فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗ وَكَفَرۡنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشۡرِكِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 84
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحۡدَهٗ وَكَفَرۡنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشۡرِكِيۡنَ ۞
ترجمہ:
پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہتے لگے : ہم اللہ پر ایمان لائے جو واحد ہے اور اب ہم ان کو انکار کرتے ہیں جن کو ہم اس کا شریک قرار دیتے تھے
تفسیر:
موت کے فرشتہ یا آثار عذاب کو دیکھ کر توبہ قبول نہ ہونے کی تحقیق
المومن : ٨٤ میں فرمایا : ” پس ان کے ایمان نے ان کو اس وقت کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، یہ اللہ کا اس کے بندوں میں قدیم دستور ہے اور اس وقت کافر بہت نقصان میں رہے
یعنی وہ اس وقت میں ایمان نہیں لائے جس وقت میں انہیں ایمان لانے کا حکم دیا گیا تھا اور ان سے پہلی امتوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ دستور رہا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کا عذاب دیکھ کر اس پر ایمان لاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایمان کو قبول نہیں فرماتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان وہ معتبر ہے جو ایمان بالغیب ہو اور موت کے وقت کافر کو عذاب کے فرشتے دکھائی دیتے ہیں تو جو کافر عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر ایمان لاتا ہے اس کا ایمان قبول نہیں کیا جاتا، اسی وجہ سے فرعون جو مرتے وقت ایمان لایا تھا اس کا ایمان قبول نہیں فرمایا۔ قرآن مجید میں ہے :
وجوزنا ببنی اسراء یل البحر فلتبعھم فرعون و جنودہ بغیا وعدوا حتی اذادر کہ الغرق قال امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنواسرائیل وانا من المسلمین الئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین (یونس :90-91)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار گزاردیا، پس فرعون اور اس کے لشکر نے (ان پر) ظلم اور زیادتی کرنے کے ارادے سے ان کا پیچھا کیا، حتیٰ کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اس نے کہا میں اس پر ایمان لایا جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (فرمایا) اب ایمان لایا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں میں سے تھا
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً توبہ قبول کرنے کی خبر دی ہے، فرمایا :
وھوالذی یقبل التوۃ عن عبادہ ویعفوا عن السیات۔ (الشوریٰ :25) اور وہی ہے ج واپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ گناہوں کی توبہ کرنا موت سے پہلے پر محمول ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمادیا ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے وقت توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، قرآن مجید میں ہے :
ولیست التوۃ للذین یعملون السیات حتی اذا حضرا احدھم الموت قال انی تبت الئن ولا الذین یموثون وھم کفار اولئک اعتدنالھم عذابا الیما (النساء :18) ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو مسلسل کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی ایک پر موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اب توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے جو حالت کفر پر مرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کررکھا ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان مسلسل گناہ کرتا رہے اور مرتے وقت توبہ کرے یا جو شخص مسلسل کفر کرتا رہے اور مرتے وقت ایمان لائے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے نہ اس کا ایمان قبول ہوتا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی توبہ قبول فرمات ہے جب تک غرغرہ موت نہ ہو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٣٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥٣، مسند احمد ج ٢ ص ١٣٢۔ ١٥٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٠ ص ٣٠٠، رقم الحدیث : ٦١٦٠، مؤسسۃ الرساۃ، بیروت، ١٤١٦، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٥٦٠٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٢٨، الکامل لابن عدی ج ٤ ص ٥٩٢، حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ١٩٠، المستدرک ج ٤ ص ٢٥٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٠٦٣، شرچ السنۃ رقم الحدیث : ١٣٠٦، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ٨٧)
غرغرہ موت کا معنی ہے : جب آدمی کی روح نکل کر اس کے حلقوم تک پہنچ جائے اور اس کی موت کا یقین ہوجائے، اس وقت آدمی کی توبہ قبول نہیں ہوتی، اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب آدمی ملک الموت کو دیکھ لے لیکن یہ اکثری حکم ہے کلی نہیں ہے، کیونکہ بعض لوگ ملک الموت کو نہیں دیکھتے اور بعض موت سے پہلے دیکھ لیتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان کی روح اس کے حلقوم تک پہنچ جائے یا وہ آثار عذاب کو دیکھ لے اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
اس پر اس حدیث سے اعتراض ہوتا ہے :
حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر میں بھیجا (رح) ، ہم علی الصبح قبیلہ جبینہ کی بستیوں میں پہنچ گئے، میں نے ایک آدمی پر حملہ کیا، اس نے کہا : لا الہ الا اللہ، لیکن میں نے اس کو قل کردیا، پھر مجھے اپنے اس فعل کے متعلق کچھ تردد ہوا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس شخص کے علمہ پڑھنے کے باوجود اس کو قتل کردیا ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس شخص نے جان کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا، جس سے تم کو پتا چل جاتا کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا تھا یا نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بار بار یہی کلمات دہراتے رہے، حتیٰ کہ میں نے تمنا کی کہ کاش ! میں اس وقت اسلام لایا ہوتا (تاکہ اس شخص کا قتل زمانہ جاہلیت کے افعال میں شمار کیا جاتا اور میرے اسلام لانے سے وہ گناہ معاف ہوجاتا) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٦٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٤٣، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٥٩٤، مسند ابو عوانہ رقم الحدیث : ١٩٢، مسند احمد ج ٥ ص ٢٠٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٦ ص ١٣٣، رقم الحدیث : ٢١٨٠٢، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٨١، سنن کبریٰ للبہیقیج ٨ ص ١٩٢۔ ١٩، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٣١٩، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٢٢ )
اعتراض یہ ہے کہ اس شخص پر جب حضرت اسامہ نے حملہ کیا اور اس نے موت کو اپنے سامنے دیکھا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا اور جب موت کو سامنے دیکھ کر ایمان قبول نہیں ہوتا تو چاہیے تھا کہ اس کا ایمان بھی مقبول نہ ہوتا، اس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص نے ملک الموت کو دیکھا تھا نہ آثار عذاب دیکھے تھے اور اگر حضرت اسامہ اس کو کلمہ پڑھنے کا موقع دیتے تو اس کا ایمان بالغیب ہی ہوتا، اس کو اپنی موت کا یقین نہیں تھا بلکہ اس کے برعکس اس کو یہ یقین تھا کہ اس کے کلمہ پڑھنے کی وجہ سے حضرت اسامہ اس کو قتل نہیں کریں گے۔
سورت المومن کا خاتمہ
آج ٢٢ شعبان ١٤٢٤ ھ؍١١٩ اکتوبر ٢٠٠٣ ء بروز ہفتہ بوقت صبح سورة المومن کی تفسیر ختم ہوگئی، فالحمد للہ رب العٰلمین۔ اس سورت کی ابتداء ١٨ ستمبر کو ہوئی تھی گویا ایک ماہ میں اس کی تفسیر مکمل ہوگئی، رب العٰلمین ! جس طرح آپ نے یہاں تک تفسیر مکمل کرادی باقی تفسیر بھی مکمل کرادیں اور اس تفسیر کو موافقین کے لیے موجب طمانیت و استقامت اور مخالفین کے لیے موجب ہدایت بنادیں، میری، میرے والدین کی، اس کتاب کے معاونین، اس کے مصححخ، ناشر اور اس کے قارئین کی مغفرت فرمادیں۔ ٧ اگست ٢٠٠٣ ء شب جمعہ کو میری والدہ کا انتقال ہوگیا، قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ایک بار سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب میری والدہ کو پہنچا دیں اور ان کی مغفرت کی دعا کریں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین امام المرسلین
شفیع المذنبین وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ وذریاتہ واولیاء امتہ و علماء ملتہ وامتہ اجمعین
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 84
[…] تفسیر […]