فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُكُمۡ صٰعِقَةً مِّثۡلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوۡدَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 13
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُكُمۡ صٰعِقَةً مِّثۡلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوۡدَ ۞
ترجمہ:
پھر بھی اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہیے کہ میں نے تمہیں ایسے ہولناک کڑک والے عذاب سے ڈرایا ہے جیسا ہولناک کڑک والا عذاب عاد اور ثمود پر آیا تھا
کفار مکہ کو آسمانی عذاب سے ڈرانے کی توجیہ
حٰم ٓ السجدۃ : ١٣ میں فرمایا : پھر بھی اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہیے کہ میں نے تمہیں ایسے ہولناک کڑک والے عذاب سے ڈرایا ہے جیسا ہولناک کڑک والا عذاب عاد اور ثمود پر آیا تھا “
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں کفار مکہ کو اس عذاب سے ڈرایا ہے جو عاد اور ثمود پر آیا تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے ” صاعقۃ العذاب “ فرمایا، یعنی بجلی کا ایک کڑکا آیا اور ان نے ان کو ہلاک کردیا اور یہ آسمانی عذاب ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس امت کے کافروں کو آسمانی عذاب سے مامون اور محفوظ کردیا ہے، قرآن مجید میں ہے :
واذ قالو اللھم ان کان ھذا ھوا الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء او ائتنا بعذاب الیم وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون (الانفال : 32-33)
اور جب انہوں نے کہا : کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب نازل کردے اور نہ اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ انہیں اس حال میں عذاب دے جب وہ استغفار کررہے ہوں
ان آیات سے یہ واضح ہوگیا کہ اہل مکہ پر آسمانی عذاب آنے والا نہیں تھا، پھر ان کو عاد اور ثمود کے عذاب کی مثل سے کیوں ڈرایا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ کفار مکہ اپنے کفر اور تکبر کی وجہ سے اسی عذاب کے مستحق ہیں جو عاد اور ثمود پر آیا تھا اور ان کا کفر اور تکبرفی نفسہٖ اس عذاب کا موجب ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کے درمیان ہونا اس عذاب سے امان کا باعث ہے، نیز اس عذاب سے مانع یہ چیز ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کے درمیان ہونا اس عذاب سے امان کا باعث ہے، نیز اس عذاب سے مانع یہ چیز ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان تشریف فرما ہیں تو کفار مکہ کو اس بات سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے درمیان سے کہیں لے جائے اور پھر ان کے اوپر اس طرح کا آسمانی عذاب نازل کردے، سو اللہ تعالیٰ کا کفار مکہ کو آسمانی عذاب سے ڈرانا بالکل بجا اور برمحل ہے۔
امام رازی کی توجیہ اور اس پر مصنف کا تبصرہ
امام فخر الدین رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ جب کفار مکہ نے یہ جان لیا کہ اس آسمانی عذاب کے استحقاق میں وہ عاد اور ثمود کی مثل ہیں تو انہوں نے اس بات کا جائز قرار دیا کہ ان پر بھی اس عذب کی جنس سے کوئی چیز آجائے خواہ وہ عاد اور ثمود کے عذاب سے کم درجہ کا عذاب ہو اور اتنی مقدار ان کو عاد اور ثمود کے عذاب سے ڈرانے کے لیے کافی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٥٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ ان کو عاد اور ثمود کے عذاب سے ڈرانے کے لیے اتنی مقدار کافی نہیں ہے۔ کیونکہ معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عذاب سیڈریا ہے جو عاد اور ثمود کے عذاب کی مثل ہے نہ کہ عاد اور ثمود سے کم درجہ کے عذاب سے ڈرایا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
فان اعرضوا فقل انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عاد وثمود (حٰم ٓ السجدۃ :13)
پس اگر یہ آپ (کی دعوت) سے اعراض کریں تو آپ کہیے میں تم کو عاد اور ثمود کے عذاب کی مثل عذاب سے ڈرارہا ہوں
اس لیے اس اعتراض کا صحیح اور مسکت جواب وہی ہے جس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید سے ذکر کیا ہے۔
