أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَـنُذِيۡقَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَذَابًا شَدِيۡدًاۙ وَّلَنَجۡزِيَنَّهُمۡ اَسۡوَاَ الَّذِىۡ كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور ان کو ہم ان کے بدترین کاموں کی سزا ضرور دیں گے

تفسیر:

حٰم ٓ السجدۃ : ٢٧ میں فرمایا : ” بیشک ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے “

اس آیت میں بدترین عذاب چکھنے کا ذکر ہے، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس چیز کو چکھا جاتا ہے وہ بہت کم ہوتی ہے تو جب اللہ کے سخت عذاب کے چکھنے کا یہ عالم ہے کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہے تو جب ان کو اس سخت عذاب کی پوری مقدار میں مبتلا کیا جائے گا تو پھر اس کی شدت کا کیا عالم ہوگا۔

اس کے بعد فرمایا : ” اور ان کو ہم ان کے بدترین کاموں کی سزا ضرور دیں گے “۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو ان کے زیادہ برے کاموں کی سزا دی جائے گی اور جو کام ان کے نسبتاً کم برے ہوں گے ان کی سزا نہیں دی جائے گی، بلکہ ان کو ان کے ہر قسم کے برے کاموں کی سزا دی جائے گی اور جو کام زیادہ برے ہوں گے ان میں عذاب کی کیفیت نسبتاً زیادہ شدید ہوگی اور دنیا میں انہوں نے جو نیکی کے کام کیے ہوں گے، مثلاً غلاموں کو آزاد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، مظلوموں کی مدد کرنا وغیرہ وہ تمام کام ضائع کردیئے جائیں گے اور ان کو آخرت میں ان پر کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، کیونکہ توحید و رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 27