فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِبۡكَارِ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 55
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِبۡكَارِ ۞
ترجمہ:
سو آپ صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے اور آپ اپنے بظاہر خلاف اولیٰ کاموں کے لیے بخشش طلب کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ صبح اور شام تسبیح کیجئے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
سو آپ صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے اور آپ اپنے بظاہر خلاف اولیٰ کاموں کے لیے بخشش طلب کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ صبح اور شام تسبیح کیجئے بیشک جو لوگ بغیر کسی ایسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کررہے ہیں ان کے دلوں میں صرف بڑا بننے کی ہوس ہے جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں، سو آپ اللہ سے پناہ طلب کیجئے، بیشک وہ خوب سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے ضرور بہت بڑا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہے اور نہ مؤمنین صالحین بدکاروں کے برابر ہیں، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو بیشک قیامت ضرور آنے والی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “ (المومن :55-57)
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد فرماتا ہے اور اس کی مثال میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا ذکر فرمایا، اب اس کے بعد ہمارے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر فرمارہا ہے کہ آپ صبر کیجئے، بیشک اللہ کا وعدہ برحق ہے، اللہ تعالیٰ آپ کی اس طرح مدد فرمائے گا جس طرح پہلے رسولوں کی مدد فرمائی تھی اور اللہ آپ سے کیا ہوا وعدہ اسی طرح پورا فرمائے گا جس طرح پہلے رسولوں سے کیا ہوا وعدہ پورا فرمایا تھا اور آپ سے فرمایا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ رہیں جس سے آپ کو دنیا اور آخرت میں نفع ہوگا کیونکہ جو اللہ کا ہوجاتا ہے اللہ اس کا ہوجاتا ہے۔ پھر جامع اطاعت یہ ہے کہ جو کام نہیں کرنے چاہئیں بندہ ان سے توبہ کرے اور جو کام کرنے چاہئیں بندہ ان میں مشغول رہے، اس لیے اوّل الذکر کے متعلق آپ سے فرمایا : ” اور آپ اپنے بظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی مغفرت طلب کیجئے “ اور ثانی الذکر کے متعلق فرمایا : ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ صبح اور شام تسبیح کیجئے۔ “
ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کے حکم کی مفسرین کے نزدیک توجیہات
منکر عصمت نبوت، آریہ سماج اور دیگر ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ المومن : ٥٥ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا : ” اور آپ اپنے ذنب کی مغفرت طلب کیجئے “ اور ذنب کا معنی ہے : جرم اور اثم، یعنی گناہ اور گناہ کی مغفرت طلب کرنے کا اس کو حکم دیا جاتا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہو، اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ گناہ کیے تھے جبھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو گناہوں پر مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے، ہمارے متقدمین مفسرین نے اس اعتراض کے متعدد جوابات دیئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :
امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس کے حسب ذیل جوابات دیئے ہیں :
(١) ہم اس آیت کو ترک اولیٰ اور ترک افضل سے توبہ کرنے کے حکم پر محمول کرتے ہیں (اور افضل اور اولیٰ کو ترک کرنا گناہ نہیں ہے) ۔
(٢) یہ حکم تعبدی ہے، یعنی ہرچند کہ آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا اور آپ کو توبہ کرنے کا حکم دینا ماوراء عقل ہے لیکن اللہ تعالیٰ عی عبادت گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی حکم عقل میں آئے یا نہ آئے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو اس پر عمل کیا جائے۔
(٣) اس آیت میں مصدر کی مفعول کی طرف اضافت ہے یعنی ” واستغفرالذنب امتک فی حقک “ اس کا معنی ہے آپ کی امت کے آپ کے حق میں جو ذنب ہیں ان پر استغفار کیجئے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٢٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے حسب ذیل جوابات ذکر کیے ہیں :
