جہاں حضرت علی ہونگے وہاں قرآن ہوگا اور جہاں قرآن ہوگا وہاں مولا علی ہونگے
روافض کا ایک کذب : جہاں حضرت علی ہونگے وہاں قرآن ہوگا اور جہاں قرآن ہوگا وہاں مولا علی ہونگے ایک کذب اور باطل روایت ہے اصول محدثین اور اعلیحضرت کے منہج کے مطابق
(بقلم اسد الطحاوی الحنفی البریلوی)
امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں ایک روایت لاتے ہیں
أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله الحفيد، ثنا أحمد بن محمد بن نصر، ثنا عمرو بن طلحة القناد، الثقة المأمون، ثنا علي بن هاشم بن البريد، عن أبيه قال: حدثني أبو سعيد التيمي، عن أبي ثابت، مولى أبي ذر قال:
كنت مع علي رضي الله عنه يوم الجمل، فلما رأيت عائشة واقفة دخلني بعض ما يدخل الناس، فكشف الله عني ذلك عند صلاة الظهر، فقاتلت مع أمير المؤمنين، فلما فرغ ذهبت إلى المدينة فأتيت أم سلمة فقلت: إني والله ما جئت أسأل طعاما ولا شرابا ولكني مولى لأبي ذر، فقالت: مرحبا فقصصت عليها قصتي، فقالت: أين كنت حين طارت القلوب مطائرها؟ قلت: إلى حيث كشف الله ذلك عني عند زوال الشمس، قال: أحسنت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:
«علي مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض»
هذا حديث صحيح الإسناد وأبو سعيد التيمي هو عقيصاء ثقة مأمون، ولم يخرجاه “
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 4628 – صحيح
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور امام ذھبی بھی موافقت کرتے ہیں
(نوٹ: امام ذھبی کے منہج پر بھی یہ روایت باطل ثابت کرینگے )
اس روایت کو امام طبرانی بھی اپنی معجم میں روایتے کرتے ہیں
-
حدثنا عباد بن عيسى الجعفي الكوفي، حدثنا محمد بن عثمان بن أبي البهلول الكوفي، حدثنا صالح بن أبي الأسود، عن هاشم بن بريد، عن أبي سعيد التيمي الخ۔۔
[المعجم الکبیر برقم:720]
اس روایت کا مرکزی راوی ھاشم بن برید ہے جس سے امام حاکم اور امام طبرانی یہ روایت نقل کرتے ہیں
اور ہاشم بن برید سے اسکا بیٹا بیان کرتا ہے جسکی سند مستدرک اور تاریخ بغداد میں ہے مگر یہی رافضی کی روایت تاریخ بغداد میں یوں ہے کہ جدھر علی ہونگے حق ادھر ہوگا اور جہاں حق ہوگا وہاں علی ہوگا
(یہ رافضی کبھی مولا علی کو قرآن کے ساتھ کبھی حق کے الفاظ کے ساتھ بیان کرتا ہے )
اور دوسری سند میں ہاشم بن برید سے صالح بن الاوسود بیان کرتا ہے
ھاشم بن برید کے بارے محدثین کی آراء درج ذیل ہے :
۱۔ امام بخاری سے :
هاشم بن البريد كوفي.
سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري هاشم بن البريد وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.
امام بخاری فرماتے ہیں کہ ھاشم بن بریدہ اور اسکا بیٹا دونوں غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے
[تاریخ الکبیر برقم:2033 ]
۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں :
وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اسکی روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اسکے بیتے کو بھی اور میں اسکی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکتا لیکن اسکی روایات میں جو نکارت ہے وہ اسکے بیٹے کی وجہ سے ہے
[الکامل فی الضعفاء]
۳ ۔ امام الجوزجانی سے
88 – هاشم بن البريد
89 – وابنه علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما
ھاشم بن برید اور اسکا بیٹا علی بن شاہم یہ غالی اور برے مذہب والے(رافضی) تھے
[أحوال الرجال الجوزجاني، أبو إسحاق]
۴۔ امام عجلی کہتے ہیں ثقہ تھا لیکن شیعہ تھا
1713- هاشم بن البريد: “كوفي”، ثقة، وكان يتشيع.
[العجلی ثقات]
۵۔ امام احمد بن حنبل
نا عبد الرحمن انا محمد ابن حمويه [بن الحسن – 1] قال سمعت أبا طالب أحمد بن حميد قال قال احمد ابن حنبل: هاشم بن البريد لا بأس به.
ھاشم بن برید میں کوئی حرج نہیں
نا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين انه قال: هاشم بن البريد ثقة.
امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ھاشم بن برید ثقہ ہے
[الجرح والتعدیل ]
۶۔ امام ذھبی
6710 – د س ق / هَاشم بن الْبَرِيد صَدُوق يترفض
ھاشم بن بریدہ سچا تھا لیکن رافضی تھا
[المغنی فی الضعفٓاء امام ذھبی]
اور میزان الاعتدال میں فرماتے
هاشم بن البريد [د، س، ق] أبو على.
عن زيد بن علي، ومسلم البطين.
وعنه ابنه، والخريبي، وجماعة.
وثقه ابن معين وغيره، إلا أنه يترفض.
وقال أحمد: لا بأس به.
ثقہ ہے ابن معین کہتے ہیں لیکن یہ رافضی تھا
[میزان الاعتدال برقم: 9181]
اور دیوان الصعفاءمیں فرماتے ہیں کہ سچا تھا مگر شیعت میں غالی تھا
هاشم بن البريد الكوفي: صدوق غال في التشيع. -د، س، ق-
[دیوان الضعفاء، برقم: 4440الذھبی]
امام دارقطنی
سَمِعت أَبَا الْحسن يَقُول هَاشم بن الْبَرِيد ثِقَة مَأْمُون
وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب
ھاشم بن برید ثقہ مامون ہیں
یہ والد ہے علی بن ہاشم کے جو کذاب تھا
[سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني 266تا 67]
اسکے بیٹے علی بن ھاشم کے بارے محدثین کی رائے
امام احمد :
علي بن هاشم ما به بأس
اس میں کوئی حرج نہیں
[العلل ومعرفة الرجال برقم:3225]
امام بخاری
علي بن هاشم غاليان في سوء مذهبهما.
امام بخاری فرماتے ہیں علی بن ھاشم غالی اور برے مذہب والا(رافضی) تھا
[تاریخ الکبیر]
امام ابن عدی :
۲ ۔ امام ابن عدی کہتے ہیں :
وَقَالَ ابْن عدي: لَيْسَ لَهُ كثير حَدِيث، إِنَّمَا يذكر بالغلو فِي التَّشَيُّع وكذاك ابْنه عَليّ، وَأما هَاشم فمقدار مَا يرويهِ لم أر فِي حَدِيثه شَيْئا مُنْكرا، والمناكير تقع فِي حَدِيث ابْنه.
اسکی(علی بن ھاشم کے باپ) روایت زیادہ نہیں ہیں اسکو شیعت میں غالی بیان کیا گیا ہے اور اسکے بیتے کو بھی اور میں اسکی کوئی منکر روایت پر مطلع نہین ہو سکتا لیکن اسکی روایات میں جو نکارت ہے وہ اسکے بیٹے کی وجہ سے ہے
[الکامل فی الضعفاء]
امام دارقطنی :
267 – وَهُوَ أَبُو عَليّ بن هَاشم بن الشَّهِيد كَذَّاب
جو والد ہے ابو علی بن ھاشم جو کذاب ہے
[سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني267]
علی بن مدینی ، ابن معین اور ابو زرعہ کہتے ہیں ثقہ و صدوق ہے اور ابی حاتم کہتے ہیں شیعہ ہے اسکی روایت لکھی جائے گی (شواہد میں ) ہے
سمعت يحيى بن معين يقول علي بن هاشم بن البريد ثقة،.
نا عبد الرحمن نا محمد بن أحمد بن البراء قال قال علي بن المديني علي بن هاشم بن البريد كان صدوقا
، نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن علي بن هاشم بن البريد فقال كان يتشيع يكتب حديثه،
نا عبد الرحمن قال سئل أبو زرعة عن على ابن هاشم بن البريد فقال صدوق.
