قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗۤ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ(۳۴)

بولا اپنے گرد کے سرداروں سے کہ بےشک یہ دانا جادوگر ہیں

یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖ ﳓ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(۳۵)

چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اپنے جادو کے زور سے تب تمہارا کیا مشورہ ہے (ف۳۹)

(ف39)

کیونکہ اس زمانہ میں جادو کا بہت رواج تھا اس لئے فرعون نے خیال کیا کہ یہ بات چل جائے گی اور اس کی قوم کے لوگ اس دھوکے میں آکر حضرت موسٰی علیہ السلام سے متنفر ہو جائیں گے اور ان کی بات قبول نہ کریں گے ۔

قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ ابْعَثْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَۙ(۳۶)

وہ بولے اُنہیں اور ان کے بھائی کو ٹھہرائے رہو اور شہروں میں جمع کرنے والے بھیجو

یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ(۳۷)

کہ وہ تیرے پاس لے آئیں ہر بڑے جادوگر دانا کو (ف۴۰)

(ف40)

جو علمِ سحر میں بقول ان کے حضرت موسٰی علیہ السلام سے بڑھ کر ہو اور وہ لوگ اپنے جادو سے حضرت موسٰی علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ کریں تاکہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے حُجّت باقی نہ رہے اور فرعونیوں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ یہ کام جادو سے ہو جاتے ہیں لہٰذا نُبوّت کی دلیل نہیں ۔

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۙ(۳۸)

تو جمع کیے گئے جادوگر ایک مقرر دن کے وعدہ پر (ف۴۱)

(ف41)

وہ دن فرعونیوں کی عید کا تھا اور اس مقابلہ کے لئے وقتِ چاشت مقرر کیا گیا تھا ۔

وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَۙ(۳۹)

اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہوگئے (ف۴۲)

(ف42)

تاکہ دیکھو کہ دونوں فریق کیا کرتے ہیں اور ان میں کون غالب آتا ہے ۔

لَعَلَّنَا نَتَّبِـعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَ(۴۰)

شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں اگر یہ غالب آئیں(ف۴۳)

(ف43)

حضرت موسٰی علیہ السلام پر ۔ اس سے مقصود ان کا جادو گروں کا اِتّباع کرنا نہ تھا بلکہ غرض یہ تھی کہ اس حیلہ سے لوگوں کو حضرت موسٰی علیہ السلام کے اِتّباع سے روکیں ۔

فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَىٕنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(۴۱)

پھر جب جادوگر آئے فرعون سے بولے کیاہمیں کچھ مزدوری ملے گی اگر ہم غالب آئے

قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(۴۲)

بولا ہاں اور اس وقت تم میرے مقرب ہوجاؤ گے (ف۴۴)

(ف44)

تمہیں درباری بنایا جائے گا ، تمہیں خاص اعزاز دیئے جائیں گے ، سب سے پہلے داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی ، سب سے بعد تک دربار میں رہو گے ۔ اس کے بعد جادو گروں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا حضرت پہلے اپنا عصا ڈالیں گے یا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اپنا سامانِ سحر ڈالیں ۔

قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ(۴۳)

موسیٰ نے اُن سے فرمایا ڈالو جو تمہیں ڈالنا ہے (ف۴۵)

(ف45)

تاکہ تم اس کا انجام دیکھ لو ۔

فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ(۴۴)

تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور بولے فرعون کی عزت کی قسم بےشک ہماری ہی جیت ہے (ف۴۶)

(ف46)

انہیں اپنے غلبہ کا اطمینان تھا کیونکہ سحر کے اعمال میں جو انتہا کے عمل تھے یہ ان کو کام میں لائے تھے اور یقینِ کامل رکھتے تھے کہ اب کوئی سحر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

فَاَلْقٰى مُوْسٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚۖ(۴۵)

تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا جبھی وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا (ف۴۷)

(ف47)

جو انہوں نے جادو کے ذریعہ سے بنائیں تھیں یعنی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں جو جادو سے اژدھے بن کر دوڑتے نظر آ رہے تھے حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر ان سب کو نگل گیا پھر اس کو حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے دستِ مبارک میں لیا تو وہ مثلِ سابق عصا تھا جب جادوگروں نے یہ دیکھا تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں ہے ۔

فَاُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۙ(۴۶)

اب سجدہ میں گرے

قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۴۷)

جادوگر بولے ہم ایمان لائے اس پر جو سارے جہان کا رب ہے

رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۴۸)

جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّهٗ لَكَبِیْرُكُمُ الَّذِیْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَۚ-فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۬ؕ-لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَۚ(۴۹)

فرعون بولا کیا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں بےشک وہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا (ف۴۸) تو اب جانا چاہتے ہو (ف۴۹) مجھے قسم ہے بےشک میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تم سب کو سولی دوں گا (ف۵۰)

(ف48)

یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام تمہارے استاد ہیں اسی لئے وہ تم سے بڑھ گئے ۔

(ف49)

کہ تمہارے ساتھ کیا کیا جائے ۔

(ف50)

اس سے مقصود یہ تھا کہ عام خَلق ڈر جائے اور جادو گروں کو دیکھ کر لوگ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئیں ۔

قَالُوْا لَا ضَیْرَ٘-اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ(۵۰)

وہ بولے کچھ نقصان نہیں (ف۵۱) ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں (ف۵۲)

(ف51)

خواہ دنیا میں کچھ بھی پیش آئے کیونکہ ۔

(ف52)

ایمان کے ساتھ اور ہمیں اللہ تعالٰی سے رحمت کی امید ہے ۔

اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠(۵۱)

ہمیں طمع ہے کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے اس پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے (ف۵۳)

(ف53)

رعیّتِ فرعون میں سے یا اس مجمع کے حاضرین میں سے ۔ اس واقعہ کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام نے کئی سال وہاں اقامت فرمائی اور ان لوگوں کو حق کی دعوت دیتے رہے لیکن ان کی سرکشی بڑھتی گئی ۔