حسد کی مذمَّت
sulemansubhani نے Saturday، 19 June 2021 کو شائع کیا.
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ
وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہِ ﷺ
حسد کی مذمَّت
قرآن کریم میں خدائے وحدہ لا شریک کا فرمان عالیشان ہے۔ ’’وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلیٰ بَعْضٍo لِلرِّجَا لِ نَصِیْبٗ مِّمَّا اکْتَسَبُوْ ا وَ لِلنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَo وَسْئَلُوْا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہ بِکُلِّ شَئٍی عَلِیْمًا‘‘ ترجمہ:اور اس کی آرزو نہ کر جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی۔ مردوں کے لئے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ، اور اللہ سے اس کا فضل مانگو، بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (پ ۵، رکوع ؍۲،کنز الا یمان)
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے ’’وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ‘‘ ترجمہ:ا ور تم کہو میں پناہ مانگتا ہوں)حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے۔
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! اللہ عزوجل اپنے محبوب ﷺ کو پناہ مانگنے کا حکم دے رہا ہے کس کی پناہ اور کس سے پناہ ؟ تو فرمایا میری پناہ مانگو حسد والے کی شر سے جب وہ جلے۔ میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! حسد کرنے والا حسد کرنے کی وجہ سے جتنانقصان بھی ممکن ہو پہونچانا چاہتا ہے اور اس کے لئے کوئی کمی باقی نہیں رکھتا، اپنی ساری طاقت صرف کردیتا ہے۔ اس لئے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا تاکہ اس کی پناہ میں آنے کے بعد کوئی شر قریب نہ آسکے۔ اب آئے حسد کسے کہتے ہیں ؟ اسے سمجھتے چلیں تاکہ گناہِ عظیم سے بچنے کی دعا کر سکیں۔
غصہ سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینہ سے حسد، حسد صرف نعمت اور عطائے خداوندی پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر جب کوئی انعام فرماتا ہے تو اس کے بھائی کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس نعمت کو نا پسند کرتا ہے اور اس کے زوال کی خواہش کرتا ہے یہ حالت حسد ہے۔
گویا حسد کہتے ہیں نعمت کو نا پسند کرنا اور اس کے زوال کی خواہش کرنا۔ دو سری حالت یہ ہے کہ نہ اس کی نعمت کے زوال کی خواہش کرتا ہے اور نہ اس کے وجود کے باقی رہنے کو برا جانتا ہے لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ اسے بھی ایسی نعمت مل جائے اس کا نام غِبْطَہْ اور رشک ہے۔ اور رشک کرنا جائز ہے جب کہ حسدکرناسخت حرام۔ اللہ عزوجل اپنے پیارے محبوب ا کے صدقہ و طفیل حسد سے بچائے اور اپنے فیصلے پر راضی رہ کر سب کا بھلا چاہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا حسد سے اپنے آپ کو بچائو اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ ( ابو دائود )
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! نیکی کرنا آج کے اس پر فتن دور میں کتنا دشوار ہے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اس بھیانک ماحول میں لوگوں کے پاس نیکی کرنے کا وقت ہی نہیں ہے بلکہ برائیوں کے اس سیلاب میں آدمی نیکی کرنا بھی چاہے تو وہ بھی بہت مشکل ہے اگر بڑی مشکل سے نیکی کر بھی لئے تو ا سکا بچانا بہت مشکل امر ہے محسنِ انسانیت ا نے نیکیوں کو تباہ کرنے والے اعمال کی نشاندھی فرماکر ہم پراحسان فرمایا اور ارشاد فرمایا حسدنیکیوں کو اس طرح کھا جا تا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