[الجرح والتعدیل ]
علی بن ھاشم كان غاليا في التشيع وروى المناكير عن المشاهير
علی بن ھاشم غالی شیعہ تھا یعنی رافضی اور یہ مشاہیر سے مناکیر بیان کرتا تھا
[المجروحین بن حبان ]
امام ذھبی میزان میں اس راوی کے بارے میں تفصیل لکھتے ہیں :
-
على بن هاشم [م، عو] بن البريد، أبو الحسن الكوفي الخزاز، مولى قريش.
عن هشام بن عروة، وجماعة.
وعنه أحمد، وابنا أبي شيبة، وخلق.
وثقة ابن معين، وغيره.
وقال أبو داود: ثبت يتشيع.
وقال البخاري: كان هو وأبوه غاليين في مذهبهما.
وقال ابن حبان: غال في التشيع.
روى المناكير عن المشاهير.
قلت: ولغلوه ترك البخاري إخراج حديثه، فإنه يتجنب الرافضة كثيرا، كأنه يخاف من تدينهم بالتقية ولانراه يتجنب القدرية ولا الخوارج ولا الجهمية، فإنهم على بدعهم يلزمون الصدق، وعلى بن هاشم، قال أحمد: سمعت منه مجلسا واحدا.
قلت: ومات قديما في سنة إحدى وثمانين ومائة (1) ، فلعله أقدم مشيخة الامام أحمد وفاة.
قال جعفر بن ابان: سمعت ابن نمير يقول: على بن هاشم كان مفرطا في التشيع منكر الحديث.
قال ابن حبان: حدثنا مكحول، سمعت جعفرا بهذا.
قال أبو زرعة: صدوق.
وقال النسائي: ليس به بأس.
یہ قریش کا آزاد کردہ غلام تھا اس نے ہشام بن عرہ اور ایک جماعت سے روایت بیان کی ہیں جبکہ اس سے امام احمد ، ابو شیبہ کے دونوں بیٹوں اور ایک مخلوق نے روایت کیا ہے
یحییٰ بن معنی اور دیگر حضرات نے اسکو ثقہ قرار دیا ہے امام ابی داود کہتے ہیں یہ ثبت ہے اور اس میں تشیع پایا جاتا تھا
امام بخاری کہتے ہیں یہ ااور اسکا والد اپنے مسلک میں غالی (یعنی رافضی اور داعی) تھے ابن حبان کہتے ہیں یہ شیعت میں غالی (یعنی رافضی و داعی) تھے
اس نے مشہور راویوں کے حوالے سے منکر روایات بیان کی ہیں
امام ذھبی پھر اپنا تبصرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
میں کہتاہوں : اس غلو کی وجہ سے امام بخاری نے اس سے حدیث نقل کرنا پسند نہیں کیا
(اسکی وجہ کیا ہے امام ذھبی اہل سنت کا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں )
کیونکہ امام بخاری رافضیوں سے بہت زیادہ اجتناب کرتے تھے ، انہین انکے مسلک میں تقیہ (جھوٹ کو عبادت سمجھ کے بولنا ) کا بہت اندیشہ ہوتا تھا
ہم نے انہیں (امام بخاری) کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے قدریوں ، یا خارجیوں یا جہمیوں سے اجتناب کیا ہو ، لیکن انکی بدعت کے باجوود یہ سچ بولتے ہیں اور اسکو اختیار کرتے ہیں
(یہ وہ اہلسنت کا منہج ہے کہ رافضی راوی جتنہ بھی ثقہ ہو صدوق ہو چونکہ رافضی جھوٹ بولنے اور کذب بیانی کرنے میں کوئی غلط محسوس نہین کرتے تو انکے تفرد کو انکے مذہب کے موافق روایت میں ہمیشہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا )
علی بن ہاشم کے بارے امام احمد کہتے ہیں میں نے ان سے ایک محفل میں سماع کیا
میں (ذھبی) کہتا ہوں اسکا انتقال بہت پہلے 181ھ میں ہو گیا تھا ، شاید یہ وفات کے اعتبار سے امام احمد کا سب سے مقدم شیخ ہے
جعبر بن ابان ار ابن نمیر کہتے ہیں سنا ہے علی بن ہاشم نامی راوی تشیع میں افارق کا شکار تھا منکر الھدیث تھا ،
ابن حبان کہتے ہیں : مکحول نے ہمیں حدیث بیان کی ہے میں نے جعتکر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے
امام ابو زرعہ کہتے ہیں یہ صدوق ہے ، نسائی کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں
[میزان الاعتدال 5960]
یہ ہے وہ اہلسنت کا منہج جس سے عام لوگ نہ واقف ہوتے ہیں اور شعیہ یا رافضی کی فقط توثیق دیکھ کر اسکی ہر روایت اندھا دھند قبول کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ چونکہ رافضی بدعت کبریٰ کے مرتکب ہوتے ہیں اور رافضی ہمیشہ سچ بولے ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ امام اسکی حدیث میں توثیق کر بھی دیتےہیں تو یہ روافض ایسی روایات مشہور محدثین سے بیان کر دیتے ہیں جو منکرات میں سے ہوتی ہین جس کو کذب پر محمول کیا جاتا ہے
اس لیے امام ذھبی میزان الاعتدال میں شیعہ اور رافضی کا فرق اور اور کے بارے میں اہلسنت کا منہج واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
آخر بدعتی کی توثیق ہی کیوں جائز ہوئی ؟ حالانکہ توثیق کی تعریف میں عدات اور اتفاق آتا ہے تو کوئی بدعتی عادل کیس ہو سکتا ہے ؟
امام ذھبی یہ اعتراض نقل کرکے اسکا جواب یوں دیتے ہیں ؛
بدعت کی دو قسمیں ہوتی ہے
۱۔بدعت صغریٰ
۲۔ بدعت کبریٰ
بدعت صغریٰ جیسے غالی شیعہ ہونا یا غلو اور تحریکے کے شیعہ ہونا یہ قسم میں تو بہت سے تابعین اور تابع تابعین میں تھی باجود یہ کہ وہ دیندار متقی اور صادت تھے لہذا ایسوں کی حدیث بھی رد کر دی جائے تو حدیث کا ذخیرہ احادیث کا ایک برا حصہ ضائع ہو جائے گا
۲۔ بدعت کبریٰ
جسیے کہ رافضی ہونا اور رفض میں غالی ہونا ہے
حضرت شیخین کی شان میں گستاخی کرنا اور اس پر دوسروں کو ابھارنا (یعنی داعی ہونا ) اس قسم والے کی روایت قابل احتجاج نہیں نہ ہی اس کی وئی عزت و تکریم ہے اس قسم میں اب مجھے کوئی نہیں یاد ہو صادق اور مومون ہو (جسکی روایت اسکے مذہب کی تائید میں بھی قبول کر لی جائے ) کیونکہ انکا شعار جھوٹ بولنا تقیہ کرنا اور معاملات میں نفاق کا مظاہرہ کرنا ہے لہذا جس کا یہ حال ہو ایسے کی روایت بھلا قبول کیسے کی جائے گی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی
[میزان الاعتدال ص 6 ]
اور امام ابن حجر عسقلانی مذید تصریح کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں اس بات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
عرف میں متقدمین میں تشیع سے مراد شیخین کو دیگر صحابہ پر فضیلت دینے کے ساتھ مولا علی کو حضرت عثمان غنی پر فضیلت ماننے کو کہا جاتا ہے اگرچہ حجرت علی اپنی جنگوں میں مصیب اورانکا مخلاف خطا پر تھا بعض کا نظریہ بھی ہے کہ حضرت علی رسول کے بعد سب سے افضل ہے اس طرح کا اعتقاد رکھنے والا متقی دیندار ہو اور سچا ہو تو محض اس وجہ سے اسکی روایت ترک نہیں ہوگی جبکہ وہ اپے اعتقاد کاداعی (یعنی غالی رافضی ) نہ ہو ، جبکہ عرف متاخرین میں تشیع سے مراد محض رفض ہے لہذا غالی رافضی ک روایت قبول نہیں نہ ہی اسکے لیے کسی کرامت ہے
تہذیب التہذیب جلد ۱ ، ص 93]
یعنی جو روایات میں رافضی و غالی اور داعی ہو اسکی روایت قبول نہیں ہوگی جس میں شیعت کی تقویت ہو یا اہل بیت کے فضائل میں روایت ہو
اور شیعہ کی روایت جو اسکے مذہب کے علاوہ ہوگی وہ قبول ہوگی
اس منہج کو لوگ سمجھ نہیں سکتے اسی طرح امام ذھبی سے تلخیص میں بہت جگہوں پر تسامح ہوئے ہیں جن روایت کی تصحیح کی ہے بعد والی کتب میں انہی روایا ت جرح کی ہے یا ان روایات کے راویان پر جرح شدید کی ہے تو تسامح کو دلیل بناناکم علموں کا شیوہ ہے روایات کو رجال کی معرفت پر ہی پرکھا جاتا ہے جو کہ انہی محدثین کا منہج ہے اور لوگ کنفیوز رہتے ہیں کہ ایسی راویوں کا کیا فیصلہ ہوگا تو یہ راویان عمومی روایتوں میں تو حجت ہو سکتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں شیعہ کو چھوڑ کر رافضی اور دااعی اور خاص کر صاحب منکرات رافضی راویان کی روایت کذب ہوتی ہیں اور جیسا کہ
امام ابن عدی
امام بن نمیر
امام ابن حبان
علی بن ھاشم منکر الحدیث اور مشہور راویان سے منکرات بیان کرتا تھا
تو ایسے راوی کی تفرد پر روایت جو اہل بیت کی شان میں ہو وہ ضرور گھڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ یہ باقی معملات میں تو ثقہ ہوتے ہیں لیکن اہل بیت کی شان میں غلو کرنا اور کذب بیانی کو تقیہ سمجھتے ہوئے جائز سمجھتے ہیں جو کہ انکا مذہب ہے
یہی وجہ ہے امام بخاری ایسوں کی روایت سے اجتناب کرتے اور قدریوں خارجیوں کی روایت لے لیتے کیونکہ وہ جھوٹ کو ہر حال میں گناہ سمجھتے تھے
اور اسی طرح امام اہل سنت شاہ امام احمد رضاء بریلوی محدث ہند فتاویٰ رضویہ میں حدیث موضوع کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛
(١٢) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہموعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہہوں،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون۔ت)
اقول: انصافًا یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبنالعاص رضی الله تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نےفضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی الله تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھحدیثوں کے وضع کیں”کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد”(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظخلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ت)
یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی الله تعالٰیعنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ت)
[فتاوی رضویہ]
تو یہ روایت منہج محدثین اور امام احمد رضاء کی تصریح کے مطابق کذب پر محمول ہے
علی بن ھاشم منکر الحدیث ، اور کثرت سے مناکیر مشاہیر سے بیان کرنے والا تھا
اور جو طبرانی کی روایت ہے اس میں ہاشم بن برید رافضی سے یہی روایت
صالح بن الاسود الکوفی منکر الحدیث ہے
2815 – صَالح بن ابي الاسود الْكُوفِي الحناط
عَن الاعمش مُنكر الحَدِيث
[میزان الاعتدال 2815]
اس روایت کے کذب پر دوسری دلیل صریح یہ ہے کہ کبھی یہ بیان کرتا ہے کہ جہاں علی ہوگا وہاں حق ہوگا اور کبھی بیان کرتا ہے جہاں علی ہوگا وہی قرآن ہوگا
قرآن تو ہر صحابی کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔۔ البتہ حق کسی صحابی کے ساتھ صحیح اجتیہاد میں ہوتا ہے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا تو اجتیہادی خطاء ہوتی ہے ۔۔۔۔ یہ فرق ہے اہلسنت اور روافض میں اس روایت سے صاف پتہ چلتا ہے جس طرف علی ہونگے قرآن اس طرف مڑج جائے گا ۔۔ معاذاللہ اور پھر ہے کہ چونکہ قرآن اس طرف ہو چکا ہے یعنی مولا علی کی طرف تو قرآن وہی ہے جہاں مولا علی ہیں یہ ہے اس روایت کا لب لباب
تو یہ رافضی کا کذب کی صریح دلیل ہے
اس روایت کو بیان کرنا جائز نہیں اور یہ روافض کا تیار کردہ تحفہ ہے
خلاصہ تحقیق :
ھاشم بن برید رافضی راوی ہے اسکا تفرد ہے
معجم مین ھاشم کا متابع منکر الحدیث ضعیف جدا راوی ہے
اور اسکا بیٹا بھی رافضی ہے اور مشاہیر سے منکرات بیا کرتا تھا اور کذاب راوی ہے
تحقیق : دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی