(۲) تبلیغ وہدایت پر اجر عظیم

۲۴۷۔ عن سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : وَاللّٰہِ لَاَنْ یَّھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدًا خَیْرٌ لَکَ مِنْ اَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم بیشک یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تیرے سبب سے ایک شخص کو ہدایت فرما دے تو تیرے لئے سرخ اونٹوں کا مالک ہونے سے بہتر ہے۔

]۳[ امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں

جہاد کہ اعظم وجوہ ازالہ منکر ہے اسکی تقسیم تین اقسام پر ہے ۔ سنانی ، لسانی ،جنانی یعنی کفر و بدعت فسق کو دل سے برا جاننا ، یہ ہر کافر مبتدع وفاسق سے ہے او ر ہر مسلمان کہ اسلام پر قائم ہو اسے کرنا ہے۔ مگر جنہوں نے اسلام کو سلام اور اپنے آپکو کفار ومشرکین کا غلام کیا انکی راہ جدا ہے ۔ انکا دین غیر دین خدا ہے ۔

اور لسانی کہ زبان وقلم سے رد ، بحمدہ تعالیٰ خادمان شرع ہمیشہ سے کر رہے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو دم آخر تک کریں گے ، وہابیہ ، نیاچرہ ، دیوبندیہ ،، قادیانیہ ، روافض غیر مقلد ین ، ندویہ ، آریہ ، نصاری وغیرہم کا رد کیا اور اب گاندھویہ سے بھی وہی برسر پیکار ہیں۔ حق کی طرف بلاتے اور باطل کوباطل کر دکھاتے ہیں اورمسلمانوں کو گمراہ گروں سے بچاتے ہیں وللہ الحمد،آگے ہدایت رب عز وجل کے ہاتھ ہے۔

رہاجہاد سنا نی ،توہم بارہا ذکر کر چکے ہیں کہ بنصوص قرآن عظیم ہم مسلما نان ہند کو جہا د برپا کرنے کا حکم نہیں، اسکا واجب بتانے والا مسلمانوں کا بدخواہ مبین ، بہکانے والے یہاں واقعۂ کربلاپیش کر تے ہیں یہ محض انکا اغوا ہے۔

اولاً۔ اس لڑائی میں ہر گز حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے پہل نہ تھی ۔ امام نے خبیث کوفیوں کے وعدوں پر قصد فرمایا تھا ۔ جب ان غداروں نے بد عہدی کی قصد رجوع فرمایا۔ اور جب سے شروع جنگ تک اسے بار بار احباب واعداء سب پر اظہار فرمایا۔

الف جب حربن یزید ریاحی تمیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اول با رہزار سواروں کے ساتھ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزاحم ہوئے ۔ امام نے خطبہ فرمایا : اے لوگو ! میں تمہار ا بلایاآیا ہوں ۔ تمہارے ایلچی اور خطوط آئے کہ تشریف لایئے ۔ ہم بے امام ہیں ۔ میں آیا ۔ اب تم اگر عہد پر قائم ہوتو میں تمہارے شہر میں جلوہ فرماہوں ۔وان لم تفعلوا او کنتم بمقدمی کا رھین انصرفت عنکم الی المکان الذی اقبلت منہ ۔اور اگر تم عہد پر نہ رہو ۔ یا میرا تشریف لانا تمہیں نا پسند ہو تو میں جہاںسے آیا وہیں واپس جائوں ۔ وہ خاموش رہے ۔

ب پھر بعد نماز عصر خطبہ فرمایا اور آخر میں بھی وہی ارشاد فرمایا کہ۔ان انتم کرہتمونا انصرفت عنکم ۔اگرتم ہمیںناپسند رکھتے ہو میں واپس جائوں ۔حر نے کہا : ہمیں تو حکم ہے کہ آپ سے جد انہ ہوں جب تک ابن زیا د کے پاس کوفےنہ پہونچادیں ۔

ج امام نے اس پربھی ہمراہیوں کو معاودت کا حکم دیا ۔ وہ بقصد واپسی سوارہوئے، حرنےواپس نہ ہو نے دیا ۔

د جب نینوا پہونچے ۔ حر کے نام ابن زیاد خبیث کا خط آیا کہ حسین کو پٹ پر میدان میں اتارو جہاں پانی نہ ہو اور یہ میر ا ایلچی تمہارے ساتھ رہیگا کہ تم میرا حکم بجا لاتے ہو یانہیں ۔ حرنے حضرت امام کو ناپاک خط کا مضمون سنایا اورایسی ہی جگہ اتر نے پر مجبورکیا ۔ فدائیان امام سے زہربن القین رحمہ اللہ تعالیٰ نے عرض کی: اے ابن رسول اللہ آگے جو لشکر آنے والا ہے وہان سے بہت زاید ہے ہمیں اذن دیجئے کہ ان سے لڑیں ۔فرمایا: ما کنت لا بدء ھم با لقتال ،میں ان سے قتال کی پہل کرنے کو نہیں ۔

ہ جب خبیث بن طیب یعنی ابن سعد اپنا لشکر لیکر پہونچا ۔ حضرت امام سے دریافت کیا ۔کیسے آئے ؟ فرمایا : تمہارے شہر والوں نے بلایا تھا ۔اما اذاکرھو نی فانی ا نصرف عنھم ،اب کہ میں انہیں ناگوار ہوں تو واپس جاتاہوں ابن سعد نے یہ ارشاد ابن زیاد کو لکھا ،اس خبیث نے نہ مانا ،قاتلہ اللہ۔و شب کو ابن سعد سے خلوت میں گفتگو ہوئی ،اس میں بھی حضرت امام نے فرمایا، دعونی ارجع الی المکا ن الذی اقبلت منہ،مجھے چھوڑ وکہ میں مدینہ طیبہ واپس جائوں،ابن سعد نے ابن زیاد کو لکھا ،اس بار وہ راضی ہوا تھا کہ شمر مردود خبیث نے باز رکھا۔ز عین معرکہ میں قتا ل سے پہلے فرمایا۔ایھاالناس،اذکرھتمونی فدعونی انصرف الی مأمنی من الارض،اے لوگو! جب کہ تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑ وکہ اپنی امن کی جگہ چلا جائوں-اشقیاء نے نہ مانا، غرض جب سے برابر قصد عود رہا،مگر ممکن نہ ہوا کہ منظور رب یہی تھا ،جنت آراستہ ہو چکی تھی ،اپنے دولھا کا انتظار کر رہی تھی ،وصال محبوب حقیقی کی گھڑی آلگی تھی ،تو ہر گز امام کی طرف سے لڑائی میں پہل نہ تھی ان خبیثوں ہی نے مجبور کیااب دو صورتیں تھیں،یا بخوف جان اس پلید کی وہ ملعون بیعت قبول کی جاتی کہ یزید کا حکم ماننا ہوگا ،اگر چہ خلاف قرآن و سنّت ہو ،یہ رخصت تھی ثواب کچھ نہ تھا،قال اللہ تعا لیٰ ،۔الاّ من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان۔مگر جو مجبور کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر برقرار ہو ۔یا جان دیدی جاتی اور وہ نا پاک بیعت نہ کی جاتی ،یہ عزیمت تھی ،اور اس پر ثواب عظیم اور یہ انکی شان رفیع کے شا یاں تھی اسی کو اختیار فرمایا – اسے یہاں سے کیا علاقہ۔

ثانیا۔ بالفرض اس بے سرو سامانی میں امام کی طرف سے پہل بھی سہی تویہاں ایک فرق عظیمہے ، جس سے یہ جاہل غافل ۔فاسقوں پرازالئہ منکر میںحملہ جائز اگر چہ تنہا ہو اور وہ ہزاروں۔اور سلطان اسلام جس پر اقامت جہاد فرض ہے اسے بھی کافروں سے پہل حرام ،جب کہ ان کے مقابلہ کے قابل نہ ہو

ثالثا حضرت امام پاک رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا نام لیتے ہوئے شرم چا ہیے تھی ، کیا امام تو امام انکے غلام ،انکے در کے کسی کتّے نے بھی معا ذ اللہ مشر کو ں سے مدد مانگی؟کیا کسی مشرک کا دامن تھا ما ؟ کیا کسی مشرک کے پس رو بنے ؟کیا مشرکوںکی جے پکاری؟کیا مشرکوںسے اتحاد گا نٹھا؟کیا مشرکوں کے حلیف بنے ؟کیا انکی خو شا مد کے لیئے شعار اسلام بند کر نے میں کو شاں ہوئے ؟ کیا قرآن وحدیث کی تمام عمر بت پرستی پر نثار کر دی -وغیرہ وغیرہ شنائع کثیرہ۔ بہتّر تن بیس ہزار فجار کا مقابلہ فرمایا :امام کا نام لیتے ہو تو کیا تم میں بہتّر مسلمان بھی نہیں ؟ جب ۲۳ کرور مشرکین تمہا رے ساتھ ہوں گے اس وقت تم میںبہتّر مسلمانوں کا عدد پورا ہوگا؟۔قرآن کو پیٹھ دینے والو!کیوںامام کا نام لیتے ہو ؟ اسلام سے الٹے چلنے والو! کیوں مسلما نوں کو دھو کہ دیتے ہو ؟دہلی میں فتوی چھاپ دیا کہ اس وقت جہاد واجب ہے ، بے سرو سامانی کے جواب کو امام کی نظیر پیش ہو گئی ، اور حالت یہ کہ ذرا سی دھوپ سے بچنے کو گئو تپروں کی چھائوں دھونڈ رہے ہیں،کیا تم اپنے فتوے سے نہ صرف تارک فرض ومرتکب حرام بلکہ راضی بہ غلبئہ کفر وذلت اسلا م نہ ہوئے ،امام کا توکل اللہ پر تھا ، تمہا را اعتماد اعداء اللہ پر ہے ،یقین جانو اللہ سچّا ، اللہ کا کلام سچّا،’’لاَ یَا لُوْ نَکُمْ خَبَالًا ‘‘مشرکین تمہا ری بد خوا ہی میںگئی نہ کرینگے ،وہ جھوٹا فتوی اوریہ پوچ بھروسہ ،اور خادمان شرع پر الٹا غصہ کہ کیوں خاموش رہے ؟ کیوں سینہ سپر نہ ہوئے ؟،یہ ہے تمہاری خیر خوا ہی اسلام، یہ ہیں تمہا رے دل ساختہ احکام ،جن پر نہ شرع شاھد نہ عقل مساعد۔ مسلمان ہونے کا دعو ی ہے تو اسلام کے دائرے میں آئو ،تبدیل احکام الرحمٰن واختراع احکا م الشیطان سے ہاتھ اٹھائو مشر کین سے اتحاد توڑو ،دیوبندیہ وغیرہم مرتدین کا ساتھ چھو ڑو ،کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن پا ک تمہیں اپنے سایہ میں لے دنیا نہ ملے دین تو انکے صدقے میں ملے ۔ المحجۃ المؤ تمنہ ۹۴ -۹۷