أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر مستقیم رہے، ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں کہ تم نہ خوف کرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

بے شک جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر مستقیم رہے، ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں کہ تم نہ خوف کرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کرو (یہ) بہت بخشنے والے، بےحد رحم فرمانے والے کی طرف سے مہمانی ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 30-32)

استقامت کا لغوی اور شرعی معنی

قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ وہ دو ضدوں کا ساتھ ساتھ ذکر فرماتا ہے، کیونکہ ایک ضد کے ذکر سے دوسری ضد پہچانی جاتی ہے اور خوب واضح ہوجاتی ہے، اس سے پہلی آیتوں میں کفار کی وعید کا ذکر تھا اور اس آیت میں مسلمانوں سے وعد کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کی تحسین فرمائی ہے جنہوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر مستقیم رہے، یعنی اس عقیدہ پر مضبوطی سے قائم رہے، جمے رہے اور ڈٹے رہے۔

مستقیم اس راستہ کو کہتے ہیں جو افراط اور تفریط کے درمیان متوسط ہو، مستقیم عقیدہ وہ ہے کہ نہ تو دہریوں کی طرح خدا کا انکار کیا جائے اور نہ مشرکین کی طرح متعدد خدا مانے جائیں، بلکہ کہا جائے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہی ہے، نہ قدریہ کی طرح یہ کہا جائے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے اور نہ جبریہ کی طرح کہا جائے کہ انسان مجبور محض ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے افعال کا خالق ہے اور انسان کا سب ہے اور نہ برہمنوں کی طرح نبوت کا انکار کیا جائے اور نہ مرزائیہ کی طرح نبوت کو قیامت تک کے لیے جاری رکھا جائے، بلکہ یہ کہا جائے کہ نبی کا آنا ضروری ہے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ ضرورت ختم ہوگئی اور نہ رافضہ کی طرح صحابہ کی مذمت کی جائے اور نہ صبیہ کی طرح اہل بیت کو بُرا کہا جائے، بلکہ صحابہ اور اہل بیت دونوں کی تکریم کی جائے۔ وعلی ھذا القیاس

اور استقامت کا معنی ہے : انسان کا صراط مستقیم کو لازم رکھنا اور ہرحال میں اس پر جمے اور ڈٹے رہنا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استقامت کی تفسیر

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا “ (فصلت :30) پھر آپ نے فرمایا : لوگوں نے یہ کہا : یعنی ہمارا رب اللہ ہے، پھر ان میں سے اکثر کافر ہوگئے، پس جو شخص اسی قول پر ڈٹا رہا حتیٰ کہ مرگیا، وہ ان لوگوں میں سے ہے جو اس قول پر مستقیم رہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٠، الکامل لابن عدی ج ٣ ص ١٢٨٨، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٥١١)

حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتائیے کہ آپ کے بعد کسی اور سے سوال نہ کروں، آپ نے فرمایا : تم کہو : میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر مستقیم رہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٧٢، مسند احمد ج ٣ ص ٤١٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٤ ص ١٤١، مؤسسۃ الرسالۃ، ١٤١٩ ھ، شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٩٢٢ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم کہو : میں اللہ پر ایمان لایا، اس کا معنی ہے کہ تم زبان سے اللہ کی توحید کا اقرار کرو اور اپنے باقی اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرو اور فرمایا : پھر اس پر مستقیم رہو یعنی تادم مرگ توحید پر قائم رہو اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے رہو۔ نیز آپ کا یہ ارشاد تمام احکام شرعیہ کا جامع ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرتے رہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرتے رہو جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے کسی ایک حکم پر بھی عمل نہیں کیا یا کسی ایک بھی ممنوعہ کام سے باز نہیں رہا تو وہ صراط مستقیم سے منحرف ہوگیا، پس جس نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے تو اس کے رب ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کی رضا جوئی میں لگا رہا اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے۔ علامہ ابوالعباس احمد بن عمر القرطبی المتوفی ٦٥٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں سائل کے لیے اسلام اور ایمان کے تمام معانی جممع کردیئے ہیں، آپ نے سائل کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے، اپنے دل سے اللہ کی توحید کی تصدیق کرے اور زبان سے اس کا ذکر کرے اور اس کو یہ حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی اطاعت پر مستقیم رہے اور ہر قسم کی نافرمانی اور حکم عدولی سے باز رہے کیونکہ اس وقت تک کسی چیز پر استقامت حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی مخالف چیزوں سے رکا نہ جائے اور آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید کی اس آیت سے مستنبط ہے : ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا “ (حٰم السجدۃ :30) یعنی اللہ پر ایمان لائو اور اس کو واحد مانو تھر تادم مرگ اس عقیدہ پر اور اس کے احکام کی اطاعت پر جمے رہو جیسا کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے فرمایا : اللہ کی اطاعت پر مستقیم رہو اور لومڑی کی طرح فریب دہی کرتے ہوئے جادو استقامت سے منحرف نہ ہو، یعنی اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرتے رہو، اس کی توحید کا اقرار کرتے رہو اور اپنے اعضاء سے دائماً اس کی بندگی کرتے رہو۔ (المفہم ج ١ ص ٢٢٢۔ ٢٢١، دارابن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورة ہود میں فرمایا :

فاستقم کما امرت۔ (ھود :112) سو آپ اسی طرح مستقیم رہیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ! آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، آپ نے فرمایا : مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا۔ (المعجم الکبیر ج ١٧ ص ٢٨٧۔ ٢٨٦، رقم الحدیث : ٧٩٠، دلائل النبوۃ ج ١ ص ٣٥٨، شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٤٢ )

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

تمام قرآن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس سے زیادہ سخت اور دشوار آیت اور کوئی نازل نہیں ہوئی، اسی لیے جب آت کے اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ آپ پر بڑھاپا بہت جلد طاری ہورہا ہے تو آپ نے فرمایا، مجھے سورة ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے بوڑھا کردیا۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ٢ ص ٦٠٢، مکتبہ نزار مصطفی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاض (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم مستقیم رہو اور تم مکمل استقامت سے ہرگز حاصل نہیں کرسکوں گے اور یاد رکھو تمہارے اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے اور صرف مومن (کامل) ہی دائما باوضو رہ سکتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٨۔ ٢٧٧، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٦، مسند احمد ج ٥ ص ٢٨٢۔ ٢٧٦، سنن دارمی رقم الحدیث : ٦٦١، المعجم الصغیر ج ٢ ص ٨٨، المستدرک ج ١ ص ١٣٠، السنن الکبری، للبیہقی ج ١ ص ٤٥٧، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمروبن العاص رقم الحدیث : ٧١٩)

صحابہ ٔ کرام اور فقہاء تابعین سے استقامت کی تفسیر

حضرت ابوبکر (رض) نے یہ آیت پڑھی : ” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقامو “ (حٰم ٓ السجدۃ 30) اور کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہیں کرتے۔ ایک اور روایت میں ہے : نہ کوئی اور معصیت کرتے ہیں۔ (جامع البیان جز ٢٤ ص ١٤٣، رقم الحدیث : ٢٣٥٥٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے اس آیت کی منبر پر تلاوت کی اور کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مستقیم رہوے اور لومڑی کی طرح فریب دہی سے صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہیں نکلے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٥٥٨ )

حسن بصر ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت کا تقاضا ہے کہ تم فرائض کی ادائیگی پر مستقیم رہو۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٥٦٠ )

ابو العالیہ نے کہا : دین میں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے پر تادم مرگ مستقیم رہو۔

ایک قول ہے : جس طرح تم اپنے اقوال میں مستقیم ہو اسی طرح اپنے اعمال میں بھی مستقیم رہو۔

ایک اور قول ہے : جس طرح تم جلوت میں مستقیم ہو اسی طرح خلوت میں بھی مستقیم رہو۔

فضیل بن عیاض نے کہا : دنیا سے بےرغبتی کرو اور آخرت میں رغبت کرو۔

نیز ایک قول یہ ہے کہ اطاعت کے تمام افعال کے ساتھ ساتھ تمام گناہوں سے بھی مجتنب رہو، کیونکہ انسان ثواب کی رغربت میں اطاعت کرتا ہے اور عذاب کے خوف سے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے۔ ربیع نے کہا : ماسوی اللہ سے اعرض کرو۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٨٠۔ ١٧٩، الجامع لاحکام القرآن ج ١٥ ص ٣٢٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

استقامت کے حصول کا دشوار ہونا

دونقطوں کو ملانے والے سب سے چھوٹے خط کو لغت میں صراط مستقیم کہتے ہیں اور شریعت میں صراط مستقیم سے مراد وہ عقائد ہیں جو سعادت دارین تک پہنچاتے ہیں، یعنی وہ دین اسلام جس کو دے کر تمام انبیاء اور رسل کو مبعوث کیا گیا اور ان تمام کی نبوات اور رسالات کو حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت پر ختم کردیا گیا، جس دین سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح معرفت ہو اور تمام احکام شرعیہ کا علم ہو وہ صراط مستقیم ہے۔ یہ صراط مستقیم کا خاص معنی ہے اور اس کا عام معنی یہ ہے : تمام اخلاق، اعمال اور امور میں افراط اور تفریط کے درمیان متوسط طریقہ۔

خواص مسلمین کے نزدیک صراط مستقیم کا معنی یہ ہے :

کفر، فسق، جہل، بدعت اور ہوائے نفسانیہ کے جہنم کی پشت پر علم، عمل، خلق اور حال کے اعتبار سے شریعت پر استقامت کا پل۔

اس معنی میں صراط مستقیم سے ذہن آخرت کے پل صراط کی طرح متوجہ ہوتا ہے، پل صراط کے متعلق احادیث میں ہے کہ وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے اور شریعت پر استقامت بھی بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں عام طور پر دیور اور بھا بھی میں پردہ نہیں ہوتا، حالانکہ شریعت میں ان کے درمیان پردہ کی سخت تاکید ہے، سرکاری ملازمتیں رشوت، سود اور بےایمانی کی آمدنی کے بغیر ممکن نہیں، یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم مخلوط طریقہ تعلیم کے بغیر ناگزیر ہے، دکاندار اور ٹھیلے والے پولیس کو بھتہ دیئے بغیر اپنا کاروبار نہیں چلا سکتے۔ نجی اداروں اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا مخلوط اسٹاف ہوتا ہے، استقبالیہ اور معلوماتی کا ئونٹر پر بےپردہ خواتین سے گفتگو کرنی پڑتی ہے، سرکاری ٹینڈرز پر کوئی ٹھیکہ رشوت کے بغیر منظور نہیں ہوسکتا، پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں کوئی شخص رشوت میں ملوث ہوئے بغیر ملازمت نہیں کرسکتا، غرضیکہ پورا معاشرہ شریعت کے خلاف ورزیوں اور اخلاقی پشتیوں میں ڈوبا ہوا ہے، ایسے معاشرہ میں اگر کوئی شخص شریعت پر مستقیم رہنا چاہے تو یہ صراط مستقیم بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے اور جو اس صراط مستقیم پر آسانی سے گزر گیا وہ آخرت کے پل صراط سے بھی آسانی سے گزر جائے گا۔

اور عوام مسلمین کے اعتبار سے صراط مستقیم کا یہ معنی ہے :

اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو ماننا اور اس پر عمل کرنا اور ہر اس کام سے رکنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔

خواص جب اھدنا الصراط السمتقیم کہتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے : اے اللہ ہمیں سیرالی اللہ کے بعد سیر فی اللہ عطا فرما اور ہم پر اپنے جمال اور جلال کی صفات غیر متناہیہ منکشف کردے، اور جب عوام اھدنا الصراط الستقیم کہتے ہیں تو اس کا معنی ہے : اے اللہ ! ہمیں اپنے تمام احکام پر عمل کی توفیق عطا فرما۔

اس کے بعد فرمایا : ” ان پر فرشتے (یہ کہتے ہوئے) نازل ہوتے ہیں کہ تم نہ خوف کرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے “ اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں :

مجاہد اور زید بن اسلم نے کہا : موت کے وقت ان کے اوپر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

ثابت اور مقاتل نے کہا : جب حشر کے میدان میں لے جانے کے لیے ان کو قبروں سے نکالا جائے گا اس وقت ان کے اوپر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

” ان سے کہا جائے گا : تم نہ خوف کرو اور نہ غم کرو “ اس کی تفسیر میں بھی دو قول ہیں :

عکرمہ نے کہا : جو حالات تمہارے آگے پیش آنے ہیں تم ان کا اندیشہ نہ کرو اور جو کچھ تم پیچھے چھوڑ آئے ہو اس کا غم نہ کرو۔

مجاہد نے کہا : تم موت کے متعلق فکر مند نہ ہو اور اپنی اولاد کا غم نہ کرو۔

” اور جنت کی بشارت سنو “ ایک قول یہ ہے کہ جنت کی بشارت تین مواقع پر دی جائے گی : موت کے وقت قبر میں اور حشر میں۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٨٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

عباد صالحین پر اللہ تعالیٰ کے انعامات

میرے ایک محترم فاضل دوست علامہ عبدالمجید تقشبندی (برسٹل، برطانیہ) زید علمہ وحیہ نے مجھے چند رجال صالحین کے تراجم لکھ کر ارسال کیے ہیں جن کو موت کے بعد بشارات دی گئیں یا کسی اور نوع کی عزت اور کرامت عطا کی گئی، قارئین کی علمی ضیافت کے لیے میں ان رجال کا یہاں باحوالہ تعارف پیش کررہا ہوں۔ ان سب کا تذکرہ حافظ جمال الدین یوسف المزی المتوفی ٧٤٢ ھ نے کیا ہے۔

(١) وکیع بن جراع متوفی ١٩٦ ھ

امام احمد بن حنبل ان کے متعلق کہتے تھے کہ میں نے علم، حفظ اور اسناد میں اور خوف خدا میں وکیع کی مثل کوئی شخص نہیں دیکھا۔

دائود بن یحییٰ بن یمان نے بیان کیا کہ مجھے خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت ہوئی، میں نے پوچھا : یارسول اللہ ! ابدال کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جنہوں نے اپنے ہاتھ سے کسی کو ضرب نہیں پہنچائی اور وکیع بھی ابدال میں سے ہے۔

علی بن عثام بیان کرتے ہیں کہ وکیع بن جراح بیمار ہوگئے، ہم ان کے پاس ان کی عیادت کے لیے گئے، وکیع نے کہا کہ سفیان ثوری میرے پاس خواب میں آئے تھے اور انہوں نے مجھے اپنے جوار میں مدفون ہونے کی بشاری دی سو میں ان کی طرف سبقت کرنے والا ہوں۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ١٩ ص ٤٠٤۔ ٤٠٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

(٢) ثابت بن اسلم البنانی المتوفی ١٢٣ ھ

حماد بن سلمہ نے کہا کہ ثابت یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! اگر تو کسی شخص کو قبر میں نماز پڑھنے کی نعمت عطا کرے تو مجھے قبر میں نماز پڑھنے کی نعمت عطا فرمانا، کہا جاتا ہے کہ یہ دعا ان کے حق میں قبول ہوگئی اور ان کی موت کے بعد ان کو قبر میں نماز پڑھتا ہوا دیکھا گیا۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ٣ ص ٢٢٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٤ ھ)

(٣) وہبت بن منبہ بن کامل متوفی ٣٦ ھ

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں جس کا نام وہب ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کو حکمت عطا فرمائے گا۔

