حضرت امیر معاویہؓ کی سخاوت اور خوش اخلاقی صحابہ و اہل بیت کی زبانی

تحریر : اسد الطحاوی الحنفی

حضرت امیر معاویہؓ نبی کریمﷺ کے قریبی مجتہد صحابہؓ میں سے ایک تھے ۔ اور نبی اکرمﷺ اپنی تحریر اور حساب کتاب اور مالی معاملات میں ان کو زمہ داریا ں سونپتے تھے

حضرت امیر معاویہؓ پہلے بہت مفلس و غریب تھے بلکہ انکے پاس مال ہی نہ ہوتا تھا جیسا کہ نبی اکرمﷺ کے ایک فرمان سے ثابت ہے

امام احمد اپنی مسند میں ایک روایت بیان کرتے ہیں :

حدثنا وكيع، عن سفيان، سمعه من أبي بكر بن أبي الجهم، سمعت فاطمة بنت قيس قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إذا أحللت فآذنيني “، فآذنته، فخطبها معاوية بن أبي سفيان، وأبو الجهم، وأسامة بن زيد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أما معاوية فرجل ترب لا مال له، وأما أبو الجهم فرجل ضراب للنساء، ولكن أسامة “، قال: فقالت بيدها هكذا: أسامة أسامةتقول: لم ترده، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” طاعة الله وطاعة رسوله خير لك “، فتزوجته فاغتبطته

سیدہ فاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تو عدت سے فارغ ہو جائے تو مجھے بتانا۔ پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی اور بتلایا کہ

سیدنا معاویہ بن ابی سفیان،

سیدنا ابو جہم

اور

سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم نے مجھے منگنی کے پیغامات بھیجے ہیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاویہ تو فقیر آدمی ہے، اس کے پاس مال نہیں ہے

اور ابو جہم عورتوں کو بہت مارنے والا آدمی ہے، البتہ اسامہ، وہ ٹھیک ہے۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ نہیں، میں اس کو نہیں چاہتی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تیرےلیے بہتر ہے۔ پس میں نے اسامہ سے شادی کر لی اور مجھ پر رشک کیا گیا۔

اس روایت کی سند ثقات راویان پر مشتمل ہے اورامام مسلم کی شرط پر ہے جیسا کہ علامہ شعیب الارنووط اس روایت کے حاشیہ کے تحت لکھتے ہیں :

إسناده صحيح على شرط مسلم. أبو بكر بن أبي الجهم من رجاله، وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين.

[مسند احمد برقم : 27324]

اسی طرح حضرت وائل بن حجر جو ۹ھجری کے لگ بھگ اسلام قبول لائے تھے اس وقت یہ حمیر کے شہزادے تھے اور اسلام کے اداب سے مکمل واقف نہ تھے اور حضرت امیر معاویہؓ کے پاس اس دور میں پہننے کے لیے جوتابھی نہ تھا

چناچہ انکے شہزادے ہونے کے سبب حضرت وائل بن حجر اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

جسکو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے :

حدثنا حجاج، قال: أخبرنا شعبة، عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل، عن أبيه، ” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقطعه أرضا، قال: فأرسل معي معاوية أن أعطها إياه ـ أو قال: أعلمها إياه ـ ” قال: فقال لي معاوية: أردفني خلفك، فقلت: لا تكون من أرداف الملوك، قال: فقال: أعطني نعلك، فقلت: انتعل ظل الناقة، قال: فلما استخلف معاوية أتيته، فأقعدني معه على السرير، فذكرني الحديث فقال سماك فقال: ” وددت أني كنت حملته بين يدي

سیدنا وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ایک زمین الاٹ دی اور سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کے ساتھ بھیجا کہ وہ مجھے یہ زمین دے سکیں یا اس کی نشاندہی کر سکیں۔ سیدنا وائل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اپنے پیچھے سوار کر لو، لیکن میں نے کہا: اے معاویہ! آپ بادشاہوں کے پیچھے سوار ہونے والوں (یا ان کے نائب بننے والوں میں سے) نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا: تو پھر مجھے اپنا جوتا دے دو (تاکہ میں زمین کی شدت سے بچ سکوں)، میں نے کہا: اونٹنی کے سائے میں چل لو۔ پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے اورمیں ان کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور مجھے یہ بات یاد کرا دی، میں نے کہا: اب تو میں یہ پسند کر رہا ہوں کہ کاش آپ کو اپنے سامنے بٹھا لیتا۔

اس روایت کی سند حسن ہے سماک بن حرب صدوق درجہ کا ہے اور باقی رجال مسلم کے ہیں

اور علامہ شعیب الارنووط حوشیہ میں لکھتے ہیں :

إسناده حسن من أجل سماك بن حرب

[مسند احمد بن حنبل برقم ؛ 27239]