مذکورہ مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح آگ لکڑی کو جلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی اسی طرح حسد بھی نیکیوںکو جلانے میں کوئی کمی نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر نیکیوں کی حفاظت مقصود ہو توحسد جیسے برے عمل سے اپنے آپ کو بچا نا ہوگا۔ پروردگار اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقہ و طفیل ہر برے عمل سے ہم سب کو بچائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے کے ساتھ بُغض اور حسد نہ رکھو،نہ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کرو اور نہ قطع تعلقی اور اے خدا کے بندو! آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن جائو اور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ تعلقات منقطع کرے۔ ( بخاری و مسلم)
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو!جن چیزوں سے تاجدار کائنات ﷺ نے بچنے کا حکم دیا ہے ہم انہیں چیزوں کے مرتکب ہورہے ہیںبغض سے منع فرمایا حسد سے منع فرمایادشمنی اور قطع تعلق سے منع فرمایا مگر آج آپس میں بغض و حسد، دشمنی اور قطع تعلق جیسی برائیاں معاشرے کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ آج کا مسلمان اپنی ذاتی منفعت کے لئے اتنا لالچی ہو چکا ہے کہ حرام کردہ چیزوں کا خیال تک نہیں کرتا۔ کا ش ہم حضور ا کے فرمان کے عامل بن جاتے تو وہی پیارے آقاا ہم پر کرم کی نظر فرمادیتے۔ رحمت عالم انے مسلمانوں کو بھائی بھائی بننے کا حکم دیا اور تین روز سے زیادہ قطع تعلق کو حرام فرماکر آگاہ فرمادیا کہ اگر میرے ہو تو تین روز کے اندر اندر آپس کی ساری رنجشوں کو مٹا دو۔ اللہ عزوجل ہم سب پر کرم کی نظر فرمائے۔ اور رحمت عالم ا کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار مدینہﷺنے ارشاد فرمایا کہ بندوں کے اعمال ہر ہفتہ دو مرتبہ پیش کئے جاتے ہیں، پیر اور جمعرات کو، پس ہر بندے کی مغفرت ہوجاتی ہے سوائے اس بندہ کے جو اپنے کسی مسلمان بھائی سے بغض و کینہ رکھتا ہو، اس کے متعلق حکم دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑے رہو ( یعنی فرشتے ان کے گناہوں کو نہ مٹائیں ) یہاں تک کہ وہ باز آجائیں۔
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ کریم کی شان کریمی تودیکھئے وہ سب کو بخش دیتا ہے سوائے ان دو شخصوں کے جو آپس میں بغض و کینہ رکھتے ہیں ان کی بخشش نہیں فرماتا۔ ا س سے بڑھ کرانکی کم نصیبی کیا ہوگی کہ کریم تو بخشنا چاہتاہے لیکن بغض وکینہ بخشش کے لئے مانع ہے۔
پتہ چلا کہ بغض و کینہ یہ اتنا برا فعل ہے کہ اللہ عزوجل اسے سخت نا پسند فرماتا ہے اور اس مرض میں مبتلا رہنے والوں پر اتنا ناراض ہوتا ہے کہ فرشتوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کاحکم دے دیتا ہے جب تک وہ باز نہ آجائیں۔
اللہ عزوجل اپنے پیارے محبوب ﷺ کے صدقہ و طفیل مجھے، آپ کو سب کو اس مرض سے محفوظ فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حسد اور بغض سابقہ امتوں کی بیماری ہے
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایاکہ اگلی امتوں کی بیماری تمہاری طرف بھی آگئی ہے وہ بیماری حسد و بغض ہے جو مونڈنے والی ہے میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ بال مونڈتی ہے بلکہ وہ دین کو مونڈتی ہے۔ (ترمذی، امام احمد)
اللہ اکبر ! میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! پچھلی امت نے دین کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، آپ دیکھیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہہ دیا اور اپنی مرضی کے مطا بق آسمانی کتابوں میں ردّو بدل کردیابلکہ بغض و حسد کی انتہا کا یہ عالم کہ حضور تاجدار مدینہ ا کے متعلق جو بشارتیں ان کی کتابوں میں موجود تھیں ان کا بھی انکار کردیا۔ عظمتِ رسالت کا انکار یہود ونصاریٰ نے محض بغض و حسد کی وجہ سے کیا تھا اور اس طرح انہوں نے دین کو مونڈنے کا کا م انجام دیا۔
تاجدار کائنات ﷺ کا احسان ہے کہ انہوں نے اپنی اُمت میں دین کے برباد ہونے کے اسباب کو بیان فرمادیا اور دین کی حفاطت کے لئے اصول بھی عطافرمادئیے اللہ جل مجدہ الکریم اپنے پیارے محبو ب ا کے صدقہ و طفیل ہم سب پر کرم کی نظر فرمائے۔ اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حاسدین اللّٰہ کی نعمتوں کے دشمن ہیں
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضورعلیہ السلام نے ارشاد فرمایابیشک اللہ کی نعمتوں کے دشمن ہیں، عرض کیا گیا وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا وہ لوگ جو لوگوں سے ان کی نعمتوں کی وجہ سے جلتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے عطا کی ہیں۔ ( طبرانی اوسط)
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! آج جلنے کی بیماری عام ہے اگر کسی کو ترقی یا عزت حاصل ہوجاے تو کبھی رشتہ داروں کو جلن، دوستوں کو جلن، ہونے لگتی ہے اور اس نعمت کے زوال کی دعا اور انتظار کرتے ہیں۔ کاش کہ تھوڑی سی عقل استعمال کرتے تو کبھی نعمتوں کے ملنے پر حسدنہ کرتے۔ اسلئے کہ یہ نعمتیں دینے والا تو وہ اللہ ہے جس کی شان یہ ہے کہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے مال دیتا ہے جسے چاہتا ہے خوشی دیتا ہے۔ اور بندہ جلن کی وجہ سے چاہتا ہے کہ یہ چیزیں اسے نہ ملیں۔ اس نادان کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے چاہے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ جو اللہ عزوجل چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے فیصلے پر راضی رہ کر اس سے فضل کا سوال کرے اور اپنے دل کی صفائی کی دعا کرے۔ وہ کریم ہے سائل کو محروم نہیں بلکہ حضور ا کا صدقہ ضرور عطا فرمائے گا اور اسے بھی نعمتیں مل جائیں گی۔ اللہ عزوجل سارے مومنوں پر اپنی نعمتوں کی بارش فرمائے اور حضوراکے صدقہ ہم پر بھی۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
مسلمان کی مصیبت پر خوش ہونے والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حضرت واثِلَہْ بن اَسْقَع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایااپنے بھائی کی مصیبت پر خوش مت ہواللہ تعالیٰ اسے نجات دیدے گا اور تجھے مبتلاء کردے گا۔ ( ترمذی )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!ایک مسلمان کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہو۔ اگر چہ وہ ہمیں ہزار ہاتکلیف پہنچاتا ہوکیوں کہ اس مصیبت سے جو تکلیف پہونچتی ہے اس کو صرف وہی محسوس کرتا ہے بلکہ کامل مومن وہی ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے مومن بھائی کے لئے پسند کرے۔ یاد رکھیں اگر کسی مسلمان کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے لئے اگر نجات کی دعا کی گئی تو وہ کریم ہے تمہاری دعا سے اس کو مصیبت سے نجات دے کر تم پر آنے والی مصیبت کو بھی ٹال دیگا۔ ٹھیک کہا ہے کسی نے کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔ اللہ نہ کرے اگر کسی کو مصیبت میں مبتلادیکھ کر خوش ہوئے تو ڈرو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ عزوجل اس سے مصیبت دور فرما کر اس مصیبت میں خوش ہونے والے کو مبتلا فرما دے لہٰذاخود کو مصیبت سے بچانا ہے تو دوسروں کی مصیبت سے خوش نہیں ہوناچاہئے پرور دگار عالم جملہ مسلمانوں کو خوشیاں عطا کرے ان کے صدقہ ہم سب کو بھی عطا کرے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حضورﷺ کو اپنی امت میں حسد کا خوف تھا
