اے جان وفا! یہ ظلم نہ کر
اے جان وفا! یہ ظلم نہ کر
مولانا حشم الدين رضوی الثقافي مدرسه عربیہ اہلسنت گلشن رضا بنجارہ پٹی کشی نگر یوپی
یا الہی یہ کیسے بندر ہیں
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے
اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ان کے زمانے کی سیاسی صورت حال کی عکاسی تو کرتا ہی ہے – موجودہ سیاسی حالات کی بھی منظر کشی خوب کرتا ہے – ان لیڈروں کا ارتقائی سفر نہ جانے کب اختتام کو پہنچے گا – لیڈران وطن کا جو ارتقائی سفر دیکھنے میں آرہا ہے اس کا تصور تو ڈارون کی تھیوری میں تھا ہی نہیں – اس تصور کو تو اکبر الہ آبادی جیسے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں – 1921 میں فانی دنیا سے جانے والے اس شاعر کو 2021 میں مکمل ایک صدی ہوگئ ہے اور ہم ان کے اس ارتقائی تصور کو اپنی آنکھوں سے اب بھی دیکھ رہے ہیں –
حال ہی میں کانگریس کے قد آور لیڈر جتن پرساد ارتقائی سفر کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں- اہم بات یہ ہے کہ جتن بھی ان 23 رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے سونیا گاندھی کو گذشتہ سال کانگریس صدر کے عہدے سے متعلق خط لکھ کر پارٹی کو ارتقائی منزلیں طے کرنے کے متعلق کچھ مشورے دیے تھے ۔ جتن پرساد یوپی کانگریس میں ایک بڑی ذمہ داری چاہتے تھے ، لیکن انہیں پارٹی میں نظرانداز کیا جارہا تھا۔ جتن پرساد کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کے بہت قریبی سمجھے جاتے تھے۔ آخر آدمی کی فطرت میں ہی جب ارتقا مضمر ہو تو پھر کچھ کہنا ہی بے کار ہے –
وہ لیڈر جو ارتقا کی تلاش میں سرگرداں دکھے –
11 مارچ 2020 کو کانگریس میں خاص مقام رکھنے والے مدھیہ پردیش کے جیوتی رادتیہ سندھیا بھی بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے اور پھر مدھیہ پردیش میں کھلتے کمل کے ارتقائی سفر میں کانگریس کا چھوٹا سا ہاتھ چُھپ کر رہ گیا – گذشتہ 6 سالوں میں کانگریس کے قریب 150 بڑے لیڈر ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوے ہیں – اس قدر لیڈران کا پارٹی چھوڑنا، پارٹی اور پارٹی کے رہنماؤں کے مابین دوری، عدم اعتماد اور کمیونیکیشن فیل ہونے کا نتیجہ یا پھر پارٹی صدر کا ارتقا سے موہ بھنگ کا سبب ہی کہا جا سکتا ہے – بہر صورت کانگریس کا نقصان ہے لیکن یہ سياسی لوگ کانگریس کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں –
ریتا بہوگنا جوشی: 24 سال کانگریس میں رہنے کے بعد 2016 میں بی جے پی میں شامل ہو گئیں تھیں ۔ انہوں نے 2017 میں یوپی اسمبلی انتخابات میں لکھنؤ کینٹ سے الیکشن لڑا۔ ریتا نے ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو اپرنا یادو کو شکست دے کر یہاں سے کامیابی حاصل کی۔
ہیمنت بسوا سرما:
2015 میں کانگریس چھوڑنے والے ہمنت بسوا سرما آج آسام کے وزیر اعلی ہیں- ارتقائی عمل کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہی ہوا ہے – اس لیڈر کا قد راہل گاندھی نہ سمجھ سکے – پارٹی چھوڑتے ہوے ہیمنت بسوا سرما نے جو بیان دیا تھا وہ بہت کچھ کہتا ہے – سرما نے کہا تھا ” راہل گاندھی نے مجھے وقت نہیں دیا، کانگریس میں دیش کے لیے کام کرنے کا جذبہ ہو یا نہ ہو لیکن پارٹی صدر راہل گاندھی یا گاندھی فیملی کے لیے آپ کی وفا داری ضروری ہے اور ہاں! آپ کو ان کے سکیورٹی گارڈز اور کتے سے بھی وفا داری ثابت کرنا پڑے گی”- یہ بیان کانگریس کا رویہ دکھاتا ہے کہ اسے اپنی لیڈر شپ کی کتنی فکر ہے – چاہے غلام نبی آزاد ہوں یا کپل سبل سب کو گاندھی فیملی یا صدر پر سوال اٹھانا مہنگا پڑتا ہے –
چودھری بیرندر سنگھ
کانگریس چھوڑ کر 2014 میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پہلے دور میں ، انہیں اسٹیل وزارت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
رادھا کرشن ویکھے پاٹل: مہاراشٹر میں ، کانگریس کے تجربہ کار لیڈر رادھا کرشن ویکھے پاٹل نے کانگریس چھوڑ کر گذشتہ سال بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پاٹیل استعفیٰ دینے کے وقت ہی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے۔
نارائن رانے:
مہاراشٹرا کے سابق وزیر اعلی اور کانگریس کے تجربہ کار لیڈر ، نارائن رانے گذشتہ سال بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ کانگریس چھوڑنے کے بعد ، رانے بی جے پی کی حمایت سے راجیہ سبھا کے لئے منتخب ہوئے تھے۔
ایس ایم کرشنا: سابق وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کانگریس چھوڑ کر 2017 میں بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔
بنگال میں قریب 60 بڑے لیڈر ممتا سے دور ہوے
حال ہی پانچ صوبوں میں ہونے والے الیکشن میں بھی ہم نے دیکھا کہ سیکولر پارٹیوں کے وہ لیڈر جو سالوں سے سیکولر ازم کا چولا اوڑھے وہے تھے، بی جے پی میں چلے گئے، پورے ملک میں کوئی ایسی پارٹی نہیں جس کے لیڈروں نے اپنی پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑا ہو – یہ چیز سب سے زیادہ پہلے یوپی پھر بنگال میں دیکھنے کو ملی، اور جلد ہی یہ کھیل یوپی میں بڑے پیمانے پر دوبارہ شروع ہوگا، جس کی شروعات جتن پرساد سے ہو چکی ہے – بنگال میں تو ایم ایل اے، ایم پی اور پارٹی کی شناخت مانے جانے والے لیڈر بھی ممتا کا ساتھ چھوڑ گئے تھے –
مُکل رائے کی گھر واپسی
بنگال میں بی جے پی کا بڑا چہرا رہے مکل رائے وہی لیڈر ہیں جو سب سے پہلے ٹی ایم سی چھوڑ کر بی جے پی میں گئے اور پھر پارٹی چھوڑنے والوں کا تانتا بندھ گیا – بی جے پی کو کراری شکست ہوئی ایسے میں بنگال کے لیڈروں نے گھر واپسی شروع کردی ہے کیوں کہ وہ” تالاب میں رہ کر مگرمچھ سے بیر” نہیں رکھنا چاہتے- خبریں تو یہاں تک ہیں کہ جلد ہی بنگال بی جے پی، ٹی ایم سی میں تبدیل ہو جائے گی – ممتا کی تعریف کے بعد مکل رائے سے خود پردھان منتری نے بات کی لیکن مکل رائے دیدی کو اچھی طرح جانتے ہیں اور وزیراعظم کے خلاف ان کا رویہ دیکھ کر بی جے پی میں رہنے کی ہمت نہیں جٹا سکے – 11 جون 2021 کو گھر واپسی ہی میں عافیت سمجھی – اتنی قلانچیں تو بندر بھی نہیں لگاتے ہوں گے جتنی ان سیاسی رہنماؤں نے پچھلے سالوں میں لگائی ہیں – اسی لیے اکبر الہ آبادی کہتے ہیں
یا الہی یہ کیسے بندر ہیں
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوے –
اس گھر واپسی میں ہمارے لئے کیا سبق ہے؟
ہماری قوم بڑی جذباتی واقع ہوئی ہے – 74 سالوں میں یہ اپنے کسی لیڈر پر اعتماد نہیں کر سکی – جب بھی کوئی مسلم لیڈر یا پارٹی کھڑی ہوئی، اس پارٹی کی مخالفت کسی نے کی ہو یا نہ کی ہو لیکن ہماری قوم نے اپنا فرض ضرور ادا کیا – ہزاروں فسادات، لاکھوں اموات، اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی سیکولر ازم کے پیچھے آج بھی ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے انھیں بھانگ پلادی گئی ہو –
جب سندھیا، مکل رائے، ریتا بہوگنا جوشی جیسے بڑے لیڈر اپنی فکر، آئیڈیا لوجی (وچار دھارا) کو پس پشت ڈال کر شدت پسندوں کا ہاتھ تھام کر انھیں کی بولی بولتے نظر آتے ہیں تب ہماری آنکھیں تھوڑی دیر کے لیے کھلتی ہیں، لیکن ہم بس اسے نارمل ہی دیکھتے ہیں نہ حیرت ہوتی ہے اور نہ دکھ – پھر یہی لیڈر ہمارے خلاف غلط زبان استعمال کرتے ہیں اور ہم تھوڑا بہت کوس کر اپنے آپ کو تسلی دے کر بیٹھ جاتے ہیں – پھر یہی لیڈر جب ہارتے ہیں تو پھر نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں اور سیکولر پارٹیاں ایسی مشین میں دھلائی کرتی ہیں کہ چند لمحوں میں پھر وہ کمینول، سیکولر بن جاتا ہے اور ہم اسے معاف کردیتے ہیں – لیکن ہمارا لیڈر زندگی بھر شدت پسندوں کی مخالفت کرتا ہے، قوم کو آگاہ کرتا ہے، انھیں حق کی طرف بلاتا ہے، ان کے لیے آواز بلند کرتا ہے، پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک عوامی مقامات سے لے کر ٹی وی ڈبیٹ تک ہماری ہی بات کرتا ہے، ہمارا دفاع کرتا ہے، لیکن افسوس صد افسوس! ہماری قوم اسے ایجنٹ ثابت ہی نہیں کرتی بل کہ تسلیم بھی کرتی ہے اور بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت بھی کرتی ہے – جتنا اعتماد ہم نے لالو، ملائم، نیتیش، شرد پوار، ممتا بنرجی، راہل گاندھی پر دکھایا ہے اگر اس سے آدھا اعتماد بھی اپنی قیادت پر کیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی –
ایسے میں یہ شعر یاد آتا ہے-
اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم
اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
14 /6/2021