“مولانا روم کی حکایت اور غامدی و جدید ذہنیت”

مولانا روم ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے جسم پر شیر بنوانے کے لئے مصور کے پاس گیا اور کہا کہ میری پیٹھ پر اس طرح شیر بناؤ کہ وہ اصلی معلوم ہو!

مصور نے سوئی لی اور کام شروع کیا جب چند سوئیاں چبھی تو برداشت جواب دے گئی اور بولا کہ بھئی کیا بنارہے ہو؟

مصور بولا: شیر کا منہ بنا رہا ہوں!

آدمی بولا کہ کونسا شیر نے منہ سے شکار کرنا ہے چھوڑو اور کچھ اور بناؤ……

مصور نے اب شیر کی پیٹھ بنانا شروع کیا اب کی بار بھی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چلا اٹھا اب کیا بنا رہے ہو؟

مصور بولا شیر کی پیٹھ بنا رہا ہوں.

اس آدمی نے کہا پیٹھ کی کیا ضرورت میں نے کونسا اس پہ سواری کرنی ہے تم کچھ اور بناؤ…

مصور حیران ہوا اور شیر کے کان بنانے شروع کردئیے. پھر سے تکلیف اٹھی چلایا اور بولا اب کیا بنا رہے ہو؟

کہنے لگا شیر کے کان بنا رہا ہوں.

وہ آدمی بولا کان چھوڑو شیر نے کونسا سننا ہے تم بس سادہ سا شیر بناؤ.

اسی طرح مصور جو چیز بنانے لگتا وہ آدمی درد کی وجہ سے اسے چھوڑنے کا کہہ دیتا

بالآخر مصور کو غصہ آیا اور بولا چل بھاگ، یہاں بغیر جسم کا کوئی شیر نہیں بنتا…

یہی حال آج کل غامدی صاحب کا ہے کہ جب دیکھا تراویح پڑھنا مشکل ہے تو بولے یہ تو اسلام میں ہے ہی نہیں!

جب دیکھا کہ میں عورتوں کو چھوتا ہوں اور اسلام منع کرتا ہے تو جھٹ سے کہہ دیا کہ ہاتھ ملانے کی کوئی ممانعت نہیں.

پھر دیکھا کہ لڑکیوں کا پردہ کرنا مشکل ہے تو غامدی صاحب بولے کہ کوئی بات نہیں اسلام میں پردہ سرے سے ہے ہی نہیں.

اسی طرح جہاد، سنگسار، جزیہ، مرتد کو قتل وغیرہ چونکہ ہمارے لئے تکلیف دہ ہیں لہذا اسلام میں ہے ہی نہیں……

جس طرح وہ شخص شیر بنوانے آیا تھا اور بغیر جسم شیر کا مطالبہ رکھ دیا بلکل اسی طرح غامدی اور جدید اذہان سیکھانے دین آئے تھے مگر دین سے نکال ہی دیا……..

حسیب احمد مجددی