(١) اس آیت کا معنی ہے : آپ اپنی امت کے گناہوں کے لیے استغفار کیجئے، اس تاویل میں مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کیا گیا ہے۔
(٢) آپ اپنے گناہ پر مغفرت طلب کیجئے، اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں، یہ تاویل ان کے لفاظ سے ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے لیے صغیرہ گناہوں کے قائل ہیں۔ (ہمارے نزدیک یہ جواب صحیح نہیں ہے)
ربناواتنا ماوعدتنا علی رسلک۔ (آل عمران : 194) اے ہمارے رب ! ہمیں وہ نعمتیں عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کی زبانی ہم سے وعدہ فرمایا ہے۔
ظاہر ہے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ اس کو ضرور عطا فرمائے گا خواہ وہ اس کی دعا کرتے یا نہ کرتے لیکن انہوں نے اپنی بندگی کا اظہار کرنے کے لیے یہ دعا کی۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا لیکن آپ کو استغفار کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ آپ اپنی بندگی کا اظہار کریں۔
(٤) آپ کو دعا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ آپ کے بعد طلب مغفرت کی دعا آپ کی سنت ہوجائے۔
(٥) قبل نبوت جو آپ سے گناہ صادر ہوئے آپ ان پر استغفار کیجئے (یہ جواب بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہوتا ہے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، صورتاً ہوں یا حقیقتاً ۔
قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی ٦٨٥ ھ نے اس آیت کا حسب ذیل محمل بیان کیا ہے :
آپ اپنی عبادت اور احکام کی اطاعت کی طرف متوجہ رہیں اور آپ سے جو تقصیرات ہوگئی ہیں ان کا تدارک کریں مثلاً ترک اولیٰ ۔
علامہ احمد بن محمد خفا جی متوفی ١٠٦٩ ھ نے اس عبارت کی شرح میں لکھا ہے :
قاضی بیضاوی کی ذکر گروہ تقصیرات سے مراد یہ ہے کہ جو کام آپ سے بغیر قصد اور عمد کے صادر ہوگئے، آپ ان پر استغفار کرکے ان کی تلافی کریں۔ (عنایۃ القاضی ج ٨ ص ٢٧٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ محمد بن مصلح الدین اقوجوی الحنفی المتوفی ٩٥١ ھ نے بیضاوی کی اس عبارت کی شرح میں لکھا ہے :
ظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ فرماتا ہے اور ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم آپ کی طرف گناہ کی نسبت کریں۔ (حاشیہ شیخ زادہ ج ٧ ص ٣٣٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت ١٤١٩ ھ)
علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے اس آیت کے حسب ذیل محامل بیان کیے ہیں :
١) بعض اوقات جو آپ نے جلدی میں اولیٰ کاموں کو ترک کردیا تو آپ استغفار کرکے ان کا تدارک کیجئے۔
٢) اگر بالفرض آپ سے کوئی گناہ ہوا ہے تو آپ اس پر استغفار کیجئے۔
٣) یہ حکم تعبدی ہے تاکہ اس پر عمل کرکے آپ کے درجات میں اضافہ ہو اور آپ کے بعد والوں کے لیے وہ عمل سنت ہو۔
٤) یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں۔
٥) جس ذنب (گناہ) کی آپ کی طرف نسبت کی گئی ہے اس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس طرح کوئی شخص آپ کے سہو کی حقیقت کو نہیں جانتا، اس لیے کسی امتی کے لیے آپ کی طرف گناہ کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ (روح البیان ج ٨ ص ٢٦٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے اس آیت کے تحت وہی جواب ذکر کیا ہے جس کو قاضی بیضاوی نے لکھا ہے۔
(روح المعانی جز ٢٤ ص ١١٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)
ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کے حکم کی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے ………نزدیک توجیہات
آریہ سماج (ہندو پنڈتوں) نے ” واستغفر لذنبک “ (المومن :55) سے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارے نبی نے گناہ کیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کو استغفار کرنے کا حکم دیا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ العزیز کے پاس یہ سوال بھیجا گیا تو انہوں نے اس کے پندرہ جواب دیئے، ہم ان میں سے گیارہ جوابات کو پیش کررہے ہیں، چوتھا جواب یہ ہے :
