تعارف کتاب ،احادیث صحیحین سے غیر مقلدین کا انحراف
تعارف کتاب ،احادیث صحیحین سے غیر مقلدین کا انحراف( دو جلدیں )
جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے شیخ الادب علامہ نفیس احمد مصباحی صاحب قبلہ کے قلم سے
جلد اول 528 صفحات /جلد دوم 424 صفحات
مصنف کتاب :سراج الفقہاء مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی
شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور
تعارفِ کتاب :
سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی کو اللہ تعالیٰ نے ذہنِ رسا اور فکرِ دقیق عطا فرمائی ہے، ساتھ ہی ان کا محققانہ طرز بیان اور مسائل ومباحث کے ضروری گوشوں کے احاطے کے ساتھ آسان لب ولہجے میں سمجھانے کا ہنر انھیں موجودہ عہد کے اربابِ فتویٰ اور محققین سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی تقریباً تمام تصنیفات وتحقیقات میں یہ رنگ دور ہی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ فقہی وعلمی مباحث پر مشتمل کتابوں پر انھوں نے جو گراں قدر، تاریخی اور تحقیقی مقدمے تحریر فرمائے وہ خود ان کے تحقیقی مزاج اور علمی تبحر کا پتا دیتے ہیں بطور خاص مجلس شرعی کے فیصلے جلد اول ، جلد دوم، صحیفہ مجلس شرعی جلد دوم، جدید مسائل پر علما کی رائیں اور فیصلے (تین جلدیں) پر آپ نے جو مقدمے لکھے وہ مستقل ایک علمی وتحقیقی رسالے کی حیثیت رکھتے ہیں اور فقہ وافتا کے قدیم وجدید سلسلوں کی تفہیم میں ایک محقق کے لیے ان مقدموں سے مدد نہ لینا تحقیق وتفتیش میں تشنگی کا احساس دلائے گا۔
زیر نظر کتاب ’’احادیث صحیحین سے غیر مقلدین کا انحراف‘‘ پندرہویں صدی کا ایک اہم علمی اور تاریخی کارنامہ ہے جو حضرت سراج الفقہا کے قلم حقیقت نگار سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے علم وتحقیق کے ہفت اقلیم اس طرح سر کیے ہیں جس سے پیش رَو فقہاے محققین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
اس کتاب کا سببِ تصنیف حضرت مصنف دام ظلہ العالی نے اپنے مقدمے میں بیان کر دیا ہے۔ اس لیے اس پر کچھ لب کشائی سے گریز کرتے ہوئے کتاب کے تعارف کی جانب قلم کا رخ موڑتے ہیں۔
یہ کتاب موجودہ عہد کی ایک ایسی علمی ودینی ضرورت ہے کہ اگر اس کا احساس جامعہ اشرفیہ کے ارباب حل وعقد نے نہ کیا ہوتا تو شریعت مخالف اور احادیث نبویہ سے متصادم فکر وخیال کے پرچارک غیر مقلّدوں کو مطمئن کرنا کافی مشکل ہوتا۔یہ لوگ دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ صحیحین (بخاری ومسلم) پر صرف وہی عمل کر تے ہیں۔ یہ گروہ جب کوئی عقیدہ یا مسئلہ عوام یا علما کے سامنے پیش کرتا ہے تو بخاری ومسلم کا نام لیتا ہے اگرچہ وہ مسئلہ یا عقیدہ سراسر بخاری ومسلم کی مسلم الثبوت احادیث کے خلاف ہو۔ وہ اہل سنت کے عوام اور علما سے بار بار حدیث صحیح کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط بھی کہ وہ حدیث صحیح بخاری ومسلم کی ہونی چاہیے۔
اس لیے ضرورت پیش آئی کہ اہل سنت کے عقائد ومعمولات کی تصدیق وتصویب اور غیر مقلدین کی تغلیط وتردید کے لیے احادیث صحیحین کا ایک ایسا انتخاب پیش کیا جائے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ فاضل مصنف حضرت سراج الفقہا اپنے اس حسن انتخاب میں کامیاب بھی ہیں اور سرخ رو بھی۔ اس میں انتخاب احادیث کے لیے تین طرح کے مسائل کو رکھا گیا ہے:
(۱) عقائد (۲) فروعی عقائد (۳) فروعی مسائل
ان تینوں زمروں میں بتیس (۳۲) مسائل کو احادیث صحیحہ کی روشنی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ان پر محققانہ انداز میں گفتگو بھی کی گئی ہے۔ حضرت سراج الفقہا نے اس کتاب میں علمی استدلال اور فقہی استنباط کے وہ جواہر غالیہ پیش کیے ہیں جن کا دیدار بھی نگاہوں کو خیرہ کردیتا اور دلوں کو طمانیت کے نور سے بھر دیتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر حضرت سراج الفقہا کے خصوصی استدلال کی ایک جھلک دکھا دی جائے۔
دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں کل ۳؍ ابواب ہیں۔ پہلا باب ’’عقائد کے بیان میں‘‘ ہے اس کا پہلا مسئلہ ہے: ’’امتناع کذب باری کا عقیدہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امتناع کذب باری کے دلائل عموماً عقلی ہیں۔ حضرت سراج الفقہا نے اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں منقح فرمایا ہے۔ پہلے چند سطری تمہید میں یہ بتایا ہے کہ امت مسلمہ کا اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جھوٹ محال (ناممکن) ہے۔ پھر وہابیہ کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کذب باری کے امکان کا قول کرتے ہیں اور ان کی دلیل بھی مذکور ہے، پھر اس پر مختصر تبصرہ اور اہل سنت کے دلائل عقلیہ ونقلیہ کا تفصیلی ذکر ہے۔
دلائل کی ترتیب یوں ہے:
(۱) تنزیہہ باری کا ثبوت عقلی حیثیت سے:
اس عنوان کے تحت دو ثبوت عقلی اور امتناع کذب باری پر علماے اہل سنت کی تصریحات کے ذکر میں امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز کے ایک رسالہ ’’دامانِ باغ سبحان السبوح‘‘ کے چند ضروری اقتباسات پیش کیے ہیں جن میں امام احمد رضا قادری نے سات طرح سے کذب باری کے محال ہونے کی تفہیم کی ہے اور مثالوں سے چشم کشا وضاحتیں کی ہیں۔ اس مقام پر حضرت سراج الفقہا کی یہ تین سطریں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں:
’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’’یہ اہل حدیث‘‘ صحیح بخاری و صحیح مسلم سے امکانِ کذبِ باری کے ثبوت میں کم از کم دو چار احادیثِ نبویہ ایسی پیش کرتے جو احتمالِ تاویل سے محفوظ اور مُحکم ہوتیں، کچھ دوسری صِحاحِ ستّہ وغیرہ (کی احادیث)سے بھی استناد کر سکتے تھے کہ ہم اہل سنت کے خلاف استدلال کے لیے یہ بھی کافی ہے، مگر ایسا نہ کر سکے۔‘‘ (ص:۶۱)
(۲) تنزیہ باری کا ثبوت کتاب اللہ سے:
اس میں کل چار نوع کے ثبوتی حقائق کی جلوہ گری ہے۔ پہلا ثبوت: اللہ سے زیادہ کوئی سچا نہیں، دوسرا ثبوت: کلام باری انتہاے درجات صدق پر ہے، تیسرا ثبوت: تسبیح باری کے تعلق سے آیات واحادیث اور چوتھا ثبوت: اللہ کے جیسی کوئی چیز نہ ہونے کا اعلان۔
حضرت سراج الفقہا نے ان چاروں انواع کو قرآنی آیات، احادیث نبویہ، کتب لغات اور عقلی شواہد سے اتنا روشن کر دیا ہے کہ چشم بینا دیکھتی رہ جائے اور گوش شنوا سنتا رہ جائے۔ بطور خاص تسبیح اور سبحان کی تحقیق اور امتناع کذب باری پر اس کا انطباق مصنف کے اخَّاذ ذہن اور عالمانہ تحقیق کا ناقابل فراموش حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
(۳) تنزیہہ باری کا ثبوت احادیث نبویہ سے:
یہاں سراج الفقہا نے ۲۳ ؍ احادیث نبویہ مع تقریر استدلال وقابل قدر افادہ درج فرمائی ہیں اور مسئلہ مذکور کا ہر گوشہ منور کر دیا ہے۔
(۴) تنزیہ باری کا ثبوت اجماع مسلمین سے:
اس طرح کتاب وسنت، دلائل عقلیہ اور اجماع مسلمین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے لیے کذب بھی محال ذاتی ہے اور امکان کذب بھی۔
یہ پوری بحث چالیس صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے ہر صفحے پر حضرت سراج الفقہا ایک خاص فقیہانہ، محققانہ اور عالمانہ شان کے ساتھ موجود ہیں۔
امتناع کذب باری کا مسئلہ باب الٰہیات کا ہے، باب نبوت میں ختم نبوت ، امتناع نظیر، تعظیم رسول ﷺ ، بارگاہ الٰہی میں رسول اللہ ﷺ اور مومنین کی عزت، شفاعت، علم غیب رسول، عقیدہ حاضر وناظر، توسل وندا، تصرفات انبیا، شارع اسلام کے تشریعی اختیارات وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جن پر الگ الگ مباحث ہیں اور دلائل عقلیہ ونقلیہ کی رنگارنگی میں عقائد اہل سنت کا چہرہ آفتاب نیم روز کی طرح چمک رہا ہے اور باطل عقائد ونظریات کی روسیاہی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور غیر مقلدین کا پانی کے بلبلوں کی طرح بنا ہوا شیش محل لمحہ لمحہ پانی میں تحلیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
غیر مقلدین اجماع امت اور قیاس شرعی کو بھی نہیں مانتے، حالاں کہ یہ دونوں مسائل شرعیہ کا اہم ماخذ ہیں، اس لیے حضرت سراج الفقہا نے باب اول کے سولہویں اور ستر ہویں مسئلے میں اجماع امت اور قیاس پر علمی اور تحقیقی بحث کی ہے اور کتاب وسنت کی روشنی میں حقیقت نگاری کا بھر پور ثبوت پیش کیا ہے۔ ان دونوں مسئلوں کے بیان میں دلائل وشواہد کا ذکر پہلے اور فرقہ وہابیہ کا اس کے برخلاف موقف بعد میں رکھا ہے۔
’’اجماع امت خطا سے پاک اور حجت شرعی ہے‘‘، اس موقف پر اہل سنت کی پانچ دلیلوں کا ذکر ہے اور احادیث اجماع کو پانچ انواع میں تقسیم کیا گیا ہے، پھر لکھا ہے کہ احادیث متواترہ کے مقابل فرقہ وہابیہ کا موقف یہ ہے ۔ اخیر میں ’’ آگاہی‘‘ کے ذیلی عنوان سے مصنف کتاب لکھتے ہیں:
’’ہم یہاں اپنے برادران دینی کی آگاہی کے لیے یہ وضاحت بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ اجماع کی حُجیت پر تمام اہل قبلہ کا اتفاق عہد سلف میں ہی ہو چکا ہے ، اس لیے اس کے بعد کے زمانے میں کبھی کوئی اس کی مخالفت کرے تو اس کا اعتبار نہ ہوگا کہ یہ خرقِ اجماع ہے جو شرعًا بہت معیوب اور ناقابل اِعتنا ہے۔‘‘(ص: ۴۸۸)
فقہ کی چوتھی دلیل ’’قیاس شرعی‘‘ ہے ۔ اس لیے احادیث نبویہ کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ قیاس در اصل کتاب اللہ یا سنت اللہ یا اجماع سے ماخوذ ہوتا ہے اس لیے یہ کتاب وسنت واجماع کے احکام کا مظہر اور فقہ کی دلیل رابع ہے۔
سترہ (۱۷) مسائل کی تحقیق وتنقیح سے متعلق مباحث پر جلد اول مکمل ہوجاتی ہے۔
جلد دوم باب دوم: فروعی عقائد کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔ فروعی عقائد میں احادیث نبویہ کی روشنی میں بدعت اور کتاب وسنت کے اجالے میں محفل میلاد النبی ﷺ اور صلاۃ وسلام بہ حالت قیام تین مسائل پر دلائل وشواہد کی روشنی میں تفصیلی محققانہ گفتگو کی گئی ہے۔ مباحث میں تقریب استدلال بھی ہے اور جرح ونقد بھی، احقاق حق بھی اور ابطال باطل بھی، فاضل مصنف کی عالمانہ ژرف نگاہی اور ناقدانہ نکتہ رسی کے جلوے قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔ اس جلد میں بھی حضرت سراج الفقہا نے ایک بسیط مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ تابش اول اور تابش دوم علی الترتیب ’’فقہی مذاہب پر فہم احادیث اور خیر القرون ومابعد کے رُواۃ کا اثر واقعات اور احادیث کے اجالے میں ‘‘ اور ’’اجتہادی مسائل میں اہل سنت کا موقف احادیث نبویہ کی روشنی میں‘‘ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سراج الفقہا علم حدیث ، اصول حدیث، تاریخ تدوین حدیث، اسماء الرجال، نقد حدیث، جرح وتعدیل اور محدثین وائمہ کرام کے نقطہ ہاے نظر پر عالمانہ دست رس رکھتے ہیں اور ایک فقیہ متبحر کے لیے
علوم حدیث کا علم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس مقدمے کو دیکھ کر یہ بھی یقین ہو جاتا ہے کہ آپ نے فقیہ اسلام امام احمد رضا قادری کی تحقیقات وفتاویٰ اور کتب ورسائل کو فقیہانہ ، ناقدانہ، عارفانہ اور محدثانہ بصیرت افروز نگاہ سے پڑھا ہے اور اس بحر بے کراں سے بیش قیمت موتی چنے ہیں۔
تیسرا باب فروعی مسائل کے بیان سے سجا ہوا ہے اس میں کل بارہ مسائل پر داد تحقیق دی گئی ہے جو ترتیب وار اس طرح ہیں:
(۱) وضو میں نیت فرض ہے یا سنت، احادیث نبویہ کی روشنی میں
(۲) نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، احادیث نبویہ سے ثبوت
(۳) صبح روشن میں نماز پڑھنے کا استحباب
(۴) سایہ ایک مثل ہونے پر بھی وقت ظہر باقی رہتا ہے
(۵) سفر میں جمع بین الصلاتین
(۶) نماز میں رفع یدین جائز ، غیر مستحب ہے
(۷) پست آواز سے آمین کہنا افضل ہے یا بلند آواز سے؟
(۸) مقتدی امام کے پیچھے قراءت نہ کرے
(۹) استخارہ ، احادیث نبویہ کی روشنی میں
(۱۰) بالغ کو دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ہوگی، یا نہیں؟ احادیث نبویہ سے شافی بیان
(۱۱) ایک نشست میں تین طلاق-تین یا ایک؟
(۱۲) حلالہ، حلال یا حرام؟ کتاب وسنت سے شافی جواب
مذکورہ بارہ مسائل پر گفتگو سے قبل حضرت سراج الفقہا نے ایک صفحے میں چند مقدماتی حقائق سپرد قلم کیے ہیں۔
’’یاد رکھیں! چاروں مذاہب کی بنیاد کتاب اللہ وسنت رسول اللہ پر ہے اور سب کا مقصد اتباعِ سنتِ رسول ہے۔ عامۂ امت مسلمہ نے اجتہادی مسائل میں ان ائمۂ کرام کی پیروی کی ہے اور تقلید ائمہ کی راہ سے کتاب وسنت کا اتباع کیا ہے۔ لیکن ان مذاہب حقہ کے چند فقہی فروعی مسائل ایسے ہیں جن میں ان بزرگوں کے درمیان اجتہادی اختلاف ہے، ان میں سے بعض مذاہب کو وہابیہ غیر مقلدین نے اختیار کر لیا ہے اور باور کرایا ہے کہ ان کی بنیاد مضبوط اور مستحکم حدیثوں پر ہے۔‘‘
حضرت سراج الفقہا نے بیان مذاہب میں ان ائمہ کرام کے فقہی واجتہادی نقطہ ہاے نظر کا ذکر کیا اور ان کے دلائل بھی پیش کیے ہیں اور پھر حنفی مذہب کی حقانیت پر مستقل شواہد درج کیے ہیں۔ ساتھ ہی ان مدعیان احادیث کو بھی آئینہ دکھایا جو تقلید ائمہ سے بیزار اور ائمۂ مجتہدین کی بارگاہ کے ادب سے آزاد ہیں۔ حضرت سراج الفقہا ان مقامات پر ایک بالغ نظر فقیہ، مایہ ناز محقق، نکتہ رس عالم ومصنف اور زبر دست قوت استدلال کے مالک دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت سراج الفقہا نے ماضی قریب وبعید کے فقہا ومحققین اور ناقدین کے عالمانہ وناقدانہ نکات آفریں مباحث سے خوشہ چینی کی ہے اور متعدد مقامات پر خود اپنے خصوصی استدلال کی جھلک بھی نمایاں کی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر دسویں فرعی مسئلے میں رضاعت کا بیان ہے، رضاعت کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ دو سال یا اس سے کم عمر کا بچہ کسی اجنبی عورت کا دودھ پی لے تو وہ نسبی اولاد کی طرح دودھ پلانے والی عورت پر حرام ہو جاتا ہے۔ یہ اس کا رضاعی بیٹا اور وہ اس کی رضاعی ماں ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے میں امام اعظم ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ رضاعت ڈھائی سال کی عمر تک دودھ پینے سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ یعنی صغیر کی مدتِ رضاعت میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے لیکن بڑا لڑکا یا لڑکی اگر کسی عورت کا دودھ پیے تو سارے ائمہ کا اتفاق ہے کہ اس سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن وہابیہ غیر مقلدین کا مذہب ان سب کے برخلاف ہے ان کے یہاں کبیر کو بھی دودھ پلانا جائز ہے اور بالغ کو دودھ پلانے سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ حضرت سراج الفقہا نے اس مسئلے پر فقہاے امت کے قرآنی وحدیثی دلائل ذکر کیے ہیں۔ چوتھے نمبر پر حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ایک حدیث پاک پیش کی ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: فإنما الرضاعۃ من المجاعۃ (رضاعت تو دودھ کی سخت بھوک پر ہی ہوتی ہے۔) اس حدیثِ نبوی سے حضرت سراج الفقہا نے جو خصوصی استدلال کیا ہے وہ انھی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ ایک شرعی ضابطہ مقرر فرما دیا ہے:
إنّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ. یہاں المَجَاعَۃ سے مراد مجاعۃُ اللبن ہے۔ اس کا قرینہ الرَّضاعۃ کا لفظ ہے کہ رضاعت طعام کی نہیں لَبن کی ہوتی ہے اور دودھ کی سخت بھوک اور تڑپ کم سن بچوں کو ہوتی ہے، بڑوں کو نہیں۔ تو اس حدیث پاک کا حاصل یہ ہوا کہ کم سنی میں دودھ پینے سے ہی رشتۂ رضاعت ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے غور کر لو کہ اس شخص نے کم سنی میں تمھاری ماں کا دودھ پیا ہے جب بچے کو دودھ کی سخت بھوک اور تڑپ ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے روتا ہے، یا یہ عمر گزرنے کے بعد دودھ پیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عمر زیادہ ہونے کے بعد بھوک اور تڑپ کھانے کی ہوتی ہے اور دودھ کا صرف شوق رہ جاتا ہے ۔
کلمۂ إنّما بالاتفاق حصر کے لیے ہوتا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے کلمۂ حصر کے ساتھ ضابطہ بیان کرکے رہنمائی فرمائی ہے کہ رضاعت کا یہ رشتہ صرف صغیر کے دودھ پینے سے ہی ثابت ہوتا ہے، کبیر کے دودھ پینے سے اس کا ثبوت نہیں ہوتا۔‘‘(ص: ۱۸۷)
مدت رضاعت سے متعلق تین آیات قرآنیہ اور چھ احادیث نبویہ ذکر کرنے کے بعد حضرت سراج الفقہا نے ایک حدیث پیش کی ہے جس میں یہ ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے حضرت سہلہ بنت سہیل کو ایک جوان شخص سالم کو دودھ پلانے کی اجازت دی تھی۔ فاضل محقق دام ظلہ العالی نے متعدد شواہد کے اجالے میں اس حدیث کے دو جواب دیے ہیں:
اول یہ کہ یہ حکم حضرت سہلہ اور سالم کے لیے خاص ہے اور یہ حضور سید عالم ﷺ کے تشریعی اختیارات کا حصہ ہے، دوم یہ کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔
حلالہ، حلال یا حرام؟ یہ کتاب کا اکتیسواں مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر بھی وہابیہ غیر مقلدین کافی شور وغوغا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حلالہ بالکل خلاف شرع اور ناجائز وحرام ہے۔ اس لیے حضرت مصنف نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور اس کے ہر گوشے پر محققانہ کلام کیا ہے۔ سب سے پہلے حلالہ کی جائز وناجائز چھ صورتیں ذکر کی ہیں ۔ ان میں چار صورتیں ناجائز اور دو صورتیں جائز ہیں۔ پوری بحث کتاب میں پڑھیں۔ یہاں ذکر یہ کرنا ہے کہ حلالہ کی جو چھٹی جوازی صورت ہے اسے غیر مقلدین نے نزاعی بنادیا ہے۔ جس میں یہ ہے کہ عورت سے نکاح حلالہ کے لیے کیا، مگر نہ حلالہ کی شرط رکھی نہ معاوضہ کی، نہ مقررہ وقت کی اور نہ ہی وہ حلالہ کا خواہاں ہے۔ یہ صورت ہم اہل حق کے نزدیک جائز ہے اور وہابیہ غیر مقلدین اسے ناجائز بتاتے ہیں۔ یہ نکاح بھی صحیح ہے اور دل میں جو ایک مقصد پوشیدہ ہے وہ بھی حدیث پاک کی روشنی میں جائز ہے۔
حضرت سراج الفقہا نے اس کے بعد تنقیح مبحث پیش کی ہے اور پھر نکاح حلالہ کے جواز کے دلائل دیے ہیں۔ یہ پوری بحث مصنف دام ظلہ کے فقہی جلال وجمال کا دل کش عکس پیش کرتی ہے اور اس سے ان کی تحقیق انیق کا کامل ثبوت بھی فراہم ہوتا ہے۔
وہابیہ اہل حدیث نے اپنے موقف پر جو بنیادی حدیث پیش کی ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی یہ حدیث : ’’لعن رسول اللہ ﷺ المحلِّلَ والمحلَّلَ لہ‘‘ ہے۔
(اللہ کے رسول ﷺ نے حلالہ کرانے والے پر بھی لعنت فرمائی اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر بھی۔)
حضرت سراج الفقہا نے اس حدیث کا تشفی بخش مفہوم پیش کیا ہے کہ حدیث کا یہ حکم خاص محلّل پر ہے، مطلق محلل پر نہیں۔ اس مسئلے پر فقہ کی امہات الکتب سے متعدد جزئیات درج کیے ہیں اور کئی مثالوں سے اپنا موقف مؤثق فرمایا ہے۔ ساتھ ہی یہاں تدبر حدیث کا جو شان دار نمونہ نظر آتا ہے اس سے حضرت سراج الفقہا کی حدیث فہمی کا جوہر نمایاں ہوتا ہے اور مراد رسول ﷺ تک رسائی کا سبق ازبر کراجاتا ہے۔
یہ پوری بحث چوبیس صفحات پر مشتمل ہے اور مستقل رسالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ورنہ اس پوری بحث کی تلخیص اور فاضل مصنف کا استدلالی رنگ پیش کیا جاتا۔ لیکن قارئیں ان بحثوں سے بالکل دور نہیں، آگے بڑھیں اور فقہ وحدیث کے سمندر میں اتر کر بیش بہا موتیاں نکال کر سنجیدہ علمی دنیا کے روبرو حقیقت پیش کرنے والے فقیہ ومحقق کا قلم چوم لیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضرت سراج الفقہا دام ظلہ العالی کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کے علم وفن کی روشنیاں مزید عام وتام کرے۔ آمین بجاہ النبی الکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم۔
نفیس احمد مصباحی
جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ
۱۱؍ شعبان المعظم ۱۴۴۲ھ/ ۲۵؍ مارچ ۲۰۲۱ء