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب حضرت امیر معاویہ ؓ کے پاس جوتے تک بھی نہیں تھے حضرت وائل بن حجر انکی غربت کے سبب انکو جوتے دینا یا اپنے پیچھے بھی بٹھانا گوارا نہ کیا تب بھی امیر معاویہ نے انکو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور عزت و کرام کے ساتھ حسن سلوک کیا

حضرت امیر معاویہ کا انصاف حسن سلوک اور سخاوت متواتر سے مشہور ہے جس میں صحابہ اور اہل بیت کی گواہیاں موجود ہیں

جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے :

امام عبدالرزاق اپنی سند صحیح سے روایت بیان کرتے ہیں :

أنا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ رَجُلًا كَانَ أَخْلَقَ لِلْمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ كَانَ النَّاسُ يَرِدُونَ مِنْهُ عَلَى أَرْجَاءِ وَادٍ رَحْبٍ لَيْسَ كَالضَّيِّقِ الْحَصِرِ الْمُتَغَضِّبِ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ

[الأمالي في آثار الصحابة للحافظ الصنعاني، برقم:۹۷]

اس روایت کےسارے رجال ثقہ ہیں

امام عبدالرزاق کی متابعت امام عبداللہ بن مبارک نے بھی کر رکھی ہے معمر سے

جیسا کہ امام ابو بکر الخلال اپنی السنہ تصنیف میں اپنی سند سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں :

أخبرني عبد الملك الميموني، قال: ثنا أبو سلمة، قال: ثنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه، قال: سمعت ابن عباس، يقول: «ما رأيت رجلا كان أخلق للملك من معاوية، إن كان الناس ليردون منه على وادي الرحب ولم يكن كالضيق الحصيص، الضجر المتغضب

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :

میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ حکومت کے بہتر کسی کو نہیں پایا، آپؓ کو تمام لوگوں نے حد درجہ سخی اور کشادہ دل پایا، آپ تنگ نظر ،تنگ دل اور متعصب نہ تھے

[السنہ ابو ابکر الخلال ، برقم :۶۷۷ وسند صحیح]

(نوٹ اس روایت مدلل تحقیق ہم پہلے پوسٹ کر چکےہیں )

اسی طرح حضرت علی کے بھائی حضرت سے کہ عقیل ؓبن ابی طالب بھی حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ تھے اور انکے مشکل وقت میں حضرت امیر معاویہ ؓ انکے کام آئے اور حضرت علیؓ کے بھائی حضرت امیر معاویہؓ کو حضرت علیؓ سے بھی زیادہ صلہ رحمی والا قرار دیتے تھے

انکا مختصر تعارف درج ذیل ہے :

عقیل بن ابی طالب (عربی: عقيل بن أبي طالب) 590 میں پیدا ہوئے۔ حضرت عقیل ابن ابی طالب حضرت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھائی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ عقیل ابو طالب کے چار بیٹوں میں سے دوسرے بیٹے ہیں۔ عقیل کی کنیہ ابو یزید۔ ہے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ سنہ پیدائش 590ء ملتا ہے۔ غزوہ موتہ میں شرکت فرمائی جس کے بعد نابینا ہو گئے۔ 96 سال کی عمر پائی۔ آپ کے کئی بیٹے تھے جن میں سے حضرت مسلم ابن عقیل سفیرِ حسین کے نام سے مشہور ہوئے اور کربلا کے واقعہ سے کچھ عرصہ قبل انہیں یزید کے گورنر عبید اللہ ابن زیاد نے شہید کر دیا۔ آپ نے 96 سال کی عمر میں شہادت پائی

امام الآجری اپنی مشہور تصنیف الشریعہ میں ایک روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند سے :

أنبأنا ابن ناجية قال: حدثنا محمد بن مسكين قال: حدثنا يحيى بن حسان قال: حدثنا سليمان بن بلال , عن جعفر بن محمد , عن أبيه , أن عقيل بن أبي طالب , رضي الله عنه جاء إلى علي رضي الله عنه إلى العراق ليعطيه فأبى أن يعطيه شيئا , فقال: إذن أذهب إلى رجل أوصل منك , فذهب إلى معاوية رحمه الله فغرف له

امام جعفرصادق ؓ فرماتے ہیں اپنے والد امام محمد باقرؓ سے کہ عقیل ؓبن ابی طالب (مولا علی کے بھائی ) حضرت علیؓؓ کے پاس عراق میں آئے اور کچھ طلب کے غرض سے درخواست کی تو مولا علیؓ نے انکو کوئی شہ بھی عطاء کرنے سے انکار کر دیا تو حضرت عقیل بن ابی طالب نے کہا : اب میں ایسےشخص کے پاس جاتا ہوں جو آپکی بہ نسبت زیادہ صلہ رحمی کرتا ہے تووہ حضرت معاویہ کے پاس چلےگئے اور حضرت امیر معاویہؓ نے انہیں مذکورہ ادائیگی کی ۔

