أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَوۡمَ لَا يَنۡفَعُ الظّٰلِمِيۡنَ مَعۡذِرَتُهُمۡ وَلَهُمُ اللَّعۡنَةُ وَلَهُمۡ سُوۡٓءُ الدَّارِ ۞

ترجمہ:

جس دن ظالموں کو ان کی معذرت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ان کے لیے لعنت ہوگی اور ان کے لیے بُرا گھر ہوگا

تفسیر:

کفار اور مشرکین کے اعذار کا ناقابل قبول ہونا

المومن : ٥٢ میں فرمایا :” جس دن ظالموں کو ان کی معذرت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ان کے لیے لعنت ہوگی اور ان کے لیے بُرا گھر ہوگا “

اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ مؤمنوں کے عظیم ثواب کی خبر دی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ قیامت کے دن جب اولین اور آخرین جمع ہوں گے تو مؤمنین جنت میں بلند درجات پر فائز ہوں گے اور ان کے مخالف اور دشمن ذلت میں ہوں گے۔

اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اپنے شرک پر عذر پیش کریں گے لیکن ان کے عذر سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور قرآن مجید میں دوسری جگہ فرمایا ہے :

ولا یئوذن لھم فیعتذرون (المرسلٰت :36) اور ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ان دونوں آیتوں میں تعارض ہے، المومن ٥٢ کا تقاضا ہے کہ وہ عذر پیش کریں گے اور المرسلات : ٣٦ کا تقاضا ہے کہ ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اس کا جواب یہ ہے کہ المومن : ٥٢ کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ عذر پیش کریں گے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا عذر نہیں ہوتا جو انہیں فائدہ پہنچاسکے، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن احوال مختلف ہوں گے، کسی وقت میں وہ عذر پیش کریں گے اور دوسرے وقت میں وہ عذر پیش نہیں کرسکیں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 52