وَيُرِيۡكُمۡ اٰيٰتِهٖ ۖ فَاَىَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنۡكِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 81
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيُرِيۡكُمۡ اٰيٰتِهٖ ۖ فَاَىَّ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُنۡكِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، پس تم اللہ کی کون کون سی آیتوں کا انکار کروگے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اللہ ہی نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے تاکہ ان میں سے بعض پر تم سواری کرو اور بعض کو تم کھاتے ہو اور تمہارے لیے ان چوقایوں میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور تاکہ تم ان کے ذریعے اپنی ان ضروریات کو پورا کرو جو تمہارے دلوں میں ہیں اور ان چوپایوں اور کشتیوں پر تم سوار کرائے جاتے ہو اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، پس تم اللہ کی کون کون سی آیتوں کا انکار کروگے (المومن : ٨١۔ ٧٩)
اللہ تعالیٰ کے بندوں پر انعامات اور احسانات
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انعام اور احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے اور یہ اونٹ، گائے اور بکریاں ہیں، ان میں سے بعض پر تم سواری کرتے ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو، پس اونٹنیوں پر سواری بھی کی جاتی ہے اور ان کا گوشت کھایا بھی جاتا ہے اور ان کا دودھ بھی دوہا جاتا ہے، اسی طرح گایوں اور بکریوں سے بھی یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اونٹوں پر دوردراز کا سفر کیا جاتا ہے اور ان پر بوجھ بھی لادا جاتا ہے اور بیلوں سے زمین میں ہل بھی چلایا جاتا ہے اور بھیڑوں سے اون حاصل کیا جاتا ہے، جس سے سردیوں کا گرم لباس بنایا جاتا ہے اور ان کے دودھ سے گھی، مکھن اور پنیر بھی حاصل کیا جاتا ہے، ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے جانروں کا بھی ذکر فرمایا ہے :
والخیل والمغال والحمیر لترکبوھا وزینۃ ویخلق ما لا تعلمون (النحل :8) اور اللہ نے گھوڑوں کو اور خچروں کو اور گدھوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہارے لیے باعث زینت بھی ہیں، اور وہ ان چیزوں کو پیدا فرماتا ہے جو تم نہیں جانتے
یعنی ان جانوروں کو پیدا کرنے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ تم ان پر سواری کرو تاہم یہ تمہاری زینت کا باعث بھی ہیں، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کا ذکر فرمایا تھا۔ ولانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافع ومنھا تاکلون (النحل :5)
اور اس نے تمہارے فائدے کے لیے چوپائے پیدا کیے جن (کے اون) میں تمہارا گرمی کا لباس ہے اور دیگر فوائد ہیں اور تم ان میں سے بعض کو کھاتے ہو النحل : ٨ میں چوپایوں کا عمومی ذکر کرنے کے بعد گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا الگ ذکر کیا، اس سے بعض فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر حرام ہے، لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ہے :
حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں گھڑوں کو نحر کیا (سینہ پر نیزہ مار کر ذبح کرنا) پھر ہم نے ان کو کھایا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥١٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٤٠٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١٩٠)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن پالتوں گدھوں کے گوشت کو حرام فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کے کھانے کی اجازت دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٢٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٤١، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٧٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٩٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٣٢٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٤٧٣٩، جامع المسانید مسند ابن عبداللہ رقم الحدیث : ٨٦٢ )
ان حدیثوں سے یہ واضح ہوگیا کہ النحل : ٨ میں جو خصوصیت کے ساتھ گھوڑوں کا الگ ذکر کیا گیا ہے اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ گھوڑوں کا کھانا حرام ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں گھوڑوں کا غالب استعمال سواری کے لیے کیا جاتا ہے اور وہ اس قدر خوبصورت، مفید اور گراں قیمت جانور ہے کہ خوراک کے طور پر اس کا استعمال بہت ادر ہے اور بھیڑوں اور بکریوں کی طرح اس کو عام طور پر ذبح کرکے کھایا نہیں جاتا۔
توحید اور رسالت پر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں
المومن : ٨١ میں فرمایا : ” اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، پس تم اللہ کی کون کون سی آیتوں کا انکار کروگے “
اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیاں صرف آسمانوں اور زمینوں میں بکھری ہوئی نہیں ہیں بلکہ تمہارے اپنے وجود میں بھی نشانیاں سمٹی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نشانیاں انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی ذوات قدسیہ میں ہیں اور اس سے بڑھ کر منکر کون ہوگا جو ان چمکتی ہوئی واضح نشانیوں کا انکار کرے گا اور مسلمانوں کے لیے سب سے عظیم معجزہ قرآن مجید ہے، جس نے یہ چیلنج کیا کہ اس کی کوئی مثال نہیں لاسکتا اور آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود کوئی اس کی مثال نہیں لاسکا اور جس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی اور چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکی، حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا معجزہ ہو یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا معجزہ یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ ہو یہ تمام معجزات ان نبیوں کے ساتھ چلے گئے، آج کسی یہودی یاعیسائی کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہے جس سے وہ اپنے دین کی صداقت منواسکے، مگر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ قرآن مجید ہے، وہ جس طرح کل اسلام کی صداقت کی دلیل تھا، آج بھی اسلام کی حقانیت پر دلیل ہے اور قیامت تک رہے گا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 40 غافر آیت نمبر 81