہوئے تھے اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اَلاَ وَ قَوْلُ الزُّوْرِ‘‘یعنی خبردار! اور جھوٹ بات۔ پھر اسی لفظ کو اتنی دیر تک دہراتے رہے کہ ہم لوگوں نے اپنے دل میں کہا کاش حضور اس بات کے فرمانے سے خاموش ہو جاتے اور اس سے آگے کوئی دوسر ی بات فرماتے۔ ( اس سے ظاہر ہوا کہ حضور ﷺ کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی) ( بخاری شریف جلد اول )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!تاجدار کائنات ﷺ نے گناہ کبیرہ کا ذکر کرتے ہوئے جب جھوٹ کا ذکر فرمایا تو کس طرح اچانک بیٹھ گئے اور آگاہ کرتے ہوئے خبردار کرتے ہوئے جھوٹ کو گناہ کبیرہ میں بتایا تاکہ امت کے دل میں جھوٹ بولنے سے نفرت پیدا ہو اور اس گناہ کبیرہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!جھو ٹ سے پرہیز کرکے تو دیکھو کتنا کرم خداوندی ہوتا ہے۔
یقینِ کامل ہے کہ انشاء اللہ آج سے ہم ضرور جھوٹ سے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حضرتِ لقمان علیہ السلام کی نصیحت
آپ نے اپنے بیٹوں سے بطور نصیحت ارشاد فرمایاکہ جھوٹ مت بولنااگر چہ جھوٹ چڑیا کے گوشت کی طرح لذیذ ہوتا ہے لیکن ذرا سے جھوٹ کی برائی جھوٹ بولنے والے کو ہلاک و برباد کر دیتی ہے۔
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! حضرت لقمان حکیم اپنے بیٹوں کو جھوٹ سے بچنے کی نصیحت فرماتے ہیں جب کہ ہم اپنے بچوں کو خود جھوٹ بولنا سکھاتے ہیں۔ (اللہ کی پناہ) حضرت لقمان علیہ السلام نے مثال بھی کتنی اچھی دی کہ جھوٹ چڑیا کی گوشت کی طرح لذیز ہوتا ہے لیکن معمولی جھوٹ کی برائی جھوٹ بولنے والے کو ہلاک و برباد کر کے رکھ دیتی ہے جس طرح گوشت کی لذت تھوڑی دیر کے لئے ہے یوںہی جھوٹ کی لذت بھی تھوڑی دیر کے لئے ہے۔ کا ش ہم سمجھنے کی کوشش کرتے اور جھوٹ سے بچ کرخود کوہلاک ہونے سے بچاتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر کے تمام بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جھوٹ کی برائی سے آگاہ کرتے رہیں تاکہ بچوں کو جھوٹ کی برائی کا پتہ چل سکے۔ مولیٰ ہم سب پر کرم کی نظر فرمائے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
سب سے بڑی خیانت
حضرت سفیان بن اسد حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے سچاجان رہا ہو اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ (بخاری شریف، ابو دائود )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! مذکورہ حدیث پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت کم لوگ اس سے محفوظ نظر آئیں گے۔ ہم کو شش کریں کہ اس قسم کی خیانت نہ کریں بلکہ ہر قسم کی خیانت سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اس میں ہمارا فائدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں جہاں کی رسوائیوں سے مولیٰ بچا لے گا۔ اور خوب خوب عزت اور برکتوں سے نوازے گا۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
جھوٹ سے بچنے کی برکت
سید الا ولیاء، پیرانِ پیر، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب والدہ ماجدہ سے رخصت ہوکر بغداد جانے والے ایک قافلے میں شامل ہو گئے آپ کا قافلہ ہمدان کے مشہور شہر تک تو بخیریت پہونچ گیالیکن جب ہمدان سے آگے کوہستانی علاقے میں پہونچا تو ساٹھ ڈاکوئوں کے ایک جتھے نے قافلہ پر حملہ کردیا۔ اس جتھے کا سردار ایک طاقتور قزاق احمد بَدْوِیْ تھا۔ قافلے کے لوگوں میں ان خونخوار قزاقوں کے مقابلہ کی سکت نہ تھی، قزاقوں نے قافلے کاتمام مال و اسباب لوٹ لیا اور اُسے تقسیم کرنے کے لئے ایک جگہ ڈھیر کر دیا۔ حضرت غوث الا عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ اطمینان سے کھڑے رہے لڑکا سمجھ کر کسی نے آپ سے تعرض نہ کیا اتفاقاً ایک ڈاکو کی نظر اُن پر پڑی اور آپ سے پو چھا کیو ں لڑکے تیرے پاس بھی کچھ ہے؟حضور غوث اعظم نے بلا خوف وہراس کے اطمیان سے جواب دیا:ہاں میرے پاس چالیس دینارہیں۔ ڈاکو کو آپ کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ آپ پر ایک نگاہِ استہزاء ڈالتا ہوا چلا گیاپھر ایک دوسرے ڈاکو نے پوچھا لڑکے تیرے پاس کچھ ہے؟ آپ نے اسے بھی وہی جواب دیا کہ ہاں میرے پاس بھی چالیس دینار ہیں۔ اس رہزن نے بھی آپ کی با ت کو ہنسی میں اڑادی اوراپنے سردار کے پاس چلا گیا پہلا قزاق وہاں پہلے ہی موجود تھا اورلوٹ کے مال کی تقسیم ہو رہی تھی ان دونوں ڈاکؤں نے سرسری طور پر اس لڑکے کا واقعہ اپنے سردار کوسنایا۔ سردار نے کہا اس لڑکے کوذرا میرے سامنے لاؤ، دونوں ڈاکو بھاگتے گئے اور غوث اعظم کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے۔
ڈاکوئوں کے سردار نے اس فقیر منش نوجوان لڑکے کو دیکھ کر پوچھا۔ سچ بتا تیرے پاس کیاہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں پہلے بھی تیرے دو ساتھیوں کو بتا چکا ہوں کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ سردارنے کہا : کہاں ہیں ؟ آپ نے فرمایا میری بغل کے نیچے گدڑی میں سلے ہوئے ہیں۔
سردار نے گدڑی کو ادھیڑ کر دیکھا تو اس میں واقعی چالیس دینار نکلے، ڈاکوئوں کا سردار اور اس کے ساتھی یہ ماجرا دیکھ کر سکتے میں آگئے، قزاقوں کے قائد احمد بدوی نے اِستعجاب کے عالم میں کہا لڑکے تمھیں معلوم ہے کہ ہم رہزن ہیں پھربھی تم ہم سے مطلق نہ ڈرے اور اِن دیناروں کا بھید ہم پر ظاہر کردیا، اس کی وجہ کیا ہے ؟ سیدنا غوث اعظم نے فرمایا میری پاکباز اور ضعیف العمر والدہ نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ کبھی زبان پر نہ لانا۔ بھلا والدہ کی نصیحت میں چالیس دیناروں کو بچانے کی خاطر کیوںکر فراموش کر سکتا ہوں ؟
یہ الفاظ نہیں بلکہ حق و صدا قت کے ترکش سے نکلا ہوا ایک تیر تھا جو احمد بدوی کے سینے میں پیوست ہو گیا، اس پر رقت طاری ہو گئی، ندامت کے آنسوئوں نے دل کی شقاوت اور سیاہی دھو ڈالی، روتے ہوئے بولاآہ بچے !تم نے اپنی ماں کے عہد کا اتنا پاس و لحاظ رکھا اور مجھ پر افسوس ہے کہ اتنے سالوں سے اپنے خالق کا عہد توڑ رہا ہوں، یہ کہہ کر وہ اتنا رویا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ پھرسیدنا غوث اعظم کے قدموں پر بے اختیار گر پڑا اور رہزنی سے توبہ کی اس کے ساتھیوں نے یہ ماجرا دیکھا تو ان کے دل بھی پگھل گئے اور سب نے بہ یک زبان کہا اے سردار، تو رہزنی اور ڈکیتی میں ہمارا قائد تھا اوراب توبہ میں بھی ہمارا پیش رو ہے۔ ( سیرت غوث اعظم )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! مذکور ہ واقعہ سے ہمیں خوب خوب نصیحت حاصل کرنی چاہئے ــصرف ’’غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے ‘‘کے نعرے سے ہی نہیں بلکہ غوث اعظم کے کردار سے ان کی محبت کا ثبوت دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو سید نا غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کردار و اعمال کا صدقہ عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
ٹیگز:-
جھوٹ , علامہ شاکر نوری , نفاق , شاکر نوری , برکت , حضرتِ لقمان , مومن , خیانت , گناہِ کبیرہ , مولانا شاکر نوری صاحب , مولانا محمد شاکر نوری رضوی , مولانا شاکر نوری , مولانا محمد شاکر نوری , جھوٹا , محمد شاکر نوری