أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالُوۡا قُلُوۡبُنَا فِىۡۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَاۤ اِلَيۡهِ وَفِىۡۤ اٰذَانِنَا وَقۡرٌ وَّمِنۡۢ بَيۡنِنَا وَبَيۡنِكَ حِجَابٌ فَاعۡمَلۡ اِنَّنَا عٰمِلُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور انہوں نے کہا : جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس سر، پردے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنا کام کیجئے، ہم اپنا کام کرنے والے ہیں

کفار کے دلوں پر پردوں اور کانوں میں ڈاٹ کا سبب

حٰم ٓ السجدۃ : ٥ میں ہے : اور انہوں نے کہا : جس دین کی طرف آپ ہمیں بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس سر، پردے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، سو آپ اپنا کام کیجئے، ہم اپنا کام کرنے والے ہیں “

اس آیت میں ” اکنّہ “ کا لفظ ہے، یہ کنان کی جمع ہے، کنان اس پردے کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو چھپا لیتا ہے یعنی اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس تک دوسروں چیزوں کے پہنچنے سے مانع ہوتا ہے، مشرکین کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے دلوں پر ایسے پردے پڑے ہوئے ہیں جو آپ کی دعوت اور پیغام کی فہم اور اس کو سمجھنے سے مانع ہیں اور اس آیت میں ’ وقر “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے ڈاٹ اور کارک، بوتل کے اوپر ایک مضبوط کارک لگا ہوا ہوتا ہے جو باہر کی کسی چیزکو بوتل کے اندر جانے نہیں دیتا، انہوں نے کہا : ہمارے کانوں میں بھی اسی طرح ڈاٹ اور کارک ہے جس کی وجہ سے آپ کی آواز ہمارے کانوں میں نہیں پہنچتی، دراصل ان کے دلوں پر دنیا کی گوناگوں رنگینیوں اور اس کی زیب وزینت کی محبت کے قفل لگے ہوئے تھے، اس لیے وہ کوئی ایسی بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کی ناجائز خواہشوں کے پورا ہونے میں کوئی کمی آتی یا غیر شرعی لذت اندوزی میں کوئی فرق پڑتا، قرآن مجید میں ہے :

وقالوا قلوبنا غلف بل لعنھم اللہ بکفرھم۔ (البقرہ : 88) اور انہوں نے کہا : بلکہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں، بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کردی ہے۔

اور اس آیت میں فرمایا : ” اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے “ ، یہ حجاب ان کی اندھی تقلید اور باطل خواہشوں کا ہے اور کفر اور شرک کے ساتھ ان کی ساتھ شدید وابستگی اور سخت محبت کا ہے۔

اس آیت میں صرف ان کے دلوں اور کانوں کا ذکر فرمایا ہے اور دل سے مراد عقل ہے اور عقل ادراک کا اصل ذریعہ ہے اور کانوں کے ذریعہ کوئی بات عقل تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ادراک کے تمام ذرائع جو انہیں حاصل تھے وہ ان کی ناجائز خواہشوں اور اندھی تقلید کی وجہ سے معطل ہوچکے تھے، اس لیے انہوں نے کہا : ” آپ اپنا کام کیجئے ہم اپنا کام کررہے ہیں “ یعنی ہم آپ کے پیغام پر عمل نہیں کریں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 5