مَنۡ عَمِلَ سَيِّـئَـةً فَلَا يُجۡزٰٓى اِلَّا مِثۡلَهَا ۚ وَمَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ يُرۡزَقُوۡنَ فِيۡهَا بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَنۡ عَمِلَ سَيِّـئَـةً فَلَا يُجۡزٰٓى اِلَّا مِثۡلَهَا ۚ وَمَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ يُرۡزَقُوۡنَ فِيۡهَا بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
ترجمہ:
جس نے بُرا کام کیا تو اس کی صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس نے نیک کام کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے جس میں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا
تفسیر:
بہ قدر جرم سزا دینا
المومن : ٤٠ میں ہے : ” جس نے بُرا کام کیا تو اس کی صرف اسی کے برابر سزا دی جائے گی اور جس نے نیک کام کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، جس میں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا “ اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا کہ اگر کافر نے صرف ایک گھنٹہ کفر کیا تو اس کو دوزخ میں دائمی عذاب ہوگا اور اگر مومن نے ایک گھنٹہ کوئی بُرا کام کیا مثلا ایک گھنٹہ سودی کاروبار کیا تو اس کو دائمی عذاب نہیں ہوگا۔ تو پھر ہر شخص کو اس کے جرم کے برابر سزا تو نہیں ملی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کافر کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ کافر ہی رہے گا اس لیے اس کو دوزخ میں دائمی عذاب دیا جاتا ہے اور مومن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ مومن رہے گا اس لیے اس کو جنت میں دائما اجر وثواب دیا جاتا ہے اور اگر وہ بھی کوئی بُرا عمل کرتا ہے تو اس کی یہ نیت نہیں ہوتی کہ وہ تاحیات یہ بُرا کام کرتا رہے گا بلکہ اس کی نیت یہی ہوتی ہے کہ وہ عنقریب توبہ کرے گا اور برے کام کو ترک کردے گا اور اگر اس کی یہ نیت بھی ہو کہ وہ ہمیشہ کسی برے کام کو کرتا رہے گا پھر بھی چونکہ اس کو اس کے ایمان کی دائمی جزاء دی جاتی ہے اس لیے اس کو کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد پھر جنت میں داخل کردیا جائے گا اور یہ بھی اس وقت ہوگا جب اس نے موت سے پہلے اپنے گناہوں پر توبہ نہ کی ہو اور نہ اس کو کسی کی شفاعت ملی ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے فضل محض سے اس کی ابتداء مغفرت ہوئی ہو اور اگر ان مراحل میں سے کوئی ایک مرحلہ بھی اس کو حاصل ہوگیا تو وہ ابتداء بغیر کسی سزا کے جنت میں داخل ہوجائے گا۔
اعمال کے ایمان سے خارج ہونے کی دلیل
اس کے بعد اس آیت میں یہ ارشاد ہے : ” اور جس نے نیک کام کیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے “۔ آیت کے اس حصہ میں ایمان کو نیک اعمال کے لیے شرط قرار دیا ہے اور نیک اعمال کو مشروط قرار دیا ہے اور مشروط، شرط سے بالاتفاق خارج ہوتا ہے، جیسے نماز مشروط ہے اور وضو اس کے لیے شرط ہے اور نماز وضو سے خارج ہے، اسی طرح نیک اعمال بھی ایمان سے خارج ہیں اور یہ احناف کثرھم اللہ کی دلیل ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں، اس کے برخلاف ائمہ ثلاثہ اور محدثین یہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔
جنت کی نعمتیں اور جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار
اس کے بعد فرمایا : ” یہ نیک اعمال کرنے والے مؤمنین جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے بغیر حساب کے جنت میں رزق دیا جائے گا “ جنت میں بےحساب رزق اور جنت کی نعمتوں کے متعلق یہ حدیث ہے :
سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ ان کی حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملاقات ہوئی، حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اللہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں جمع کردے، سعید نے کہا : کیا جنت میں بازار بھی ہوں گے ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : ہاں ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی ہے کہ جنت میں جب جنتی داخل ہوں گے تو ان کو ان کے اعمال کے اعتبار سے فضیلت دی جائے گی، پھر جتنے عرصہ میں دنیا میں جمعہ کا دن آتا ہے اتنا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے اور ان کے لیے اللہ کا عرش ظاہر کیا جائے گا اور وہ عرش جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں ظاہر کیا جائے گا، پھر ان کے لیے اس میں کچھ نور کے منبر رکھے جائیں گے اور کچھ موتیوں کے منبر ہوں گے اور کچھ یاقوت کے منبر ہوں گے اور کچھ زمرد کے منبر ہوں گے اور کچھ سونے کے منبر ہوں گے اور کچھ چاندی کے منبر ہوں گے، ان میں سے ادنیٰ درجہ کے جنتی مشک اور کافور کے ٹیلوں پر بیٹھیں گے حالانکہ ان میں کوئی ادنیٰ درجہ کا نہیں ہوگا اور وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ کرسیوں پر بیٹھنے والے ان سے افضل ہیں، حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! کیا تمہیں سورج کو دیکھنے سے یا چودھویں رات میں چاند کو دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ ہم نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسی طرح تم کو اپنے رب کے دیکھنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی، اس مجلس کے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ بلا حجاب گفتگو فرمائے گا، حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے فلاں بن فلاں ! کیا تجھ کو فلاں دن یاد ہے جب تو نے فلاں فلاں بات کہی تھی، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کے بعض گناہ یاد دلائے گا، وہ شخص کہے گا : اے میرے رب کیا تو نے مجھے بخش نہیں دیا تھا ؟ اللہ فرمائے گا : کیوں نہیں، تم میرے بخشنے ہی کی وجہ سے تو اپنے اس درجہ تک پہنچے ہو، لوگ اسی کیفیت میں ہوں گے کہ ان پر ایک بادل چھا جائے گا اور ان پر ایسی خوشبو کی بارش ہوگی کہ اس جیسی خوشبو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سونگھی ہوگی اور ہمارا رب تبارک وتعالیٰ فرمائے گا : اس انعام واکرم کی طرف اٹھو جو میں نے تمہارے لیے تیار کررکھا ہے، پھر جس کی تمہیں خواہش ہو وہ لے لو، پھر ہم ایک بازار میں جائیں گے جس کو فرشتوں نے گھیرا ہوا ہوگا، اس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی جن کو اس سے پہلے آنکھوں نے نہیں دیکھا ہوگا اور نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ دلوں میں ان کا خیال آیا ہوگا، پھر جس چیز کی ہمیں خواہش ہوگی وہ ہمیں دے دی جائے گی، اس بازار میں کوئی چیز فروخت کی جائے گی نہ خریدی جائے گی اور اس بازار میں اہل جنت کی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے اور بلند درجہ والا خود آگے بڑھ کر اپنے سے کم درجہ والے سے ملے گا اور درحقیقت وہاں کوئی ادنیٰ نہیں ہوگا، کم درجہ والا بلند درجہ والے کا لباس دیکھ کر غمگین ہوگا، ابھی ان کی بات ختم نہیں ہوگی کہ وہ دیکھے گا کہ اس کے اوپر اس سے بھی عمدہ لباس ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ جنت میں کوئی شخص غمگین نہیں ہوگا، پھر ہم اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جائیں گے، ہماری بیویاں ہم سے ملاقات کرکے کہیں گی : مرحبا خوش آمدید ! جس وقت آپ یہاں سے گئے تھے اس وقت کی بہ نسبت آپ کا حسن و جمال اب بہت زیادہ ہے، ہم کہیں گے : آج ہمیں اپنے رب کے دربار میں بیٹھنا نصیب ہوا تھا لہٰذا ہمیں ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٤٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٥٣٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٣٨، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٧١٤)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 40