نَحۡنُ اَوۡلِيٰٓـؤُکُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ ۚ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَشۡتَهِىۡۤ اَنۡفُسُكُمۡ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَدَّعُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نَحۡنُ اَوۡلِيٰٓـؤُکُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ ۚ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَشۡتَهِىۡۤ اَنۡفُسُكُمۡ وَلَـكُمۡ فِيۡهَا مَا تَدَّعُوۡنَ ۞
ترجمہ:
ہم دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کرو
تفسیر:
فرشتوں کا مؤمنین کے لیے معاون اور مددگار ہونا
حٰم ٓ السجدۃ : ٣٢۔ ٣١ میں فرمایا : ” ہم دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں تمہارے لیے ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کرو یہ بہت بخشنے والے، بےحد رحم فرمانے والے کی طرف سے مہمانی ہے “
اللہ تعالیٰ نے یہ خیر دی ہے کہ فرشتے مؤمنوں سے کہیں گے : ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے اولیاء تھے اور آخرت میں تمہارے اولیاء ہیں۔
امام رازی فرماتے ہیں : یہ آیت حٰم ٓ السجدۃ : ٢٥ کے مقابلہ میں ہے جس میں فرمایا تھا : ہم نے کفار کے لیے ان کے ساتھیوں کو ان پر مسلط کردیا اور یہ جو فرمایا ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لیے اولیاء (مددگار) ہوں گے، اس کا معنی یہ ہے کہ فرشتے مومنوں میں الھامات، مکاشفات، یقینیہ اور مقامات حقیقیہ کی تاثیرات کرتے ہیں، جس طرح شیاطین ارواح میں وسوسہ اندازی کرتے ہیں اور باطل خیالات کا القاء کرتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے متعدد جہات سے ارواح طیبہ طاہرہ کی مدد کرتے ہیں جس کا ارباب مکاشفات اور اصحاب مشاہدات کو علم ہوتا ہے، پس فرشتے یہ کہتے ہیں : جس طرح ان کی مدد دنیا میں مؤمنوں کو حاصل تھی اسی طرح ان کی مدد ان کو آخرت میں بھی حاصل رہے گی، بلکہ مؤمنوں کی موت کے بعد ان کی مدد زیادہ قوی ہوجائے گی کیونکہ جو ہر نفس ملائکہ کی جنس سے ہے اور نفس اور ملائکہ کے درمیان وہ نسبت ہے جو شعلہ اور آفتاب میں ہے، یا قطرہ اور سمندر میں ہے، نفس انسان اور ملائکہ کے درمیان تعلقات سجمانیہ اور تدبیرات بدنیہ حائل ہوتی ہیں اور انسان کی موت کے بعد یہ حجاب اٹھ جاتا ہے، پھر اثر موثر کے ساتھ اور قطرہ سمندر کے ساتھ اور شعلہ آفتاب کے ساتھ متصل ہوجاتا ہے اور اس آیت میں فرشتوں کے جس قول کا ذکر ہے اس سے یہی مراد ہے۔
پھر فرشتوں نے مؤمنوں سے کہا : ” اور تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں تمہارے لیے ہر وہ چیز ہے جس کو تم طلب کرو “
یعنی تم جس چیز کی بھی تمنا کرو گے وہ اللہ تعالیٰ تم کو عطا فرمادے گا، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس آیت کے پہلے جملہ میں ہے : جس چیز کو تمہارا دل چاہے اور دوسرے جملہ میں ہے : جس چیز کو تم طلب کرو، ان میں کیا فرق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے جملہ سے مراد لذات جسمانیہ ہیں جیسے جنت کے پھل اور میوے اور حورو قصور اور دوسرے جملہ میں مراد الذات روحانیہ ہیں جیسے ذکراذکار اور تسبیح اور تہلیل وغیرہ۔
اس کے بعد فرمایا : ” یہ بہت بخشنے والے، بےحد رحم فرمانے والے کی طرف سے مہمانی ہے “
اس میں یہ بتایا کہ یہ تمام نعمتیں جن کا ذکر کیا گیا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی کے قائم مقام ہیں اور کریم جب کسی کی مہمانی کرتا ہے تو ضیافت کے بعد نفیس تحائف پیش کرتا ہے سو جنت میں اللہ تعالیٰ پہلے جسمانی اور روحانی لذتیں عطا فرمائے گا، پھر اس کے بعد اپنی ذات کی تجلیات دکھائے گا اور اپنا دیدار عطا فرمائے گا، میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے قارئین کو جنت کی تمام نعمتوں کا اہل بنادے اور محض اپنے فضل اور کرم سے ہم کہ یہ نعمتیں عطا فرمائے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٦٢۔ ٥٦١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ ان آیتوں کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
مؤمنوں کی موت کے وقت فرشتے ان کے پاس آکر کہیں گے : ہم دنیا میں بھی تمہارے معاون تھے، تم کو صحیح راہ دکھاتے تھے اور اللہ کے حکم سے تمہاری حفاظت کرتے تھے اور اسی طرح ہم تمہارے ساتھ آخرت میں رہیں گے اور قبروں کی وحشت اور گھبراہٹ میں تمہارا دل بہلائیں گے اور جس وقت صور پھونکا جائے گا اس وقت بھی تم کو تسلی دیں گے اور حشر کے دن تم کو مامون رکھیں گے اور تم کو آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزاریں گے اور تم کو جنات النعیم میں پہنچائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : تمہارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جس کو تمہارے دل چاہے گا، یعنی جس چیز کو بھی تم پسند کرو گے اور جس چیز سے تھی تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور فرمایا : اس جنت میں تمہارے لیے ہر وہ چیز ہے جس کو تم طل کروگے یعنی جس چیز کو بھی تم طلب کرو گے وہ تمہارے سامنے ہوگی اور جس چیز کو بھی تم پسند کرو گے اس چیز کو تم پالو گے اور فرمایا : یہ بہت بخشنے والے، بےحد رحم فرمانے والے کی طرف سے مہمانی ہے، یعنی اس کی طرف سے ضیافت ہے اور عطاء ہے اور انعام ہے اور تمہارے گناہوں کی مغفرت ہے، وہ تم پر رئوف اور رحیم ہے، اس نے تمہارے گناہوں پر پردہ رکھا، تم کو بخش دیا اور تم پر لطف و کرم فرمایا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٠٨، مطبوعہ دارالفکر، ١٤١٩ ھ)
فرشتے موت کے وقت مؤمنین کو جن انعامات کی بشارت دیتے ہیں
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ٢٧٩ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ میری حضرت ابوہریرہ (رض) سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں جمع کردے، میں نے پوچھا : کیا جنت میں بازار ہوں گے ؟ فرمایا : ہاں ! مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے اور ان کو ان کے اعمال کی فضیلت کی وجہ سے جنت ملے گی، پھر ایام دنیا کے اعتبار سے جتنے عرصہ میں جمعہ کا دن آتا ہے اتنے عرصہ بعد وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے اور ان کے لیے اللہ کا عرش ظاہر ہوگا اور جنت کے باغات میں ایک باغ ان کے سامنے ہوگا اور ان کے لیے نور کے منبر رکھے جائیں گے اور یاقوت کے اور زمرد کے اور سونے کے اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے اور ان میں سے ادنیٰ درجہ کے شخص کو مشک اور کافور کے ٹیلے پر بٹھایا جائیگا، حالانکہ اس میں کوئی وناءت نہیں ہوگی اور یہ خیال نہیں آئے گا کہ جو لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہیں ان کی نشست ان سے زیادہ افضل ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! آپ نے فرمایا : کیا تم سورج کو دیکھنے میں اور چودھویں شب کو چاند کے دیکھنے میں کوئی تردد کرتے ہو ؟ ہم نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اسی طرح تم اپنے رب کے دیکھنے میں کوئی تردد نہیں کرو گے اور اس مجلس میں ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے بالمشافہ موجود ہوگا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص سے فرمائے گا : اے فلاں بن فلاں ! کیا تم کو یاد ہے کہ تم نے ایک دن فلاں فلاں بات کہی تھی ؟ پھر اس کو اس کی دنیا میں کی ہوئی بعض عہد شکنیاں یاد دلائے گا، وہ شخص کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے بخش نہیں دیا ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیوں نہیں، تو میری بخشش کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس مرتبہ کو پہنچا ہے، پھر جس وقت ان میں یہ گفتگو ہورہی ہوگی، اہل جنت کو اوپر سے ایک بادل ڈھانپ لے گا، پھر ان پر ایسی خوشبو کی بارش ہوگی کہ انہوں نے اس سے پہلے ایسی خوشبو نہیں سونگھی ہوگی اور ہمارا رب تبارک وتعالیٰ فرمائے گا : اٹھو، ان اکرام وانعام کی چیزوں کی طرف جو میں نے تمہارے لیے تیار کی ہیں، پس جو چیز تمہیں پسند آئے وہ لے لو، پھر ہم ایک بازار میں آئیں گے جس کا فرشتوں نے احاطہ کررکھا ہوگا، اس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ آنکھوں نے ایسی چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا ہوگا اور نہ کانوں نے کبھی سنا ہوگا اور نہ کبھی دلوں میں ان کا خیال آیا ہوگا، سو جو چیز ہمیں پسند آئے گی وہ ہمیں اٹھا کردے دی جائے گی اور اس بازار میں کوئی خریدوفروخت نہیں ہوگی اور اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے، پھر جو شخص بلند درجہ والا ہوگا وہ کم درجہ والے شخص سے ملے گا حالانکہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہوگی، وہ کم درجہ والا بلند درجہ والے شخص کے بہترین لباس کو دیکھ کر حیران ہوگا اور ابھی ان کی بات ختم نہیں ہوگی کہ وہ دیکھے گا اس کے اوپر اس سے بھی زیادہ بہترین لباس ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں کوئی شخص غمگین نہیں ہوگا، پھر ہم اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے جائیں گے۔ پھر جب ہماری بیویاں ہم سے ملاقات کریں گے تو کہیں گی : مرحبا ! خوش آمدید ہو ! تم اس قدر حسن و جمال کے ساتھ آئے ہو کہ جب تم یہاں سے گئے تھے اس وقت اتنے حسین و جمیل نہیں تھے، وہ شخص کہے گا : آج ہم اپنے رب جبار کی مجلس سے ہو کر آئے ہیں اور ہمیں یہی چاہیے تھے کہ ہم ایسی ہی کیفیت سے واپس آئیں جیسی کیفیت سے ہم واپس ہو کر آئے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٤٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٣٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٣٨، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٧١٤)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ کی ملاقات سے محبت کرتا ہے اللہ بھی اس کی ملاقات سے محبت کرتا ہے اور جو شخص اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، ہم نے کہا : یارسول اللہ ! ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : یہ موت کی ناپسندیدگی نہیں ہے، لیکن جب مومن کے پاس موت کا وقت آتا ہے تو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ان انعامات کی بشارت دینے والا آتا ہے جن انعامات کی طرف وہ جانے والا ہے، پھر اس مومن کے نزدیک اللہ سے ملاقات کرنے کے مقابلہ میں کوئی چیز پسندیدہ نہیں ہوتی، سو وہ اللہ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور فاجر یا کافر کے پاس جب موت کا وقت آتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آکر اس عذاب کی خبر دیتے ہیں جس عذاب کی طرف وہ جانیوالا ہوتا ہے سو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے) ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٠٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٩ ص ١٠٣، رقم الحدیث : ١٢٠٤٧، کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : ٩٧١، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٧٧٣)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 31
[…] تفسیر […]