اس امت سے صرف آسمانی عذاب اٹھایا گیا ہے، مسخ اور وسخ کا عذاب نہیں اٹھایا گیا
ہم نے جو الانفال : 32-33 کو نقل کیا ہے اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس امت سے صرف آسمانی عذاب کو اٹھایا گیا ہے اور کسی اور نوع کے عذاب کو اٹھانے کی قرآن اور سنت میں تصریح نہیں کی گئی۔ ہمیں اس پر حیرت ہوتی ہے کہ عوام اور خواص میں یہ مشہور ہے کہ اس امت سے مسخ کے عذاب کو اٹھالیا گیا ہے۔
قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ نے لکھا ہے :
اس امت میں مسخ موجود نہیں ہے اور یہ امت مسخ سے مامون ہے۔ (عارضۃ الاحوذی جز ٣ ص ٥٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
اور علامہ محمد بن یوسف کرمانی متوفی ٧٨٦ ھ نے لکھا ہے :
اس امت میں مسخ جائز نہیں ہے۔ (تحقیق الکواکب الدارری شرح البخاری : جز ٥ ص ٧٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٠١ ھ)
حالانکہ احادیث صحیحہ میں یہ تصریح ہے کہ اس امت کے بعض لوگوں کی شکل مسخ کردی جائے گی۔
حضرت ابومالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں (آلات موسیقی) کو حلال قرار دیں گے اور کچھ ایسے لوگ پہاڑ کے دامن میں رہیں گے کہ شام کو جب وہ اپنے مویشیوں کا ریوڑ لے کر لوٹیں گے اور ان کے پاس کوئی فقیر اپنی حاجت لے کر آئے گا تو کہیں گے : کل آنا “ اللہ تعالیٰ ان پر پہاڑ گرا کر ان کو ہلاک کردے گا اور دوسرے لوگوں (شراب اور آلات موسیقی کے حلال کرنے والوں) کو مسخ کرکے قیامت تک کے لیے بندر اور خنزیر بنادے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٩ )
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ جو لوگ زنا، رشیم، شراب اور آلات موسیقی کو حلال قرار دیں گے ان کو مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنادیا جائے گا، اسی طرح اس امت میں مسخ اور حسف کے ثبوت میں امام ترمذی نے تین حدیثیں روایت کی ہیں، ان میں سے ایک حدیث یہ ہے :
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میری امت پندرہ کام کرے گی تو اس پر عذاب کا آنا جائز ہوجائے گا، آپ نے فرمایا : (١) جب مال غنیمت کو ذاتی ملکیت بنا لیا جائے گا (٢) اور امانت کو مال غنیمت بنالیا جائے گا (٣) اور جب زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا (٤) اور جب مرد اپنی بیوی کی پیروی کرے گا (٥) اور ماں کی نافرمانی کرے گا (٦) اور جب اپنے دوسرے کے ساتھ نیکی کرے گا (٧) اور باپ کے ساتھ بےوفائی کرے گا (٨) اور جب مسجد میں آوازیں بلند کی جائیں گی (٩) اور کمینہ شخص کو قوم کا سردار بنایا جائے گا (١٠) اور کسی شخص کے سر سے بچنے کے لیے اس کی تکریم کی جائے گی (١١) اور شرابیں پی جائیں گی (١٢) اور ریشم پہنا جائے گا (١٣) اور گانے والیوں کو رکھا جائے گا (١٤) اور آلات موسیقی کا رواج ہوگا (١٥) اور اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو بُرا کہیں گے، ان حالات میں تم سرخ آندھیوں کا انتظار کرویا حسف (زمین میں دھنسائے جانے) اور مسخ (شکل تبدیل کرنے) کا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢١٠، یہ حدیث حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رقم الحدیث ٢٢١١، اور حضرت عمرن بن حصین سے بھی مروی ہے، رقم الحدیث : ٢٢١٢، جامع المسانید والسنن مسند علی بن ابی طالب رقم الحدیث : ٧٨٩)
ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ اس امت سے صرف آسمانی عذاب اٹھایا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ تم میں دوامانیں تھیں، ایک امان چلی گئی (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے درمیان سے چلے گئے) اور دوسری امان باقی ہے (یعنی تمہارا اپنے رب سے استغفار کرنا) وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللہ معذبھم وھم یستغفرون (الانفال : 33)
(الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٦٤٥، المستدرک ج ١ ص ٥٤٢، الدرالمنثور ج ٤ ص ٥٢، امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت کیا ہے، رقم الحدیث : ٣٠٨٢، اور امام حاکم نے بھی روایت کیا ہے، المستدرک ج ١ ص ٥٤٢ )
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 13