(الشريعة، برقم: 1962)

سند کے رجال کا تعارف:

۱۔پہلے راوی : ابن ناجية الحافظ المفيد أبو محمد عبد الله بن محمد بن ناجية بن نجبة البربري ثم البغدادي:

امام ذھبی انکی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وكان ثقة ثبتا عارفا بهذا الشأن له مسند كبير قاله الخطيب: قلت: وكان مسندا

[تذكرة الحفاظ: 717- 63/ 10]

۲۔دوسرے راوی: : محمد بن مسكين اليمامي، أبو الحسن

یہ صحیحین و کتب ستہ کے راوی ہیں امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :

وثقه أبو داود، وغيره.

[تاریخ الاسلام ، برقم: 492]

۳۔یتسرے راوی : یحییٰ بن حسان بن حیان التبکری

امام ذھبی انکی توثیق امام عجلی ، امام نسائی ، امام ابو حاتم اور امام احمد سے نقل کرتے ہیں

الإِمَامُ، الحَافِظُ، القُدْوَةُ، أَبُو زَكَرِيَّا البَكْرِيُّ، البَصْرِيُّ، ثُمَّ التِّنِّيْسِيُّ، نَزِيْلُ تِنِّيْسَ.

وَالأَثْرَمُ: عَنْ أَحْمَدَ: كَانَ ثِقَةً، صَاحِبَ حَدِيْثٍ

وَقَالَ العِجْلِيُّ: كَانَ ثِقَةً، مَأْمُوْناً، عَالِماً بِالحَدِيْثِ.

وَقَالَ النَّسَائِيُّ: ثِقَةٌ

وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ: صَالِحُ الحَدِيْثِ

[سیر اعلام النبلاء ،برقم: 15]

۴۔چوتھے راوی : سلیمان بن بلال القرشی التمیمی

امام ذھبی انکی توثیق امام نسائی ، امام احمد وغیرہم سے نقل کرتے ہیں سیر اعلام میں اور انکو حافظ اور مدینہ کا مفتی قرار دیا

سُلَيْمَانُ بنُ بِلاَلٍ القُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ مَوْلاَهُم الإِمَامُ، المُفْتِي، الحَافِظُ، أَبُو مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ مَوْلاَهُم، المَدَنِيُّ.

وَقِيْلَ: كُنْيَتُهُ أَبُو أَيُّوْبَ، مَوْلَى عَبْدِ اللهِ بنِ أَبِي عَتِيْقٍ، مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيْقِ.

وَثَّقَهُ: أَحْمَدُ، وَابْنُ مَعِيْنٍ، وَالنَّسَائِيُّ.

قَالَ أَحْمَدُ بنُ حَنْبَلٍ: لاَ بَأْسَ بِهِ، ثِقَةٌ.

وَقَالَ يَحْيَى بنُ مَعِيْنٍ: هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدَّرَاوَرْدِيِّ.

وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ: كَانَ بَرْبَرِيّاً، جَمِيْلاً، حَسَنَ الهَيْئَةِ، عَاقِلاً، وَكَانَ يُفْتِي بِالمَدِيْنَةِ، وَوَلِيَ خَرَاجَهَا، وَكَانَ ثِقَةً، كَثِيْرَ الحَدِيْثِ.

[سیر علام النبلاء،برقم : 159]

۵۔ پانچویں راوی امام جعفر صادق مجتہد اہل بیت میں سے ہیں

۶۔ چھٹے راوی امام محمد باقر مجتہد اہل بیت سے ہیں

اور اسی سند سے امام الآجری ایک او ر روایت بیان کرتے ہیں :

وأنبأنا ابن ناجية قال: حدثني محمد بن مسكين قال: حدثنا يحيى بن حسان قال: حدثنا سليمان بن بلال , عن جعفر بن محمد , عن أبيه , أن الحسن , والحسين , رضي الله عنهما , كانا يقبلان جوائز معاوية رحمه الله

امام جعفر صادق بیان کرتے ہیں امام باقر سے کہ امام حسن ؓ اور امام حسینؓ یہ حضرت امیر معاویہؓ سے تحائف قبول کرتے تھے

[الشريعة، برقم: 1963]

ان دلائل سے ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ کی سخاوت صلح رحمی اور انصاف کی تعریف صحابہ و اہل بیت سے ثابت ہے اور امیر معاویہؓ کا اہل بیت اور دیگر لوگوں کے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے تھے

اور یہ تحتے اور تحائف محبت کے رشتہ کا ثبوت ہے

(نوٹ: تحائف دینے والے مسلے پر شیعوں کے فضول اعتراضات کے تسلی بخش جواب پر تحاریر پوسٹ کر چکا ہوں )

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی