الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ هُمۡ كٰفِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
جو زکوٰۃ (خیرات) ادا نہیں کرتے اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں
زکوٰۃ نہ دینے پر مشرکین کی مذمت کی توجیہ
حٰم ٓ السجدۃ ٧۔ ٦ میں فرمایا : ” اور مشرکین کے لیے ہلاکت ہے جو زکوٰۃ (خیرات) ادا نہیں کرتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں “
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ سورة حٰم ٓ السجدۃ مکی ہے اور زکوٰۃ مدینہ منورہ میں دو ہجری کو فرض ہوئی تھی، پھر اس سورت میں جو مشرکین کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اس کی کیا توجیہ ہے ؟ اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) مجاہد اور ربیع نے کہا : اس آیت میں زکوٰۃ کا معروف اور اصطلاحی معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد تزکیہ نفس ہے یعنی وہ اپنے اعمال کا تزکیہ نہیں کرتے اور ایمان لاکر اپنے اعمال کو پاک اور صاف نہیں کرتے۔
(٢) حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ لا الہ الا اللہ نہیں کہتے، یعنی اپنے نفسوں کو شرک سے پاک نہیں کرتے۔
(٣) اس آیت میں زکوٰۃ سیمراد نفلی صدقات ہیں یعنی وہ صدقات اور خیرات نہیں کرتے۔
(٤) ہرچند کو تفصیل کے ساتھ زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی ہے لیکن اجمالاً زکوٰۃ مکہ مکرمہ میں فرض ہوگئی تھی، جس طرح آغاز اسلام میں نماز فرض ہوگئی تھی اسی طرح اجمالاً زکوٰۃ بھی ابتداء اسلام میں فرض ہوگئی تھی، ابتداء میں زکوٰۃ کا لفظ صرف خیرات کا مترادف تھا، اس کی مقدار نصاب، سال گزرنے کی قید اور شرح زکوٰۃ کی تفصیلات مدینہ میں فرض کی گئیں۔ سورة مزمل ابتدائی سورت ہے، اس میں ہے :
واقیموالصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ۔ (المزمل : 20) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔
آیا کفار فروع کے مخاطب ہیں یا نہیں ؟
شوافع کا مؤقف یہ ہے کہ کافر اور مشرک جس طرح ایمان لانے کے مکلف ہیں اسی طرح وہ احکام شرعیہ پر عمل کرنے کے بھی کلف ہیں اور احناف کا مشہور مذہب اس کے خلاف ہے، اس آیت میں چونکہ مشرکین کی اس بات پر مذمت کی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین زکوٰۃ ادا کرنے کے بھی مکلف ہیں اور یہی شافعہ کا مذہب ہے۔
امام فخرالدین محمد بن عمررازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ فرماتے ہیں :
ہمارے اصحاب نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار بھی فروع اسلام کے مکلف ہیں، وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرکین کے لیے ہلاکت ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور یہ وعید شدید ان کے شرک کی بناء پر بھی ہے اور ان کے زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٤٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
فقہاء احناف اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں :
کفار اس چیز کے مخاطب ہیں کہ وہ زکوٰۃ اور نماز کی فرضیت کا اعتقاد رکھیں نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے اور نماز پڑھنے کے مخاطب ہیں۔
اور بعض فقہاء احناف نے یہ کہا ہے کہ وہ اس چیز کے مکلف ہیں کہ ایمان لانے کے بعد نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کریں جیسے مسلمان نماز پڑھنے کے حکم کے مخاطب ہیں کہ وہ وضو کرنے کے بعد نماز پڑھیں۔
اس آیت میں مشرکین کے تین جرائم کی وجہ سے ان کو عذاب کی وعید سنائی ہے، ایک جرم ان کا شرک ہے، دوسرا جرم یہ ہے کہ وہ خیرات اور صدقات نہیں دیتے تھے اور تیسرا جرم یہ ہے کہ وہ آخرت کا انکار کرتے تھے۔
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 7