شریعت کاپاس دار

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

طلبہ نہایت ڈسپلن اور شائستگی کے ساتھ قطار در قطار کھڑے تھے۔موقع جشن جمہوریہ کا تھا۔ادارے کی روایت تھی کہ اس موقع پر حکومت غیر ملکی طلبہ سے اظہار اپنائیت اور بطور خیر سگالی اپنا ایک نمائندہ بھیجا کرتی تھی۔آج ایک بار پھر وہی موقع تھا۔طلبہ سجے سنورے کھڑے تھے۔ادارے کے معزز افراد کے ساتھ حکومت کا خاص نمائندہ بھی موجود تھا۔

ادارے کی روایت کے مطابق حکومت کا نمائندہ قطار میں کھڑے طلبہ سے ہاتھ ملاتا اور یوم جمہوریہ کی مبارکباد دیتا۔دستور آج بھی وہی تھا مگر اس بار نمائندہ بدل چکا تھا۔اب تک جتنے بھی نمائندے آئے وہ سب مرد تھے مگر اس بار خلاف معمول ایک خاتون بطور نمائندہ حاضر تھی۔دستور کے مطابق خاتون اہلکار نے طلبہ سے ہاتھ ملا کر مبارکباد دینا شروع کیا۔یہ منظر دیکھ کر قطار میں موجود ایک طالب علم کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔جیسے جیسے خاتون اور اس کے درمیان فاصلہ کم ہورہا تھا نوجوان طالب علم کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھا۔ظاہری کیفیت دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ نوجوان کے دل ودماغ میں اتھل پتھل مچی ہوئی ہے۔اندرونی کیفیت کا اثر چہرے پر صاف نمایاں تھا۔ایک طرف ادارے کی روایت پیش نظر تھی تو دوسری جانب شریعت کی پاس داری کا خیال آ رہا تھا۔اسی کش مکش میں فاصلہ سمٹتا گیا۔جیسے جیسے فاصلہ سمٹا نوجوان کے چہرے کی بے چینی اور اضطراب عزم ویقین میں بدل گیا۔خاتون قریب آئی اور مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا۔نوجوان نے نہایت شرافت و متانت کے ساتھ خود کو لائن سے الگ کر لیا۔خاتون اہلکار کو حیرت کا جھٹکا لگا۔خیر مقدم اور اظہار اپنائیت کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بین الاقوامی روایت سی بن گیا ہے۔خود اس ادارے کا قدیم دستور بھی یہی تھا مگر آج خلاف دستور ایک نوجوان نے عورت سے ہاتھ ملانے کی بجائے خود کو لائن سے الگ کرلیا تھا۔خاتون نے نگاہ اٹھا کر اس جوان کو دیکھا، بیس اکیس سال کا خوب رو جوان متانت وسنجیدگی کے ساتھ ایک طرف کھڑا تھا۔جھکی ہوئی نگاہیں اس کی شرافت اور خاندانی تربیت کا پتہ دے رہی تھیں۔خاتون نے ایک نگاہ دوسرے طلبہ اور ایک نگاہ اس باحیا جوان پر ڈالی۔متواضع مگر پر وقار انداز میں کھڑا وہ نوجوان کسی اور ہی جہان کا لگ رہا تھا۔چہرے پر برستا نور اور عالمانہ وقار دیکھ کر خاتون اہلکار نے اندازہ لگا لیا کہ نوجوان کسی منصوبے یا توہین کی نیت سے نہیں بلکہ پاس داری شریعت کے تحت اجنبیہ عورت سے مصافحہ نہیں کرنا چاہتا۔ڈپلومیٹک خاتون تھی چہرے کی حرکات وسکنات سے دلی کیفیات کو جاننے کا ہنر رکھتی تھی اس لیے فوراً ہی سارا ماجرا سمجھ گئی مگر اس بات پر سخت حیران تھی کہ ابھرتی ہوئی جوانی اور آج کے مخلوط ماحول میں کوئی انسان شرعی احکام کا اس قدر بھی پابند ہوسکتا ہے؟

خاتون نے اس نوجوان کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھا اور دوسرے طلبہ کو مبارکباد دینے کے لیے آگے بڑھ گئی مگر اس نوجوان کی شرافت اور دینی غیرت دل ودماغ پر نقش ہوچکی تھی۔یہ واقعہ عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی جامعہ ازہر مصر میں پیش آیا تھا۔

آپ جانتے ہیں کہ شریعت کی پاس داری میں حکومتی اہلکار سے مصافحہ نہ کرنے والا غیرت مند نوجوان کون تھا؟

یہ غیرت مند جوان امام احمد رضا کا عکس جمیل ، حجۃ الاسلام کے پوتے ، مفتی اعظم کی امانت ، پیکر تقویٰ، تاج الشریعہ الشاہ مفتی محمد اختر رضا قادری علیہ الرحمہ تھے۔

جنہوں نے شریعت کی پاس داری اور اپنے جد اعلی، امام احمد رضا کی خاندانی شرافت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردیا:

اہل دول ہوں سامنے یا صاحبان تاج

اہل شرع کو پاس شریعت عزیز ہے

_ اسی قطار میں آپ سے ٹھیک پہلے آپ کے عزیز دوست علامہ شمیم ازہری علیہ الرحمہ بھی کھڑے تھے۔مگر آپ دیگر طلبہ کی دیکھم دیکھ ادارے کی روایت سے بغاوت نہ کر سکے اور خاتون اہلکار سے ہاتھ ملا بیٹھے۔

بس پھر کیا تھا؟

اسی غیر شرعی عمل کی بنیاد پر تاج الشریعہ نے اپنے چہیتے دوست سے ترک تعلق کر لیا۔ایک ایسا دوست جس کے بغیر ایک لمحہ چین نہیں پڑتا تھا مگر پاس شریعت کی خاطر اپنے جگری یار سے بول چال تک بند کردی اور

“الحب في الله والبغض في الله”

(صحيح الجامع 2539)

کی عملی تفسیر بن کر کمال ایمان کا مظاہرہ کیا۔

کہتے ہیں جس سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کی ناراضگی بھی اتنی ہی زیادہ گراں گزرتی ہے۔یہی حال علامہ شمیم ازہری کا تھا۔کئی دن گزر گئے مگر تاج الشریعہ کی بے رخی برقرار تھی۔جب دوست کو منانے کی ہر ترکیب ناکام ہوگئی تو جگری دوست کا پیمانہ صبر چھلک پڑا۔درد حد سے بڑھا تو آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برس پڑیں۔برستی آنکھوں کے ساتھ اپنے جان سے پیارے دوست کو آواز لگائی:

جان برادر!

للہ!

مجھ سے ناراض نہ ہوں۔آپ کی رفاقت اور دوستی میرے لیے عزت وشرف کی بات ہے۔

آپ یوں ہی ناراض رہے تو میرے درد کا درماں کون بنے گا؟

آپ روٹھے رہے تو زمانے بھر کی رعنائیاں میرے لیے سناٹا بن جائیں گی۔

درد سے بھری ہوئی آواز اور اشک بار آنکھیں دیکھ کر تاج الشریعہ کا بھی دل بھر آیا:

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا

آنسوؤں کا ظاہری تعلق بھلے ہی آنکھوں سے ہوتا ہے مگر ان کا اصل رشتہ دل سے ہوتا ہے۔دل پر چوٹ لگتی ہے تو آنکھ خود بخود اشک بار ہوجاتی ہے۔یہ آنسو بھی بڑے کمال کے ہوتے ہیں۔کبھی کبھی جو کام ہزاروں الفاظ نہیں کر پاتے، آنکھ سے بہنے والا ایک آنسو کردیا کرتا ہے۔آپ نے علامہ شمیم ازہری کے شانہ پر اپنائیت کے ساتھ ہاتھ رکھا اور کہا:

شمیم صاحب!

میں آپ سے اپنی ذات کے لیے ناراض نہیں تھا۔میری ناراضگی اللہ ورسول کے لیے تھی۔آپ نے اس خاتون سے ہاتھ ملا کر غیر شرعی کام کیا۔کیوں کہ وہ آپ کی محرم نہیں تھی۔دوست ہونے کے ناطے میں آپ کے لیے بھی وہی بات پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔

سوکھے دھانوں پر جیسے بارش برس گئی۔تاج شریعت کا ایک ایک لفظ شبنم کی طرح روح کو ٹھنڈا کرتا چلا گیا۔دل سے تائب ہوئے اور آئندہ غیر شرعی کاموں سے مکمل پرہیز کا وعدہ کیا۔

ایسے تھے تاج الشریعہ!

جو جوانی میں ہی بزرگی کے منصب پر فائز تھے۔

جو پاس داری شریعت میں اعلی حضرت کا عکس جمیل تھے۔

جن کی دینی غیرت حجۃ الاسلام کی یاد دلاتی تھی۔

جو مفتی اعظم کے داعیانہ اوصاف کے سچے امین تھے۔

جنہوں نے ہمیشہ شریعت کی پاس داری کی۔جو نفاذ شریعت میں کسی کو خاطر میں نہیں لائے۔جنہوں نے بلا خوف لومۃ لائم نعرہ حق بلند کیا۔اسی کا انعام یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اتنا بلند کردیا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی ان کی عظمت کے قصیدے پڑھتے ہیں۔

بارش فضل خدا تجھ پہ سدا ہوتی رہے

حشر تک جاری رہے فیض کا دریا تیرا

(ماخوذ تاج الشریعہ کی تقوی شعار زندگی, مشمولہ یادگار تاج الشریعہ نمبر, سواد اعظم دہلی)

7 ذوالقعدہ 1442ھ

18 جون 2021 بروز جمعہ