(١) (٤) اس کے ترجمے میں بھی آریہ نے تحریف کی۔ عبارت یہ ہے : ” لتقصیر الشکر علی ماانعم اللہ علیک وعلی اصحابک “ یعنی اللہ عزوجل نے آپ پر اور آپ کے اصحاب پر جو نعمتیں فرمائیں اور ان کے شکر میں جس قدر کمی واقع ہوئی اس کے لیے استغفار فرمائیے، کہاں کمی اور کہاں غفلت۔ نعمائے الٰہیہ ہر فرد پر بیشمار حقیقۃ غیر متناہی بالفعل ہیں، کما حققہ المغتی ابن السعود فی ارشاد العقل السلیم قال اللہ عزوجل ” وان تعدو نعمۃ اللہ لا تحصوھا “ اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو نہ گن سکو گے، جب اس کی نعمتوں کو کوئی گن نہیں سکتا تو ہر نعمت کا پورا شکر کون ادا کرسکتا ہے۔
از وست وزباں کہ برآید کز عہدہ شکرش بدر آید
شکر میں ایسی کمی ہرگز گناہ بمعنی معروف نہیں بلکہ لازمہ بشریت ہے، نعمائے الٰہیہ ہر وقت ہر لمحہ ہر آن ہرحال میں متزائد ہیں خصوصاً خاصوں پر خصوصاً اون پر جو سب خاصوں کے سردار ہیں اور بشر کو کسی وقت کھانے پینے سونے میں مشغول ضرور اگرچہ خاصوں کے یہ افعال بھی عبادت ہی ہیں، مگر اصل عبادت سے تو ایک درجہ کم ہیں، اس کمی کو تقصیر اور اس تقصیر کو ذنب سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٥، مکتبہ رصویہ، کراچی)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں مجازاً شکر کی ادائیگی میں کمی کو ذنب فرمایا ہے اور وہ گناہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں غیر متناہی ہیں اور متناہی وقت میں غیر متناہی نعمتوں پر شکر ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، یہ مجازمرسل ہے۔
(٢) (٥) بلکہ خود نفس عبارت گواہ ہے کہ یہ جسے ذنب فرمایا گیا ہرگز حقیقتہ ذنب بمعنی گناہ نہیں ” ماتقدم “ سے کیا مراد لیا وحی اوترنے قرمان کہاں تھا جب فرمان نہ تھا مخالفت فرمان کے کیا معنی اور جب مخالفت فرمان نہیں تو گناہ کیا ؟ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٥)
طریقے سے ان کو ” ماتخر “ فرمایا کو وحی بتدریج نازل ہوئی نہ کہ دفعتہ۔ (فتاوی رضویہ ج ٩ ص ٧٥)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ الفتح : ٢ میں ” ماتاخر “ کو بھی گناہ فرمایا، حالانکہ جن کاموں کے کرنے کے بعد ان کی ممانعت نازل ہوئی وہ کیسے گناہ ہوسکتے ہیں لہٰذا ” ماتاخر “ کو بھی گناہ کا اطلاق مجازاً ہے، یہ بھی مجاز مرسل ہے۔
ساتواں ہندئوں کی وید کی عبارات پر مشتمل الزمی جواب ہے اس کو ہم نے ترک کردیا، آٹھواں جواب یہ ہے :
(٤) (٨) استدلال بڑی ذمہ داری کا کام ہے آریہ بیچارہ کیا کھا کر اوس سے عہد برآ ہوسکتا ہے ؎
نبا شدبہ آئین تحقیق دال کچوری وپوری وبھجیا ودال
شرط تمام استدلال قطع ہر احتمال ہے علم کا قائدہ مسلمہ ہے ” اذا جاہ الاحتمال بطل الاستدلال “ سورة مومن و سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیت کریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے خطاب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ مومن میں تو اتنا ہے ” واستغفر لذنبک “ اے شخص ! اپنی خطا کی معانی چاہ کسی کا خاص نام نہیں کوئی دلیل تخصیص کلام نہیں قرآن عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لیے اوترانہ صرف اوس وقت موجودین بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ” اقیموا الصلوٰۃ “ نماز بر پا رکھو یہ خطاب جیسا صحابہ کرام (رض) سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تاقیام قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی اسی قرآن عظیم میں ہے ” لا نذر کم بسہ ومن بلغ “ کتب کا عام قاعدہ ہے کہ خطاب ہر سامع سے ہوتا ہے بداں اسعدک اللہ تعالیٰ میں کوئی خاص شخص مراد نہیں پسالعقوی “ ابوجہل لعین نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز سے روکنا چاہا اوس پر یہ آیات کریمہ اوتریں کہ کیا تو نے دیکھا اسے جو رکتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے بھلا دیکھ تو اگر وہ بندہ ہدایت پر ہو یا پرہیز گاری کا حکم فرمائے یہاں بندے سے مراد حضور اقدس ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور غائب کی ضمیریں حضور کی طرف ہیں اور مخاطب کی ہر سامع کی طرف بلکہ فرماتا ہے : ” فما یکذبک بعد بالدین “ ان روشن دلیلوں کے بعد کیا چیز تجھے روز قیامت کے جھٹلانے پر باعث ہورہی ہے یہ خطاب خاص کفار سے ہے بلکہ اون میں بھی خاص منکران قیامت مثل مشرکین آریہ وہندو سے یو ہیں دونوں سورة کریمہ کاف خطاب ہر سامع کے لیے ہے کہ اسے سننے والے ! اپنے اور اپنے سب مسلمان بھایوں کے گناہ کی معافی مانگ۔ (فتاویٰ رصویہ ج ٩ ص ٧٦)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت (المومن : ٥٥) اور (محمد : ١٩) میں بالخصوص سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہیں ہے بلکہ ہر سننے والے مسلمان سے خطاب ہے کہ تم اپنے اور سب مسلمانوں کے گناہوں کے لیے استغفار کرو۔ یہ تعریض ہے۔
(٥) (٩) بلکہ آیت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو صاف قرینہ موجود ہے کہ خطاب حضور سے نہیں، اس کی ابتداء یوں ہے ” فاعلم الہ الا الہ اللہ واستغفر لذنبک وللمومنین والمومت “ جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی معافی چاہ تو یہ خطاب اوس سے ہے جو ابھی لا الہ الا اللہ نہیں جانتا ورنہ جاننے والے کو جاننے کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اے سننے والے ! جسے ابھی توحید پر یقین نہیں کے باشد توحید پر یقین لا اور اپنے اور اپنے بھائی مسلمانوں کے گناہ کی معافی مانگ ’ تتمہ ‘ آیت میں اس عموم کو واضح فرما دیا کہ ” واللہ یعلم منقلبکم ومثوکم “ اللہ جانتا ہے جہاں تم سب لوگ کروٹیں لے رہے ہو اور جہاں جہاں تم سب کا ٹھکانہ ہے اگر ” فاعلم “ میں تاویل کرے تو ” ذنبک “ میں تاویل سے کون مانع ہے اور اگر ” ذنبک “ میں تاویل نہیں کرتا تو ” فاعلم “ میں تاویل کیسے کرسکتا ہے دونوں پر ہمارا مطلب حاصل اور مدعی معاند کا استدلال زائل۔ (فتاویٰ رصویہ ج ٩ ص ٧٧۔ ٧٦)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ” واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنت “ (محمد :19) میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہیں ہے بلکہ کافر سے خطاب ہے کہ تو اللہ کی توحید پر ایمان لا، پھر اپنے لیے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے استغفار کر۔ یہ بھی تعریض ہے۔
(٦) (١٠) دونوں آیۃ کریمہ میں صیغہـ امر ہے اور امر انشا ہے اور انشا وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرض وقوع استغفار واجب نہ یہ کہ معاذ اللہ واقع ہوا جیسے کسی سے کہنا : ” اکرم ضیفک “ اپنے مہمان کی عزت کرنا اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئیگا ہی بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہو تو یوں کرنا۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٧)
اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگر بہ فرض محال آپ سے گناہ ہوجائے تو آپ اپنے گناہ پر استغفار کریں اور یہ قضیہ واقعیہ نہیں ہے بلکہ فرضیہ انشائیہ ہے۔ یہ المومن : ٥٥ اور محمد : ١٩ دونوں کا جواب ہے، یہ مجاز مرسل ہے۔
(٧) (١١) ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور قرآن عظم کے عرف میں اطلاق معصیت عمد ہی سے خاص نہیں۔ قال اللہ تعالیٰ ” وعصی ادم ربہ “ آدم نے اپنے رب کی معصیت کی حالانکہ خود فرماتا ہے : ” فنسیولم نجدلہ عزما “ آدم بھول گیا ہم نے اوسکا قصد نہ پایا لیکن سہونہ گناہ ہے نو اوس پر مواخذہ خود قرآن کریم نے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی : ربنا لاتواخذنا ان نسینا او اخطانا “ اے ہمارے رب ! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٧)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ المومن : ٥٥ اور محمد : ١٩ میں مراد یہ ہے کہ جو گناہ بھولے سے ہوجائے اس پر آپ استغفار کریں اور گناہ کی حقیقت عمداً معصیت اور نافرمانی کرنا ہے سو ان دونوں آیتوں میں ذنب کا اطلاق مجازی ہے، یہ بھی مجاز مرسل ہے۔
(٨) (١٢) جتنا قرب زائد اوسی قدر احکام کی شدت زیادہ ع جن کے رتبے ہیں سوا اون کو سوا مشکل ہے۔ بادشاہ جبار جلیل القدر ایک جنگلی کنوار کی جو بات سن لے گا جو برتائو گوارا کرے گا ہرگز شہریوں سے پسند نہ کرے گا شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پر بار دوسرے سے زائد ہے اس لیے وارد ہوا ” حسنات الابرار سیئات المقربین “ نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں وہاں ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانکہ ترک اولیٰ ہرگز گناہ نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٧)
اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اسی طرح ” لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر “ (الفتح : 2) میں خلاف اولیٰ کاموں پر ذنب کا اطلاق فرمایا ہے اور خلاف اولیٰ گناہ نہیں ہوتا سو یہ اطلاق مجازی ہے، یہ بھی مجاز مرسل ہے۔
(٩) (١٣) آریہ بیچارے جن کے باپ دادا نے بھی کبھی عربی کا نام نہ سنا اگر نہ جانے تو ہر ادنیٰ طالب علم جانتا ہے کہ اضافت کے لیے ادنی ملابست بس ہے بلکہ یہ عام طور پر فارسی اردو ہندی سب زبانوں میں رائج ہے، مکان کو جس طرح اوسکے مالک کی طرف نسبت کریں یو ہیں کرایہ دار کی طرف۔ ی وہیں جو رعایت لے کر سب رہا ہے اوس کے پاس ملنے آئیگا یہی کہے گا کہ ہم فلانے کے گھر گئے تھے بلکہ پیمائش کرنے والے جن کھیتوں کو ناپ رہے ہوں ایک دوسرے سے پوچھے گا تمہارا کھیت کئے جریب ہوا یہاں نہ ملک، نہ اجارہ، نہ عاریت اور اضافت موجود یو ہیں بیٹے کے گھر سے جو چیز آئے گی باپ سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے یہاں سے یہ عطا ہوا تھا تو ” ذنبک “ سے مراد اہل بیت کرام کی لغزشیں ہیں اور اوس کے بعد ” وللمومنین والمومنین “ تعیم بعد تخصیص ہے یعنی شفاعت فرمائیے، اپنے اہل بیت کرام اور سب مسلمان مردوں عورتوں کے لیے اب آریہ کے اوس جنون کا بھی علاج ہوگیا کہ پیرئو وں کا ذکر تو بعد کو موجود ہے تعمیم بعد تخصیص کی مثال خود قرآن عظیم میں ہے : ” رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین والمومنت “ اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ آیا اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨۔ ٧٧)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ” واستغفر لذنبک “ (محمد : 19) میں اہل بیت کی لغزشیں مراد ہیں ” وللمومنین والمومنات “ سے عام مسلمان مردوں اور عورتوں کی لغزشیں مراد ہیں اور یہ تعمیم بعد تخصیص ہے، اس میں مجاز بالحذف ہے۔
(١٠) (١٤) اسی وجہ پر کریمہ سورة فتح میں لام لک تعلیل کا ہے اور ” ماتقدم من ذنبک “ تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیدنا عبداللہ وسیدتنا آمنہ (رض) سے منتہائے نسب کریم تک تمام آبائے کرام وامہات طیبات باستثنائے انبیائے کرام مثل آدم وشیث ونوح و خلیل واسمٰعیل (علیہ السلام) اور ” ماتاخر “ تمہارے پچھلے یعنی قیامت تک تمہارے اہل بیت وامت مرحومہ تو حاصل کریمہ یہ ہوا کہ ہم نے تمہارے لیے فتح مبین فرمائی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے بخش دے تمہارے علاقہ کے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨)
اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ الفتح : ٢ میں ” ماتقدم “ سے آپ کے تمام آباء کرام کے گناہ اور ” ماتاخر “ سے آپ کے تمام اہل بیت کے گناہ مراد ہیں اور اس میں بھی مجاز بالحذف ہے۔
(١١) (١٥) ” ماتقدم وماتخر “ سے قبل وعبد نزول وحی کا ارادہ جس طرح عبارت تفسیر میں مصرح تھا آیت میں قطعاً محتمل اور ہم ثابت کرچے ہیں کہ اب حقیقت ذنب خود مندفع وللہ الحمد و صلی اللہ تعالیٰ علی شفیع المذنبین وبارک وسلم الی یوم الدین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨)
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح الفتح : ٢ میں ذنب سے مراد نزول وحی سے پہلے یا نزول وحی کے بعد کے کام مراد ہیں، اسی طرح المومن : ٥٥ اور محمد : ١٩ میں بھی یہ مثال ہے کہ ان ہی کاموں پر مجازاً ذنب کا اطلاق ہو اور یہ بھی مجاز مرسل ہے۔
متقدمین، مفسرین اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدسی سرہٗ کے جوابات کی بناء تعریض پر ہے یعنی ذکر آپ کا ہے اور مراد عام مخاطب ہے یا جوابات کی بناء مجاز مرسل پر ہے، یعنی ذنب سے مراد بظاہر خلاف اولیٰ کام ہیں یا مجاز بالحذف پر ہے یعنی بظاہر ذنت کی اضافت آپ کی طرف ہے اور مراد آپ کے اقارب یا آپ کے اگلے پچھلے (آباء اور اقارب) ہیں اور ان کے ذکرکوحذف کردیا گیا ہے۔
