أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ يَتَحَآجُّوۡنَ فِى النَّارِ فَيَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡۤا اِنَّا كُنَّا لَـكُمۡ تَبَعًا فَهَلۡ اَنۡتُمۡ مُّغۡنُوۡنَ عَنَّا نَصِيۡبًا مِّنَ النَّارِ ۞

ترجمہ:

اور جب وہ دوزخ میں ایک دوسرے سے بحث کریں گے، پس کمزور لوگ متکبرین سے کہیں گے : ہم دنیا میں تمہارے پیروکار تھے، کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ دور کرنے والے ہو ؟

تفسیر:

دوزخ میں کافروں کا مباحثہ

المومن : ٤٧ میں ارشاد ہے : ” اور جب وہ دوزخ میں ایک دوسرے سے بحث کریں گے، پس کمزور لوگ متکبرین سے کہیں گے : ہم دنیا میں تمہارے پیروکار تھے، کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ دور کرنے والے ہو ؟ “ یعنی اے سردارو ! کیا تم اس پر قادر ہو کہ ہم سے اس عذاب کا کچھ حصہ کم کرادو۔ ان پیروکاروں کو یہ علم تھا کہ ان کے کافر سردار اللہ تعالیٰ کے عذاب میں بالکل تخفیف نہیں کراسکتے، اس سوال سے ان کا مقصود یہ تھا کہ کافر سرداروں کو زیادہ سے زیادہ شرمندہ کیا جاسکے اور ان کے دلوں کو تکلیف پہنچائی جائے کیونکہ ان کافر سرداروں نے ہی اپنے پیروکاروں کو انواع و اقسام کی گمراہیوں میں مبتلا کیا تھا اور جب پیروکا اپنے سرداروں سے یہ فرمائش کریں گے تو وہ جواب میں کہیں گے :

المومن : ٤٨ میں ارشاد ہے : ” متکبرین کہیں گے : بیشک ہم سب دوزخ میں ہیں، بیشک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے “ یعنی ہم سب دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہیں، اگر تمہارے عذاب میں کمی کرانا ہماری قدرت میں ہوتا تو ہم اپنے عذاب میں نہ کمی کرالیتے، اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرما چکا ہے اور جس کو اجروثواب دینا تھا اور جس کو جو سزا اور عذاب دینا تھا وہ دے چکا ہے، پھر جب پیروکار اپنے سرداروں سے مایوس ہوجائیں گے تو جہنم کے محافظوں سے کہیں گے :

المومن : ٤٩ میں فرمایا : ” اور دوزخی جہنم کے محافظوں سے کہیں گے : تم اپنے رب سے دعا کرو کہ کسی ایک دن تو ہم سے عذاب کم کردے “ جہنم کے جس حصہ میں انہیں عذاب دیا جائے گا وہاں پر سخت عذاب ہورہا ہوگا اور وہ جہنم کا بہت ہولناک حصہ ہوگا، اسی لیے وہ جہنم کے محافظوں سے فریاد کریں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 47