المثنیٰ بن صباح نے کہا : وہب بن منہ نے چالیس سال تک کسی کو بُرا نہیں کہا اور انہوں نے بیس سال تک نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان وضو نہیں کیا۔ (تہذیب الکھال فی اسماء الرجال ج ١٩ ص ٤٩٠۔ ٤٨٩ ملخصا)

(٤) یحییٰ بن سعید القطان متوفی ١٢٠ ھ

زبیر بن نعیم بیان کرتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید کو خواب میں دیکھا، انہوں نے جو قمیص پہنی ہوئی تھی اس کے کندھوں کے درمیان لکھا ہوا تھا : بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ اللہ العزیز الحکیم کی طرف سے مکتوب ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان دوزخ کی آگ سے نجات یافتہ ہے۔

عفان بن مدینی بیان کرتے ہیں کہ ایک مدت سے مجھے خواہش تھی کہ میں یحییٰ بن سعید القطان کو خواب میں دیکھوں، وہ کہتے ہیں : ایک دن میں نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر وتر پڑھے، پھر میں تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گیا، پھر خواب میں، میں نے خالد بن الحارث کو دیکھا، میں نے کھڑے ہو کر ان کو سلام کیا اور ان سے معانقہ کیا، پھر میں نے پوچھا : آپ کے ساتھ آپ کے رب نے کیا سلوک کیا ؟ انہوں نے کہا : مجھے میرے رب نے بخش دیا، حالانکہ معاملہ بہت سخت تھا، میں نے کہا : معاذ کہاں ہے ؟ وہ بھی حدیث میں آپ کے ساتھی تھے ؟ انہوں نے کہا : وہ محبوس ہیں، میں نے پوچھا : اور یحییٰ بن سعید القطان کا کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم ان کو اس ترح دیکھتے ہیں جس طرح روشن ستارہ آسمان میں نظر آتا ہے۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ٢٠ ص ١٠٠)

(٥) امام محمد بن ادریس شافعی متوفی ١٥٠ ھ

مزنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی، میں نے آپ سے امام شافعی کے متعلق سوال کیا، آپ نے فرمایا : جو شخص میری محبت اور میری سنت کا ارادہ رکھتا ہو وہ محمد بن ادریس شافعی مجلس کو لازم رکھے کیونکہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

ربیع بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی کی وفات کے بعد ان کو خواب میں دیکھا، میں نے پوچھا : اے ابو عبداللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مجھے سونے کی کرسی پر بٹھایا اور مجھ پر تروتازہ موتی بکھیر دیئے۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ١٦ ص ٥٣ )

(٦) سلیمان بن طرخان تمیمی البصری متوفی ١٤٣ ھ

رقیہ بن مصقلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں رب العزت کی زیارت کی، فرمایا : میں ضرور سلیمان تمیمی کا اکرام کروں گا، اس نے میرے لیے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔

ابراہیم بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ سلیمان تمیمی نے ایک شخص سے عاریۃ پوستین لی اور پہننے کے بعد واپس کردی، اس شخص نے کہا : مجھے اس سے مستقل مشک کی خوشبو آتی رہی۔ (تہذیب الکمال فی السماء الرجال ج ٨ ص ١٧۔ ٧٠)

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

زید بن اسلم اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں جو حالات تمہارے سامنے آنے والے ہیں ان کا اندیشہ نہ کرو اور جن چیزوں کو تم اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو ان کا غم نہ کرو اور اس جنت کی خوشخبری سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، زید بن اسلم نے کہا : یہ خوشخبری تین مواقع پر دی جائے گی، موت کے وقت، قبر میں اور حشر میں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ ص ١٩٩، رقم الحدیث : ٣٥٢٤٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

منہال بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا : ہر نفس پر دنیا سے نکلنا اس وقت تک حرام ہے جب تک کہ اس کو یہ نہ معلوم ہوجائے کہ اس کا ٹھکانا کہاں ہوگا۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ٧ ص ١٩٩، رقم الحدیث : ٣٥٢٤٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 30