حَتّٰٓى اِذَا مَا جَآءُوۡهَا شَهِدَ عَلَيۡهِمۡ سَمۡعُهُمۡ وَاَبۡصَارُهُمۡ وَجُلُوۡدُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
حَتّٰٓى اِذَا مَا جَآءُوۡهَا شَهِدَ عَلَيۡهِمۡ سَمۡعُهُمۡ وَاَبۡصَارُهُمۡ وَجُلُوۡدُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
حتیٰ کہ جب وہ دوزخ کی آگ تک پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے
انسان کے اعضاء کے نطق کے ثبوت میں احادیث
حٰم ٓ السجدۃ : ٢١۔ ٢٠ میں فرمایا ہے : ” حتیٰ کہ جب وہ دوزخ کی آگ تک پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے “۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تم دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں کچھ تنگی محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : جب چودھویں رات کو بادل نہ ہو تو تم چاند کو دیکھنے میں کوئی تنگی محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، تم اپنے رب کو دیکھنے میں صرف اتنے تنگ ہوں گے جتنے سورج یا چاند کو دیکھنے میں تنگ ہوتے ہو، پھر اللہ اپنے بندہ سے ملاقات کرے گا اور اس سے فرمائے گا : اے فلاں شخص ! کیا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی تھی، کیا میں نے تجھ کو سرداری نہیں دی تھی، کیا میں نے تجھ کو بیوی نہیں دی تھی، کیا میں نے گھوڑے اور اونٹ تیرے تابع نہیں کیے تھے اور تجھ کو ریئسانہ ٹھاٹھ باٹھ میں نہیں چھوڑا تھا ؟ وہ شخص کہے گا : کیوں نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھ کو مجھ سے ملاقات کی توقع تھی ؟ وہ بندہ کہے گا : نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں بھی تجھے اس طرح بھلادوں گا : جس طرح آج تو نے مجھے بھلا دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ دوسرے شخص سے ملاقات کرے گا اور اس سے فرمائے گا : کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور کیا میں نے تجھے سرداری نہیں دی تھی اور کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی اور کیا میں نے تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کیے تھے اور کیا میں نے تجھے رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ میں نہیں چھوڑا تھا ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں، اے میرے رب ! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے یہ توقع تھی کہ تو مجھ سے ملاقات کرے گا ؟ وہ کہے گا : نہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : بیشک میں تجھے اسی طرح بھلا دیتا ہوں جس طرح تو نے مجھے بھلا دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ تیسرے بندے سے ملاقات کرے گا اور اس سے بھی اسی طرح کلام فرمائے گا، وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر ایمان لایا اور تیرے رسول پر ایمان لایا اور میں نے نماز پڑھی اور روزہ رکھا اور صدقہ کیا اور جتنی اس کی طاقت ہوگی وہ اتنی حمدوثناء کرے گا، پھر اس بندے سے کہا جائے گا : ہم ابھی تیرے خلاف گواہ بھیجتے ہیں، وہ اپنے دل میں غور و فکر کرے گا کہ میرے خلاف کون گواہی دے گا، پھر اس کے منہ پر مہر لگائی جائے گی اور اس کی ران سے اور اس کے گوشت سے اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا : اب تم کلام کرو، پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بتائیں گی کہ اس نے کیا کام کیے تھے اور یہ اس لیے کہ وہ خود اپنا عذر بیان کرے اور یہ شخص منافق ہوگا اور اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٩٦٨، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٣٠)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوتے تھے آپ ہنسنے لگے، آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ میں کیوں ہنس رہا تھا ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جاننے والا ہے، آپ نے فرمایا : میں بندہ کی اس کے رب کے ساتھ بات چیت پر ہنس رہا تھا، بندہ کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیوں نہیں، بندہ کہے گا : آج میں اپنے خلاف صرف اپنے نفس کی شہادت کی اجازت دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : آج صرف تیری ہی تیرے خلاف شہادت ہوگی اور کراماً کاتبین گواہ ہوں گے، آپ نے فرمایا : پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی، پھر اس کے اعضاء سے کہا جائے گا : اب تم کلام کرو، پھر اس کے اعضاء کے اعمال کو بیان کریں گے، پھر وہ بندہ اپنے اعضاء سے کہے گا : تم دور رہو، میں تمہارے لیے ہی تو جھگڑرہا تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٦٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٣٠، جامع المسانید والسنن مسند انس بن مالک رقم الحدیث : ١٧٣٣)
انسان کے اعضاء کے نطق کی کیفیت میں اقوال مفسرین
انسان کے اعضاء جو اس کے خلاف شہادت دیں گے اس کی تفسیر میں تین قول ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ ان اعضاء میں فہم، قدرت اور نطق پیدا کردے گا اور وہ اس طرح شہادت دیں گے جس طرح انسان کسی ایسے واقعہ کی شہادت دیتا ہے جس کو وہ پہچانتا ہو۔
(٢) اللہ تعالیٰ ان اعضاء میں آوازیں اور حروف پیدا کردے گا جو معانی پر دلالت کرتے ہیں جس طرح اللہ نے درخت میں کلام پیدا کردیا تھا۔
(٣) اللہ تعالیٰ انسان کے اعضاء میں ایسی علامات پیدا کردے گا جو انسان سے ان افعال کی صدور پر دلالت کریں گی۔
مؤخر الذکر دونوں قول ظاہر قرآن کے خلاف ہیں اور ہمارے نزدیک پہلا قول برحق ہے کیونکہ اعضاء سے جو تصرفات ظاہر ہوتے ہیں ان میں اعضاء کی خصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے، مثلاً زبان جو نطق کرتی ہے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ زبان میں ایسی خاصیت ہے جس کی وجہ سے اس سے نطق صادر ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زبان میں نطق پیدا کردیا، اگر وہ چاہتا تو آنکھوں میں نطق پید کردیتا، کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ مکہ میں ایک پتھر تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر کہتا تھا : السلام علیک یارسول اللہ ! (صحیح مسلم : ٢٢٧٧) اور جب آپ مکہ کے راستہ میں جاتے تھے تو جو پہاڑ یا درخت آپ کے سامنے آتا تھا وہ کہتا تھا : السلام علیک یارسول اللہ ! (سنن ترمذی : ٣٦٢٦) اور صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے طعام کی تسبیح سنتے تھے۔ (سنن ترمذی ٣٦٣٣) تو جب اللہ تعالیٰ پتھروں میں، پہاڑوں میں اور درختوں میں کلام پیدا کرسکتا ہے تو انسان کے اعضاء میں کلام کا پیدا کرلینا کب زیادہ تعجب انگیز ہے۔
کان، آنکھ اور کھال کی خصوصیت کی توجیہ
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں کان، آنکھ اور کھال کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ کلام کریں گی اور باقی اعضا کا ذکر نہیں فرمایا۔ اس تخصیص کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حواس پانچ ہیں : قوت سامعہ، قوت باصرہ، قوت شامہ، قوت ذائقہ اور قوت لامسہ اور قوت لامسہ کا آلہ کھال ہے کیونکہ جب کھال سے کوئی چیز لمس ہوتی ہے تو وہ ادراک کرتی ہے کہ یہ سرد ہے یا گرم، نرم ہے یا سخت وغیرہ۔ لہٰذا کھال میں قوت لامسہ آگئی اور قوت ذائقہ کا ادراک بھی قوت لامسہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ہرچند کہ کامل نہیں ہوتا اور قوت شامہ بہت کمزور حس ہے، اس کے مدرکات پر حلال اور حرام کا زیادہ تعلق نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ وہ لوگ اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی تو وہ کہیں گے : ہمیں اسی اللہ نے گویائی بخشی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کردیا اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور تم کو پہلی بار گویائی دی تھی، پھر اس نے تم کو دوبارہ پیدا کیا اور دوبارہ تم کو گویائی دی تو اب اس نے تمہارے اعضاء کو گویائی دے دی ہے تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 20
[…] تفسیر […]