کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 19 رکوع 6 سورہ الشعراء آیت نمبر 10 تا 33
اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۰)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جا
قَوْمَ فِرْعَوْنَؕ-اَلَا یَتَّقُوْنَ(۱۱)
جو فرعون کی قوم ہے (ف۱۰) کیا وہ نہ ڈریں گے (ف۱۱)
(ف10)
جنہوں نے کُفر و معاصی سے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اور انہیں طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر ان پر ظلم کیا اس قوم کا نام قبط ہے حضرت موسٰی علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا کہ انہیں ان کی بدکرداری پر زجر فرمائیں ۔
(ف11)
اللہ سے اور اپنی جانوں کو اللہ تعالٰی پر ایمان لا کر اور اس کی فرمانبرداری کر کے اس کے عذاب سے نہ بچائیں گے اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں ۔
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ(۱۲)
عرض کی اے میرے رب میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے
وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ(۱۳)
اور میراسینہ تنگی کرتا ہے(ف۱۲) اور میری زبان نہیں چلتی (ف۱۳)تو تُو ہارون کو بھی رسول کر(ف۱۴)
(ف12)
ان کے جھٹلانے سے ۔
(ف13)
یعنی گفتگو کرنے میں کسی قدر تکلّف ہوتا ہے اس عقدہ کی وجہ سے جو زبان میں بَایّامِ صِغر سنی مُنہ میں آ گ کا انگارہ رکھ لینے سے ہو گیا ہے ۔
(ف14)
تاکہ وہ تبلیغِ رسالت میں میری مدد کریں ۔ جس وقت حضرت موسٰی علیہ السلام کو شام میں نُبوّت عطا کی گئی اس وقت حضرت ہارون علیہ السلام مِصر میں تھے ۔
وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ(۱۴)
اور ان کا مجھ پر ایک الزام ہے (ف۱۵)تومیں ڈرتاہوں کہیں مجھے (ف۱۶)قتل کردیں
(ف15)
کہ میں نے قطبی کو مارا تھا ۔
(ف16)
اس کے بدلے میں ۔
قَالَ كَلَّاۚ-فَاذْهَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ(۱۵)
فرمایا یوں نہیں(ف۱۷)تم دونوں میری آیتیں لے کر جاؤ ہم تمہارے ساتھ سُنتے ہیں (ف۱۸)
(ف17)
تمہیں قتل نہیں کر سکتے اور اللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی درخواست منظور فرما کر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبی کر دیا اور دونوں کو حکم دیا ۔
(ف18)
جو تم کہو اور جو تمہیں جواب دیا جائے ۔
فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶)
تو فرعون کے پاس جاؤ پھر اس سے کہوہم دونوں اس کے رسول ہیں جورب ہے سارے جہان کا
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۷)
کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو چھوڑ دے (ف۱۹)
(ف19)
تاکہ ہم انہیں سرزمینِ شام میں لے جائیں ۔ فرعون نے چار سو برس تک بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا تھا اور اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار ۶۳۰۰۰۰ تھی اللہ تعالٰی کا یہ حکم پا کر حضرت موسٰی علیہ السلام مِصر کی طرف روانہ ہوئے ، آپ پشمینہ کا جبہ پہنے ہوئے تھے ، دستِ مبارک میں عصا تھا ، عصا کے سرے میں زنبیل لٹکی تھی جس میں سفرکا توشہ تھا ، اس شان سے آپ مِصر میں پہنچ کر اپنے مکان میں داخل ہوئے ، حضرت ہارون علیہ السلام وہیں تھے آپ نے انہیں خبر دی کہ اللہ تعالٰی نے مجھے رسول بنا کر فرعون کی طرف بھیجا ہے اور آپ کو بھی رسول بنایا ہے کہ فرعون کو خدا کی طرف دعوت دو یہ سن کر آپ کی والدہ صاحبہ گھبرائیں اور حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہنے لگیں کہ فرعون تمہیں قتل کرنے کے لئے تمہاری تلاش میں ہے جب تم اس کے پاس جاؤ گے تو تمہیں قتل کرے گا لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام ان کے یہ فرمانے سے نہ رُکے اور حضرت ہارون کو ساتھ لے کر شب کے وقت فرعون کے دروازے پر پہنچے ، دروازہ کھٹکھٹایا پوچھا آپ کون ہیں ؟ حضرت نے فرمایا میں ہوں موسٰی رب العالمین کا رسول فرعون کو خبر دی گئی اور صبح کے وقت آپ بُلائے گئے آپ نے پہنچ کر اللہ تعالٰی کی رسالت ادا کی اور فرعون کے پاس جو حکم پہنچانے پر آپ مامور کئے گئے تھے وہ پہنچایا فرعون نے آپ کو پہچانا ۔
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِیْنَۙ(۱۸)
بولا کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن میں نہ پالا اور تم نے ہمارے یہاں اپنی عمر کے کئی برس گزارے (ف۲۰)
(ف20)
مفسِّرین نے کہا تیس برس اس زمانہ میں حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام فرعون کے لباس پہنتے تھے اور اس کی سواریوں میں سوار ہوتے تھے اور اس کے فرزند مشہور تھے ۔
وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۱۹)
اور تم نے کیا اپنا وہ کام جو تم نے کیا (ف۲۱)اور تم ناشکر تھے(ف۲۲)
(ف21)
قبطی کو قتل کیا ۔
(ف22)
کہ تم نے ہماری نعمت کی سپاس گزاری نہ کی اور ہمارے ایک آدمی کو قتل کر دیا ۔
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَؕ(۲۰)
موسیٰ نے فرمایامیں نے وہ کام کیا جب کہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی (ف۲۳)
(ف23)
میں نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے وہ شخص مر جائے گا میرا مارنا تادیب کے لئے تھا نہ قتل کے لئے ۔
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۲۱)
تو میں تمہارے یہاں سے نکل گیا جب کہ تم سے ڈرا(ف۲۴)تو میرے رب نے مجھے حکم عطا فرمایا (ف۲۵) اور مجھے پیغمبروں سے کیا
(ف24)
کہ تم مجھے قتل کرو گے اور شہرِ مدیَن کو چلا گیا ۔
(ف25)
مدیَن سے واپسی کے وقت ۔ حکم سے یہاں یا نُبوّت مراد ہے یا علم ۔
وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۲۲)
اور یہ کوئی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتاتاہے کہ تو نے غلام بناکر رکھے بنی اسرائیل (ف۲۶)
(ف26)
یعنی اس میں تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں مجھے رکھا ، کھلایا پہنایا کیونکہ میرے تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا ، ان کی اولادوں کو قتل کیا ، یہ تیرا ظلمِ عظیم اس کا باعث ہوا کہ میرے والدین مجھے پرورش نہ کر سکے اور میرے دریا میں ڈالنے پر مجبور ہوئے تو ایسا نہ کرتا تو میں اپنے والدین کے پاس رہتا اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے ، فرعون موسٰی علیہ السلام کی اس تقریر سے لاجواب ہوا اور اس نے اسلوبِ کلام بدلا اور یہ گفتگو چھوڑ کر دوسری بات شروع کی ۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۲۳)
فرعون بولا اور سارے جہان کا رب کیا ہے (ف۲۷)
(ف27)
جس کے تم اپنے آپ کو رسول بتاتے ہیں ۔
قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ(۲۴)
موسیٰ نے فرمایا رب آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تمہیں یقین ہو (ف۲۸)
(ف28)
یعنی اگر تم اشیاء کو دلیل سے جاننے کی صلاحیت رکھتے ہو تو ان چیزوں کی پیدائش اس کے وجود کی کافی دلیل ہے ۔ ایقان اس علم کو کہتے ہیں جو استدلال سے حاصل ہو اسی لئے اللہ تعالٰی کی شان میں موقِن نہیں کہا جاتا ۔
قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ(۲۵)
اپنے آس پاس والوں سے بولا کیا تم غور سے سُنتے نہیں (ف۲۹)
(ف29)
اس وقت اس کے گرد اس کی قوم کے اشراف میں سے پانچ سو شخص زیوروں سے آراستہ زریں کرسیوں پر بیٹھے تھے ان سے فرعون کا یہ کہنا کیا تم غور سے نہیں سنتے بایں معنٰی تھا کہ وہ آسمان اور زمین کو قدیم سمجھتے تھے اور ان کے حدوث کے منکِر تھے مطلب یہ تھا کہ جب یہ چیزیں قدیم ہیں تو ان کے لئے ربّ کی کیا حاجت اب حضرت موسٰی عَلٰی نَبیِّنا وعلیہ الصلٰوۃ والسّلام نے ان چیزوں سے استدلال پیش کر نا چاہا جن کا حدوث اور جن کی فنا مشاہدہ میں آ چکی ہے ۔
قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۶)
موسیٰ نے فرمایا رب تمہارااور تمہارے اگلے باپ داداؤں کا (ف۳۰)
(ف30)
یعنی اگر تم دوسری چیزوں سے استدلال نہیں کر سکتے تو خود تمہارے نفوس سے استدلال پیش کیا جاتا ہے ، اپنے آپ کو جانتے ہو ، پیدا ہوئے ہو ، اپنے باپ دادا کو جانتے ہو کہ وہ فنا ہو گئے تو اپنی پیدائش سے اور ان کی فنا سے پیدا کرنے اور فنا کر دینے والے کے وجود کا ثبوت ملتا ہے ۔
قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِیْۤ اُرْسِلَ اِلَیْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ(۲۷)
بولا تمہارے یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں ضرور عقل نہیں رکھتے(ف۳۱)
(ف31)
فرعون نے یہ اس لئے کہا کہ وہ اپنے سوا کسی معبود کے وجود کا قائل نہ تھا اور جو اس کے معبود ہونے کا اعتقاد نہ رکھے اس کو خارج از عقل کہتا تھا اور حقیقتہً اس طرح کی گفتگو عجز کے وقت آدمی کی زبان پر آتی ہے لیکن حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرضِ ہدایت و ارشاد کو علٰی وجہِ الکمال ادا کیا اور اس کی اس تمام لایعنی گفتگو کے باوجود پھر مزید بیان کی طرف متوجہ ہوئے ۔
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲۸)
موسیٰ نے فرمایا رب پورب(مشرق) اور پچھم(مغرب) کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (ف۳۲) اگر تمہیں عقل ہو (ف۳۳)
(ف32)
کیونکہ پورب سے آفتاب کا طلوع کرنا اور پچھم میں غرب ہو جانا اور سال کی فصلوں میں ایک حسابِ معیّن پر چلنا اور ہواؤں اور بارشوں وغیرہ کے نظام یہ سب اس کے وجود و قدرت پر دلالت کرتے ہیں ۔
(ف33)
اب فرعون متحیر ہو گیا اور آثارِ قدرتِ الٰہی کے انکار کی راہ باقی نہ رہی اور کوئی جواب اس سے بن نہ آیا ۔
قَالَ لَىٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ(۲۹)
بولا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تمہیں قید کردوں گا (ف۳۴)
(ف34)
فرعون کی قید قتل سے بدتر تھی ، اس کا جیل خانہ تنگ و تاریک عمیق گڑھا تھا ، اس میں اکیلا ڈال دیتا تھا نہ وہاں کوئی آؤاز سنائی آتی تھی نہ کچھ نظر آتا تھا ۔
قَالَ اَوَ لَوْ جِئْتُكَ بِشَیْءٍ مُّبِیْنٍۚ(۳۰)
فرمایا کیا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی روشن چیز لاؤں (ف۳۵)
(ف35)
جو میری رسالت کی برہان ہو ۔ مراد اس سے معجِزہ ہے اس پر فرعون نے ۔
قَالَ فَاْتِ بِهٖۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۳۱)
کہا تو لاؤ اگر سچے ہو
فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۳۲)
تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح اژدہا ہوگیا (ف۳۶)
(ف36)
عصا اژدھا بن کر آسمان کی طرف بقدر ایک میل کے اُڑا پھر اُتر کر فرعون کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے مُوسٰی مجھے جو چاہیئے حکم دیجئے فرعون نے گھبرا کر کہا اس کی قسم جس نے تمہیں رسول بنایا اس کو پکڑو حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو مثلِ سابق عصا ہو گیا فرعون کہنے لگا اس کے سوا اور بھی کوئی معجِزہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور اس کو یدِ بیضا دکھایا ۔
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۳۳)
اور اپنا ہاتھ نکالا (ف۳۷) تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا (ف۳۸)
(ف37)
گریبان میں ڈال کر ۔
(ف38)
اس سے آفتاب کی سی شعاع ظاہر ہوئی ۔