حضرت ابو عامر اشعرانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایامجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ ان میں مال زیادہ ہو جائے اور آپس میں حسد کرکے کُشت و خون کریں۔ (احیاء العلوم)
میرے پیارے آقا ﷺ کے پیارے دیوانو! حسد کا سبب حضور ﷺ نے مال کی کثرت بیان فرمایا اور حسد کے سبب آپس میں خون خرابہ ہوگا آج یہی ہورہا ہے رحمت عالم ﷺ کو جس چیز کا خوف تھا کیا وہ آج اس امت میں نظر نہیں آرہا ہے یقینا آج چند روپیوں کے لئے، یا کسی کو ترقی کرتے دیکھ کر،یا کسی کے پاس مال کی فراوانی دیکھ کر اسے تباہ وبرباد کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور روز بروز یہ امت خون خرابہ کا شکار ہوتی جارہی ہے کاش حسد جیسی بد ترین بیماری سے آج کا مسلمان بچ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے مسائل حل ہوجائیںاور آپس میں ہی الفت ومحبت نیز اطمینان کی دولت حاصل ہوجائے۔ آئو ہم دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہم سب کو حسد سے بچائے اور سب کو خوش دیکھ کر خوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
دنیا میں جنت کی بشارت
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم سرکا ر دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے فرمایاابھی اس راستے سے تمھارے سامنے ایک جنتی آئے گا اتنے میں ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمودار ہوئے ان کے بائیں ہاتھ میں جوتے تھے اور داڑھی کے بالوں میں سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا انہوں نے ہم لوگوں کو سلام کیا، دوسرے روز بھی رسول اللہﷺ نے اسی طرح فرمایا اور یہی صحابی سامنے آئے اور تیسرے دن بھی یہی واقعہ ہوا۔ جب سرور عالم ﷺ تشریف لے گئے تو حضرت عبدا للہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان انصاری صحابی کا پیچھا کیا اور ان سے کہا میرے اور میرے والد کے درمیان کچھ اختلاف ہو گیا ہے اور میں نے قسم کھا لی ہے کہ میں تین دن تک ان کے پا س نہیں جائو ں گا۔ آپ اجازت دیں تو میں یہ تین راتیں آپ کے پا س گزار لوں؟راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے تین راتیں ان کے گھر گزاریں۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ رات کو تھوڑی دیر کیلئے بھی نماز کے واسطے نہیں اٹھتے تھے البتہ جب کروٹ بدلتے تو اللہ کا نام ضرور لیتے مگر صبح کی نماز تک بستر پر ہی لیٹے رہتے تھے۔ تاہم میں نے اس عرصے میں ان کی زبان سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں سُنا جب تین روز گزر گئے اور مجھے ان کے اعمال کے معمولی ہونے کا یقین ہو گیا تو میں نے ان سے کہا اے بندئہ خدا! میرے اور والد کے درمیان نہ کوئی ناراضگی تھی اور نہ ہی بے بنائو مگر میں نے رسولِ اکرم اکو آپ کے بارے میں جنت کی بشارت دیتے ہوئے سنا تھا اس لئے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ تمہارے اعمال تو دیکھوں جن کی بنا ء پر تمہیں دنیا ہی میں جنتی ہونے کی بشارت و خوشخبری دی گئی ہے۔ ان تین دنوں میں میں نے تو آپ کو کچھ زیادہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا پھر تم اس درجے تک کیوں کر پہنچے؟ انہوں نے جواب دیامیرے اعمال تو بس یہی ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔ جب میں جانے لگا تو انہوں نے آواز دے کر بلایا اور کہنے لگے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لئے کدورت، کینہ نہیں رکھتا ہوں اور نہ کسی سے حسد کرتا ہوں کہ اللہ نے اسے نعمت کیوں عطا کی ہے۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا تمہاری انہیں خوبیوں نے تمہیں اس درجے تک پہونچایا ہے اور یہ باتیں ہمارے دائرئہ طاقت سے باہر ہیں۔ (رواہ احمد)
