وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يٰهَامٰنُ ابۡنِ لِىۡ صَرۡحًا لَّعَلِّىۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَۙ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 36
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ فِرۡعَوۡنُ يٰهَامٰنُ ابۡنِ لِىۡ صَرۡحًا لَّعَلِّىۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَۙ ۞
ترجمہ:
اور فرعون نے کہا اے ہامان ! میرے لیے ایک بلند عمارت بنادے شاید کہ میں ان راستوں تک پہنچ جائوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور فرعون نے کہا اے ہامان ! میرے لیے ایک بلند عمارت بنادے شاید کہ میں ان راستوں تک پہنچ جائوں جو آسمانوں کے راستے ہیں، پھر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں اور بیشک میں ضرور گمان کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے اور اسی طرح فرعون کے برے عمل کو اس کے نزدیک خوش نما بنادیا گیا اور اس کو سیدھے راستے سے روک دیا گیا اور فرعون کی ہر سازش صرف ناکام ہونے والی تھی (المومن : 36-37)
فرعون نے خدا کو دیکھنے کے لیے جو بلند عمارت بنوائی تھی اس کی توجیہ
ہامان فرعون کا وزیر تھا اور وہ قبطیوں میں سے تھا نہ بنی اسرائیل سے۔ فرعون نے اس سے کہا کہ میرے لیے ایک بلند محل بنادو، فرعون نے کہا کہ میں یہ محل اس لیے بنوارہا ہوں کہ میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ لوں۔
مفسرین کا اس میں اختلاف ہے آیا واقعی فرعون نے ایک بلند عمارت کے بنانے کا قصد کیا تھا تاکہ اس پر چڑھ کر آسمان تک پہنچ جائے یا نہیں، بعض مفسرین نے اس آیت کی ظاہر کے موافق تفسیر کی ہے، امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
سدی نے روایت کیا ہے : جب وہ بلند قلعہ بنالیا گیا تو فرعون اس قلعہ پر چڑھا اور آسمان کی طرف تیر پھینکے اور وہ تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس کردیئے گئے تو فرعون نے کہا : میں نے موسیٰ کے معبود کو قتل کردیا ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠٩١٤، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٦٩٢١ )
امام رازی نے لکھا ہے کہ فرعون نے لوگوں کو اس وہم میں مبتلا کیا تھا کہ وہ قلعہ بنائے گا لیکن اس نے بنایا نہیں تھا کیونکہ ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ وہ بلند سے بلند پہاڑ پر چڑھے پھر بھی اس کو آسمان اتنی ہی دو ربلند نظر آتا ہے جتنا زمین میں سے بلندی پر نظر آتا ہے، سو ایسی حرکت تو کوئی فاتر العقل اور مجنوں ہی کرسکتا ہے اور سدی بہت ضعیف راوی ہے، اس کی مذکور الصدرروایت صحیح نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص ٦٠٠۔ ٥٩٩، ملخصا، مطبوعہ احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے اس آیت کی دو توجیہیں کی ہیں :
١) دراصل فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ایک بلند رصدگاہ بنائے جس میں وہ آلات رصد سے ستاروں کو دیکھ سکے اور ان ستاروں کے احوال سے زمین میں ہونے والے حوادث پر استدلال کرسکے، پھر وہ اس پر غور کرسکے کہ آیا ان ستاروں میں کوئی ایسی چیز ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ آیا واقعی اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول بھیجا ہے یا نہیں۔
٢) وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کے فساد کو دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آسمان کی خبریں دیتے تھے، اس کا یہ خیال تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی خبریں اسی وقت موصول ہوں گی جب کسی عمارت کے ذریعہ وہ آسمان تک پہنچ سکیں، وہ ایک بلند عمارت بنا کر یہ تجربہ کرنا چاہتا تھا کہ آیا کسی ذریعہ سے آسمان تک پہنچا جاسکتا ہے یا نہیں اور جب اس نے ایک بلند عمارت بنا کر یہ تجربہ کرلیا کہ آسمان تک نہیں پہنچا جاسکتا تو اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب وہ اس بلند عمارت کے ذریعہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے تو حضرت موسیٰ بغیر کسی عمارت کے آسمان تک کیسے پہنچ سکتے ہیں اور جب وہ آسمانوں تک پہنچ نہیں سکتے تو ان کی دی ہوئی آسمانوں کی خبریں کیسے صحیح ہوں گی اور اس سے اس لعین نے یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کی خبریں دی ہیں وہ جھوٹی ہیں۔
اور یہ اس لعین کی حماقت اور جہالت تھی، حضرت موسیٰ نے اس سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں نے حواس کے ذریعہ اللہ کو جانا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے سامنے عقلی دلائل پیش کیے تھے اور فرمایا تھا :
رب المشرق والمغرب وما بینھما۔ (الشعراء :28)
وہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے۔
اور بکثرت معجزات سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی نبوت پر استدلال فرمایا تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 36
[…] تفسیر […]