اَللّٰهُ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِتَسۡكُنُوۡا فِيۡهِ وَالنَّهَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَشۡكُرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 61
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَللّٰهُ الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الَّيۡلَ لِتَسۡكُنُوۡا فِيۡهِ وَالنَّهَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَشۡكُرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اللہ ہی نے تمہارے لیے رات بنائی ہے تاکہ تم اس میں سکون اور آرام پائو اور دیکھنے کے لیے دن بنادیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اللہ ہی نے تمہارے لیے رات بنائی ہے تاکہ تم اس میں سکون اور آرام پائو اور دیکھنے کے لیے دن بنادیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے یہی اللہ ہے جو تم سب کا رب ہے، ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، پس تم کہاں بھٹک رہے ہو اسی طرح وہ لوگ بھٹک رہے تھے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے (المومن : 61-63)
رات کو عبادت، غفلت اور معصیت میں گزارنے والے
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اپنی ہر ضرورت کا سوال مجھ سے کرو، میں تمہارے سوال کو پورا کروں گا، اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں اس پر دلائل قائم فرمائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر سوال کو پورا کرنے پر قادر ہے، ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر، اس کی توحید پر اور اس کی قدرت پر دلائل ہیں۔ پہلی تین آیتوں کا تعلق آسمان سے ہے اور بعد کی آیتوں کا تعلق زمین اور زمین کی مخلوق سے ہے۔
المومن : ٦١ میں فرمایا : ” اللہ ہی نے تمہارے لیے رات بنائی ہے تاکہ تم اس میں سکون اور آرام پائو “ کیونکہ رات میں ٹھنڈک اور تراوت ہوتی ہے اس وجہ سے انسان کی حرکت کرنے والی قوتیں رات میں ساکن ہوجاتی ہیں اور رات میں چونکہ اندھیرا ہوتا ہے اس لیے انسان کے حواس بھی کام کرنے سے رک جاتے ہیں اور یوں انسان کے اعصاب اور حواس کو آرام کا موقع مل جاتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا : ” اور دیکھنے کے لیے دن بنایا “ انسان بالطبع تمدنی زندگی گزارتا ہے، اسے انسانی معاشرہ میں مل جل کر رہنے کی ضرورت ہے اور اپنی معاشی ضروریات کے حصول کے لیے کام کاج کرنے کی حاجت ہے، اس لیے اس کے کام کاج کی آسانی کے لیے دن کو روشن بنایا تاکہ وہ دن کی روشنی میں اپنے لیے رزق فراہم کرسکے۔
اللہ کے نیک بندے رات میں بقدر ضرورت آرام کرتے ہیں تاکہ دن کی مشقت سے جو اعصاب کو تھکاوٹ پہنچی ہے وہ زائل ہوجائے اور بقدر ضرورت آرام کے بعد وہ رات کے آخری حصہ میں پھر عبادت کے لیے کھڑے ہوجائیں، ایسے لوگوں کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے :
والذین یبتون لربھم سجدا قیاما (الفرقان :64) اور جو لوگ اپنے رب کے لیے سجدہ اور قیام میں رال گزار دیتے ہیں
کانوا قلیل من الیل ما یھجعون (الذریت : 17) (متقین) رات کو بہت کم سوتے تھے
وبالا سحارھم یسغفرون (الذریت :18) اور سحری کے وقت اٹھ کر وہ استغفار کرتے تھے
اور غافل لوگ ساری رات سو کر یا اپنی ازواج کے ساتھ دادعیش میں گزار دیتے ہیں اور فساق اور فجار ساری رات لہو ولعب اور معصیت میں گزار دیتے ہیں، کراچی اور لاہور ایسے بڑے شہروں میں اوباش نوجوان اپنی راتیں کلبوں میں، جوئے کے اڈوں اور شراب خانوں میں گزار دیتے ہیں اور موسیقی کی دھنوں پر اپنے قم اس کی لڑکیوں کے ساتھ ناچتے گاتے اور ناجائز لذت اندوزی میں گزارتے ہیں اور راتوں کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے دن سکون آور گولیاں کھا کر گزارتے ہیں اور یوں وہ رات اور دن کے مقصد تخلیق کو بدل ڈالتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا فضل اور احسان کرتے ہوئے دن کام کرنے کے لیے اور رات آرام کے لیے بنائی تھی لیکن وہ اس نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے رال لہو ولعب اور معصیت میں اور دن سونے میں گزارتے ہیں، اسی لیے فرمایا : ” بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے “۔
المومن : ٦٣۔ ٦٢ میں فرمایا : ” یہی اللہ ہے جو تم سب کا رب ہے، ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، پس تم کہاں بھٹک رہے ہو اسی طرح وہ لوگ بھٹک رہے تھے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے
یعنی جس طرح مشرکین مکہ میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کررہے ہیں اور اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید میں بت پرستی کررہے ہیں اسی طرح ان سے پہلی امتوں کے کفار بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور توحید کی آیتوں میں غور و فکر نہیں کرتے اور بےجا ضد، عناد اور ہٹ دھرمی سے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، سو آپ ان کی تکذیب سے ملول خاطر اور افسردہ نہ ہوں، ایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 61