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو!جنت، عزت اور بلندی کون نہیں چاہتا ؟ ہر کوئی چاہتا ہے۔ بس اسے صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنے دل کو ہر مسلمان کے لئے کدورت سے پاک کرلے اور مومن بھائی کوخوش نیز ترقی کرتا دیکھ کر اس کے لئے مزید ترقی کی دعا کرے۔ تومولیٰ مومن بھائی کی بھلائی چاہنے کے عوض ضرور اس پر بھی کرم کی نظر فرمائے گا اور جنت کا حقدار فرمائے گا نیز دونوں جہاں کی عزت عطا فرمائے گا۔
اللہ عزوجل ہم سب کے دل کو کدورت، حسد، بغض، کینہ وغیرہ سے بچائے اور ہمیشہ سب کا بھلا چاہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
عرش کے سایہ میں
روایت ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام جب باری تعالیٰ سے باتیں کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے تو ایک آدمی کو عرش کے سایہ میں دیکھا، آپ کو اس شخص کے رتبے پر رشک آیا اور جنابِ باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ مجھے اس کا نام معلوم ہو جائے۔ ارشاد ہواکہ نام کیا بتلائیں ہم تمہیں اس کے اعمال بتلاتے ہیں وہ کسی سے حسد نہیں کرتا تھا، اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا، اور چغلخوری نہیں کرتا تھا۔ (احیاء العلوم جلد ۳)
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو!حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نبی ہوکر اس بندے کے مرتبے پر رشک کررہے ہیں۔ اس بندے کی قسمت پر قربان، عرش کے سایہ میں جگہ پانے والے اس خوش نصیب کی عادت کا صدقہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عطا فرمائے اور حسد اور چغلخوری سے بچنے کے ساتھ ساتھ والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حسد کا وبال
امام غزالی علیہ الرحمہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف احیاء العلوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ بکر بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص بادشاہ کے پاس جاتا اور اس کے سامنے جاکر یہ جملہ کہا کرتاکہ محسن کے ساتھ اس کے احسان کے جواب میں اچھا سلوک کرو۔ بدی کرنے والے کے لئے تو اسکی بدی ہی کافی ہے ایک شخص کو اس کی جرأت اور بادشاہ کے یہاں اس کے مرتبے پر حسدہوا اور اس نے بادشاہ سے چغلی کی کہ فلاں شخص جو کھڑا ہو کر آپ کے سامنے یہ جملہ کہا کرتا ہے آپ سے نفرت کرتا ہے اور یو ں کہتا ہے کہ بادشاہ گندہ دہن (بدبو دار منہ ) ہے۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا اس کی تصدیق کی صورت کیا ہے ؟چغل خور نے کہا ؛جب وہ دربار میں کھڑے ہوکریہ جملہ کہتا ہے تو اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لیتا ہے تاکہ آپ کے منہ کی بدبو مجھے پریشان نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا ہم اس کا امتحان لیں گے اگر وہ ایسا ہی ہے جیسا تو نے کہا تو اسے درد ناک سزا دیں گے ایک طرف چغلخور نے بادشاہ کو بھڑکا یا تو دوسری طرف اس حق گو کو ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن زیادہ تھاحسب معمول دربار میں پہونچا، بادشاہ نے اسے قریب بلا یا اس نے اس خیال سے کہ کہیں بادشاہ سلامت میرے منہ کی بدبو سونگھ نہ لیںاپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیااس کی اس حرکت سے بادشاہ کو چغلخور کی بات پر یقین آگیا اسی وقت اپنے عامل کو خط لکھا کہ جب یہ شخص تیرے پاس میرا یہ خط لے کر پہونچے تواسے قتل کردے اور اس کی کھال میں بھُس بھر کر ہمارے پاس بھیج دے۔ وہ شخص خط لے کر روانہ ہواراستے میں اسے وہی حاسد چغلخور ملا، اس نے دریافت کیا کہ تم یہ کیا لئے جا رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا یہ بادشاہ سلامت کا خط ہے فلاں عامل کے نام اس میں میرے لئے انعام کی سفارش کی گئی ہے چغلخور کو لالچ آگئی اور اس نے کہا : یہ خط مجھے دیدوتمھارے بجائے میں انعام حاصل کروںگا۔ اس نے بادشاہ کا خط اس کے حوالے کردیا، چغلخور عامل کے پاس پہونچا، اس نے خط پڑھ کر بتلایا کہ اس میں تجھے قتل کرنے اور تیری کھال میں بھس بھر کر بھیجنے کا حکم ہے۔ اب اس کی آنکھیں کھلیں، اس نے کہا یہ خط میرے لئے نہیں ہے، تم بادشاہ سے رجوع کر سکتے ہو۔ عامل نے اس کی ایک نہ سنی اور بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی گردن مار دی۔
ادھر وہ شخص اپنی عادت کے مطابق دربارپہونچا،بادشاہ کو بڑی حیرت ہوئی خط کے متعلق استفسارکیاتو اس نے کہا فلاںدرباری نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میںبادشاہ کا خط اسے ہبہ کردوںمیں نے اسے دے دیا تھا، بادشاہ نے اسے خط کا مضمون بتایااور کہا کہ اس شخص نے کہا تھا، کہ تو مجھ سے نفر ت کرتا ہے، نیز یہ کہ میں گندہ دہن ہوں، چنا نچہ میں نے تجھے قریب بلایا تھا اور تونے اپنی ناک پرہاتھ رکھ لیا تھا، اس نے اس الزام کی تردید کی اور لہسن ملا ہوا کھانے کا واقعہ سنایا اور بتلا یاکہ میںنے اپنے منہ پر ہاتھ اس لئے رکھ لیا تھا کہ کہیں میرے منہ کی بدبو آپ کو پریشان نہ کرے۔ بادشاہ نے کہا تم اپنی جگہ بیٹھواس نے اپنے کئے ہوئے کی سزا پالی۔ کہ تم سچ کہا کرتے ہوکہ بدی کرنے والے کے لئے اس کی بدی کافی ہے۔ (احیا ء العلوم جلد سوم )
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو!دیکھا آپ نے بے قصور شخص کو پریشان کرنے کا انجام ؟ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ دنیا میں کوئی بھی انسان کسی کا برا سوچ کر یا برا کرکے اطمینان کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ تاریخ میں ایک نہیں بے شمار ایسے واقعات آپ کوملیں گے اور آپ کبھی نہیں دیکھیںگے کہ کسی کا بھلا چاہنے والا انسان پریشان ہواللہ عزوجل اپنے بندوں کا بھلا چاہنے والے کو سکون واطمینان کی دولت عطا کرتا ہے اور برا چاہنے والے کی ایسی پکڑ کرتا ہے کہ دنیا پکار اٹھتی ہے کہ یہ اسی لائق تھا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ مذکورہ واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور ہمیشہ لوگوں کا بھلا چاہنے کی کوشش کریں۔ اللہ عزوجل ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
بزرگوں سے حسد
ایک مرتبہ شیطان نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ میں آپ کے ایک احسان کا بدلہ چکانا چاہتاہوںحضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا ملعون ! میں نے تو تجھے اپنے پاس بھٹکنے تک نہ دیا پھر تم پر میراکوئی احسان کیسا؟ شیطان بولا، آپ نے اپنی سرکش قوم کو ڈبو دکر آئے دن کی مصیبت سے مجھے بچالیا۔ ہر روز کی کشمکش اور اغواکی ترکیبو ںسے مجھے نجات مل گئی ہے۔ اس کے عوض میں یہ نصیحت کرتاہوں کہ بزرگوں کی حسد سے بچنا چاہیئے۔ میں آدم علیہ السلام سے حسد کرنے ہی کی وجہ سے مارا گیا ہوں اور ابدی جہنمی بن گیا ہوںان کی بڑائی و عظمت پر میں نے حسد کیا اور ان کے آگے نہ جھکا اور ہمیشہ کے لیئے ملعون بن گیا۔ (سچی حکایات بحوالہ نزھۃ المجالس)