ہمارے نزدیک راجح جواب وہ ہے جس کی بناء مجاز مرسل پر ہے یعنی گناہ کی اضافت آپ کی طرف ہے اور گناہ سے مراد حقیقتاً گناہ نہیں ہیں، بلکہ بظاہر خلاف اولیٰ کام ہیں اور باقی دونوں جواب مرجوح ہیں، فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرات امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اس اعتراض کے اصل گیارہ جواب ذکر کیے ہیں جن میں دو کی بناء تعریض پر ہے دو کی بناء مجاز بالحذف پر ہے اور سات جوابات کی بناء مجاز مرسل پر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے نزدیک بھی مختار جواب یہی ہے، اتفاق سے اعلیٰ حضرت کے ترجمہ قرآن کنز الایمان میں الفتح : ٢، المومن : ٥٥ اور محمد ١٩ کا ترجمہ مجاز بالحذف کے طریقہ پر کیا گیا ہے، اس وجہ سے عوام میں یہی جواب مشہور ہوگیا، حالانکہ یہ اعلیٰ حضرت کا مختار جواب نہیں ہے۔ اس لیے فتاویٰ رضویہ میں ان جوابوں کو بالکل آخر میں ذکر فرمایا ہے حالن کہ اعلیٰ حضرت کا مختار جواب وہ ہے جس کی بناء مجاز مرسل پر ہے اور ان آیات میں ذنب سے مراد مجازاً بظاہرخلاف اولیٰ کام ہیں اور ہمارے شیخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہٗ کا مختار بھی یہی جواب ہے، اسی لیے آپ نے الفتح : ٢، المومن : ٥٥، اور محمد : ١٩ آیات کا ترجمہ اسی اعتبار سے فرمایا ہے اور ہم نے بھی بہ غور تحقیق کرنے کے بعد شرح صحیح مسلم ج ٣، ج ٦ اور ج ٧ میں اس ترجمہ کو راجح قرار دیا ہے اور اس ترجمہ کی وجہ ترجیح بھی وہیں بیان کردی ہے اور بتیان القرآن میں بھی اس ترجمہ اور اسی تحقیق کو برقرار رکھان ہے اور یہ لکھا ہے کہ جب ذنب کی نسبت آپ کی طرف ہو تو اس سے مراد خلاف اولیٰ ہے یا مکروہ تنزیہی ہے اور اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ میں متعدد جگہ یہ تصریح کی ہے کہ مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ گناہ نہیں ہے۔
دیکھئے فتاویٰ رضویہ ج ١ ص ١٧٩۔ ٠٨١۔ ١٧٣، ج ١١ ص ١٤٤، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی۔ اسی طرح فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٢٥٦ اور ج ٩ ص ٤٥٠۔ ٤٤٩، طبع رضا فائونڈیشن، لاہور میں بھی اس کی تصریح ہے۔
اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کرنے کا حکم دیا اور احادیث میں ذکر ہے کہ آپ ایک دن میں ستر بار اور بعض میں ہے کہ آپ دن میں سو بار توبہ فرماتے تھے، اس توبہ اور استغفار سے مراد آپ کے درجات میں اضافہ اور ترقی ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر روز کتنی بار استغفار کرتے تھے اور آپ کے استغفار کا محمل
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں :
وہ خود کثیر التوبہ ہیں۔ صحیح البخاری میں ہے : میں روز اللہ سبحانہٗ سے سو بار استغفار کرتا ہوں۔ شرح الشفاوالمرقاۃ واللمعات والمجمع بہ رمز (ط) للطیمی والزرقانی ہر ایک کی توبہ اس کے لائق ہے۔ حسنات الابرار سیئات المقربین (نیکوں کی خوبیاں مقربین کے گناہ ہیں) حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر آن ترقی مقامات قرب و مشاہدہ میں ہیں۔ ” وللاخرۃ خیر لک من الاولی “ (آپ کے لیے ہر پہلی ساعت سے دوسری افضل ہے۔ ) جب ایک مقام اجل واعلیٰ پر ترقی فرماتے گزشتہ مقام کو بہ نسبت اس کے ایک نوع تقصیر تصور فرما کر اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار لاتے تو ہمیشہ ترقی اور ہمیشہ توبہ لے تقصیر میں ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطالع مع بعض زیادات منی۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٦٥٣۔ ٦٥٢، رضا فائونڈیشن، لاہور)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نے صحیح بخاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ میں روز سو بار اللہ سبحانہ، سے استغفار کرتا ہوں لیکن بخاری میں سو بار استغفار کرنے کی حدیث نہیں ہے، صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣٠٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨١٥، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٢٩٧، مسند احمد ج ٢ ص ٤٥٠۔ ٣٤١۔ ٢٨٢ طبع قدیم، مسنداحمد ج ١٣ ص ٢٠٤، رقم الحدیث : ٧٧٩٣، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٧ ھ، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٢٥، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٢٨٦، شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٣٨، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٣٨)
ایک دن میں سو بار استغفار کرنے کی حدیث ان کتابوں میں ہے :
حضرت اغرمزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے دل پر ضرور ایک حجاب آجاتا ہے اور میں ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٥)
نیز حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میری زبان میں کوئی بیماری تھی جس کو میں کسی اور کے سامنے بیان نہیں کرتا تھا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، آپ نے فرمایا : اے حذیفہ ! تم استغفار کیوں نہیں کرتے، میں ہر دن اور رات میں سو مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہے۔ (اس حدیث کی سند صحیح لغیرہ ہے) ۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٣٩٤ طبع قدیم، مسند احمد ٣٨ ص ٣٦٥، رقم الحدیث : ١٤٢١، مسند البزار رقم الحدیث : ٢٩٧٠، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٧٢٣، کتاب الدعاء للطبرانی رقم الحدیث : ١٨١٢، شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٧٨٨، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٠ ص ٢٩٧، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٥٠، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی رقم الحدیث : ٣٦٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨١٧، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٢٧٦۔ ٢٦٧ )
صحیح مسلم کی روایت میں مذکور ہے : میرے دل پر حجاب چھا جاتا ہے اس کی شرح میں علامہ نووی لکھتے ہیں :
اس حدیث میں ہے لیغان اور غین اس چیز کو کہتے ہیں جو دل کو ڈھانپ لے، قاضی عیاض نے کہا : آپ کی شان یہ تھی کہ آپ دائما اللہ کو یاد کرتے اور اس کا ذکر کرتے لیکن کبھی آپ سر سستی اور غفلت طاری ہوجاتی تو آپ (اپنے بلند مقام کے اعتبار سے) اس کو گناہ شمار کرتے اور اس پر استغفار کرتے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امت کی فکر رہتی تھی اور آپ کے بعد جو امت کے احوال تھے جب آپ ان پر مطلع ہوتے تو ان پر استغفار کرتے اور ایک قول یہ ہے کہ جب آپ امت کی اصلاح میں ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی اور آپ کے دل میں جو اللہ تعالیٰ کی تجلیات تھیں ان پر حجاب آجاتا، ہرچند کہ ان امور میں مشغول ہونا بھی عظیم عبادت ہے لیکن آپ اپنے بلند مقام کے اعتبار سے اس مشغولیت کو گناہ قرار دیتے اور اس پر توبہ اور استغفار کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ کا استغفار کرنا اظہار عبودیت کے لیے ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا تھا اور اس کی نعمتوں کا کما حقہ، شکر ادا کرنے کی وجہ سے ہوتا تھا، محاسبی نے کہا کہ ہرچند کہ انبیاء (علیہم السلام) عذاب سے مامون ہیں، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات سے ڈرتے رہتے ہیں اور اس پر استغفار کرتے ہیں۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ١١ ص ٦٧٩٠، مکتبہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٧ ھ)
نیک اعمال کا مشکلات سے بچانا اور عذاب سے چھڑانا
اس کے بعد فرمایا : ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ صبح اور شام تسبیح کیجئے۔ “
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح کرتے رہتے تھے، دراضل اس آیت میں مسلمانوں کو تعریض ہے اور ان کو اس طرح متوجہ کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حمد اور تسبیح کا حکم دے رہا ہے جو دائمی حمد اور تسبیح کرنے والے ہیں تو تم کو کتنی زیادہ حمد اور تسبیح کی ضرورت ہے۔
تسبیح کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی عیوب اور نقائض سے برأت بیان کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور ہر عیب سے بری ہے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں تو اس کا اثر ہم پر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے عیوب اور نقائص کم ہوجاتے ہیں اور حمد کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی صافت کمالیہ کو بیان کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہر کمال کے ساتھ موصوف ہے بلکہ وہ ہر کمال کا خالق اور موجد ہے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا اثر ہم پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی صفات کمالیہ کو پیدا فرما دیتا ہے۔