میرے پیارے آقا ﷺا کے پیارے دیوانو! کبھی کبھی دشمن بھی سچ بات کہہ دیتا ہے۔ دیکھا آپ نے شیطان مردود نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا تو پروردگار جل جلالہ نے نہ اس کی عبادت دیکھی، نہ ا س کی تسبیح و تحمیدکی پرواہ کی، نہ اس کا فرشتوں کو پڑھانا دیکھا بلکہ اللہ عزوجل کی جانب سے حضرت آدم علیہ السلام کو ملنے والی عزت سے حسد کرنے کے عوض شیطان کو ہمیشہ کے لئے مردود وملعون قرار دیا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ حسد اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے بندے کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور بندہ مولیٰ کے عذاب کا حقدار بن جاتا ہے۔ اللہ عزوجل ہم سب کو حسد سے بچائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
ایک سال پہلے جہنم میں
روایت ہے کہ چھ آدمی حساب وکتاب سے ایک سال پہلے دوزخ میں جائیں گے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ ا! وہ کون لوگ ہیں ؟ارشاد فرمایا : اُمراء ظلم کی وجہ سے، عرب عصبیت کی وجہ سے، دہقان ( رئیس ) تکبر کی وجہ سے اور تاجر خیانت کے باعث اور گنوار جہالت کے ذریعہ، اور علماء حسد کی وجہ سے۔ (اللہ اکبر) (ابو منصور دیلمی)
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! اللہ عزوجل ہم سب کو مذکورہ چھ اشخاص میں نہ بنائے اور ان کی برائیوں سے بچائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
صرف دو چیزوں میں حسد جائز ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا حسد صرف دو شخصوں میں ہے ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا ہے اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنے پر مسلط کردیا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے علم عطا کیا ہے، وہ اس پر عمل کرتا ہے اور لوگوں کو تعلیم دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! مذکورہ دونوں چیزوں میں حسد سے خود کا فائدہ ہے لیکن آج ان چیزوں میں حسد کہاں کوئی کرتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے جو راہ حق میں مال خرچ کرتے ہیں اور عمل کرنے والے کو آج لوگ بے عقل کہتے ہیں۔ دنیا سے اکتا یا ہوا اورپسماندہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں اگر کسی مالدار کو راہ حق میں خرچ کرتے اور کسی صاحب علم کو عمل کرتے دیکھیں تو اللہ عزوجل کی بار گاہ میں دعا کریں کہ مولیٰ اس کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں بھی دولت عطا فرما تاکہ تیری راہ میں خرچ کریں اور ایسا علم عطا فرما جس پر عمل کرکے تجھے راضی کریں۔ اللہ نیک لوگوں میں بنائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
حسد سے بچنے کا طریقہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ارشادفرمایا تین باتیں ایسی ہیں جن سے کوئی خالی نہیں ہے۔
(۱) ظن: لہٰذاجب کوئی گمان دل میں آئے تو اسے صحیح نہ سمجھو۔
(۲)بد فالی: لہٰذا جب بدفالی ہو تو اپنے کام میں لگے رہو۔
(۳)حسد:لہٰذاجب حسد پیدا ہو تو اس کی خواہش نہ کرو
اور حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیںکہ حسد قلب کی بیماریوں میں سے ایک بہت بڑی بیماری ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ حسد کرنے والا ٹھنڈے دل سے یہ سوچ لے کہ میرے حسد کرنے سے ہر گز ہرگز کسی کی نعمت و دولت برباد نہیں ہو سکتی اور میں جس پر حسد کر رہا ہوں میرے حسد سے اس کا کچھ بگڑ نہیں سکتا بلکہ میرے حسد کا نقصان دین و دنیا میں مجھ کو ہی پہونچ رہا ہے کہ میں خواہ مخواہ دل کی جلن میں مبتلا ہوںاور ہر وقت حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہوں اور میری نیکیاںبرباد ہو رہی ہیں اور میں جس پر حسد کر رہاہوں میری نیکیاں قیامت میں اس کو مل جائیں گی۔ پھر یہ بھی سوچے کہ جس پر حسد کرہا ہوں اس کو خداوند کریم نے یہ نعمتیں دی ہیں اور میں اس پر ناراض ہو کر حسد میں جل رہا ہوں تو میں خداوند کریم کے فعل پر اعتراض کر کے اپنا دین و ایمان برباد کر رہا ہوں یہ سوچ کر پھر اپنے دل میں ا س خیال کو جمائے کہ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ جو شخص جس کا اہل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وہی عطا فرماتا ہے۔ میں جس پر حسد کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک چوں کہ وہ ان نعمتوں کا اہل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ نعمتیں عطا فرمائیں۔ اس طرح حسد کا مرض دل سے نکل جائے گا اور حاسد کو حسدکی جلن سے نجات مل جائے گی۔ ( احیا ء العلوم جلدسوم )
میرے پیارے آقاﷺ کے پیارے دیوانو! آئو دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہم سب کو امام غزالی علیہ الرحمہ کے ارشادات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
کلمہ پڑھنے کی توفیق نہ ملی
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک شاگرد پر نزع طاری تھی آپ ا س کے پا س تشریف لے گئے اور اسکے سرہانے بیٹھ کر یٰسٓ شریف پڑھنا شروع کردی، شاگرد نے نزع کی حالت میں عرض کی استاذِ گرامی،اسے مت پڑھئے (کیونکہ کوئی فائدہ نہ ہوگا) استاذ نے تھوڑی دیر خاموش رہ کر’’ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ‘‘ کی تلقین کی شاگردنے کہا میں ابھی نہیں پڑھ سکتااسلئے کہ میں اس سے بریٔ الذمہ ہوںیہ کہہ کروہ مرگیا۔ (نعوذ با اللہ من ذٰلک) حضرت فضیل بن عیاض گھرلوٹے شاگرد کی اس غلطی پر چالیس روز تک روتے رہے اور اس غم سے گھر سے باہرنہ نکلے۔ چالیسویں روز خواب میں دیکھا کہ ان کے شاگرد کو جہنم کی طرف لے جارہے ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض علیہ الرحمہ نے فرمایا کمبخت،تو کونسی نحوست کے سبب جہنم کا مستحق ہوگیا حالانکہ تو میرا شاگرد تھاتجھ سے ایسی امید نہ تھی۔ عرض کی مجھ سے تین گناہ سرزد ہوئے ہیں۔
= چغلخوری، کہ میں اپنے دوستوں کوکچھ کہتا اور آپ کو کچھ۔
= حسد، کہ میں ہمیشہ اپنے ہمجولیوں سے حسد کرتا رہا۔
= مجھے ایک بیماری تھی میںنے کسی ڈاکٹر سے علاج پوچھا تو اس نے کہا سال میں ایک مرتبہ شراب پی لیا کروورنہ بیماری تجھے ہرگز نہ چھوڑے گی۔ چنانچہ اس طبیب کے کہنے پر میں سال میں ایک بار شراب پی لیا کرتاتھا۔ (تفسیر روح البیان جلد سوم)
میرے پیارے آقاﷺکے پیارے دیوانو! حضرت فضیل بن عیاض اللہ کے ولی تھے۔ ان کی تلقین کے باوجود اس شخص کی زبان پر کلمہ جاری نہ ہوا اور وہ جہنمی ہوگیا۔ اندازہ لگائیں کہ تین برائیاں اس شخص کے اندر تھیں ان کا انجام کتنا بھیانک ہوا۔ دل میں جلن، چغلخوری اور شراب یہ اللہ عزوجل کو کس حد تک ناپسند ہے کہ ان تین جرموں کی وجہ سے مجرم کو ولی کی تلقین کے باوجود کلمہ زبان پر جاری نہ ہوا۔ اسلئے ہم کو چاہیئے کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہمیشہ اپنے گناہوں سے بچنے کی دعا کریں اور اپنا حساب کرتے رہیں۔ یاد رکھیں کہ صحیح معنوں میں کامیابی ایمان پر خاتمہ ہے۔ اللہ ایمان پر زندہ رکھے اور ایمان ہی پر خاتمہ فرمائے اور اللہ عزوجل ہم سب کو مذکورہ تین گناہوں سے ہمیشہ بچائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْمِ
ٹیگز:-
علامہ شاکر نوری , حسد , بغض , مولانا شاکر نوری صاحب , مولانا محمد شاکر نوری رضوی , محمد شاکر نوری