تسبیح کرنے اور حمد کرنے کا اثر یہ ہوگا کہ ہم برے کاموں سے باز رہیں گے اور نیک کاموں کو کریں گے اور نیک کاموں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت کریں اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور ان پر شفقت کریں اور ان نیک اعمال کی برکت سے آخرت میں ہماری مغفرت متوقع ہے، حدیث میں ہے :
حضرت عبدالرحمان بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر آئے اور آپ نے فرمایا : آج رات میں نے بہت تعجب خیز چیز دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو فرشتوں سے بہت گھبرارہا تھا، اس کا وضو آیا اور اس نے اس کو ان سے چھڑالیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس پر عذاب قبر مسلط کیا گیا، اس کی نماز آگئی اور اس نے اس کو عذاب قبر سے چھڑا لیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس کو شیاطین متوحش کررہے تھے، اس کے پاس اللہ کا ذکر آیا اور اس نے اس کو ان سے چھڑا لیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس کے آگے اندھیرا تھا اور اس کے پیچھے اندھیرا تھا، پھر اس کا حج اور عمرہ آیا اور اس کو اندھیر سے نکال لیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے کے لیے آیا تو اس کا رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا آیا، اس نے اس فرشتہ سے بات کی اور اسکو اپنے ساتھ لے گیا، پھر میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، جو آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا، تو اس کے پاس اس کا صدقہ آیا، وہ اس کے سر کے اوپر سایا ہوگیا اور اس کے چہرے کی ڈھال بن گیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس کے پاس دوزخ کے عذاب کے فرشتے آئے تو اس کے پاس نیکی کے حکم دینے اور بُرائی سے روکنے کا عمل آیا پھر اس نے اس کو عذاب سے چھڑا لیا، اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، جو دوزخ میں گرگیا تھا، تو اس کے پاس اس کے وہ آنسو آئے جو خوف خدا سے نکلے تھے، انہوں نے اس کو دوزخ سے نکال لیا، پھر میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں تھا تو اس کا خوف خدا آیا اور اس نے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں پکڑادیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا، اس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا تھا تو اس کا قرض دینے کا عمل آیا اور اس نے اس کی نیکیوں کے پلڑے کو بھاری کردیا، پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا جو بہت کپکپارہا تھا، پھر اس کا اللہ کے ساتھ حسن ظن آیا تو وہ پرسکون ہوگیا، پھر میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو پل صراط پر گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا تو اس کے مجھ پر درود پڑھنے کا عمل آیا اور اس نے اس شخص کو پل صراط سے پار کرادیا اور میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ جب وہ جنت کے نزدیک پہنچا تو اس کے دروازے بند ہوگئے، پھر اس کا کلمہ شہادت آیا اور اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو جنت میں داخل کردیا۔ (حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کو امام طبرانی نے دوسندوں سے روایت کیا ہے، ایک سند میں سلیمان بن احمد الواسطی ہے اور دوسری سند میں خالد بن عبدالرحمان المخزوی ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ مجمع الزوائد ج ٧ ص ١٨٠، حافظ سیوطی نے بھی اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا ہے، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٢٦٥٢، نوادر الاصول ج ٢ ص ٣٦٧ )
ہر چند کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف السند احادیث معتبر ہوتی ہیں، اس لیے ہم نے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا ہے، تاکہ مسلمانوں کو نیک اعمال کے بجا لانے میں رغبت ہو، قرآن مجید میں ہے :
ان الحسنت یذھبن السیات۔ (ھود :114) بیشک نیکیاں بُرائیوں کو دور کردیتی ہیں۔
یعنی برے کاموں کے نتیجہ میں جس عذاب کا خطرہ ہوتا ہے وہ نیک کاموں سے زائل ہوجاتا اور اس حدیث میں بھی یہی فرمایا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 55