وَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَهَدَيۡنٰهُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰى عَلَى الۡهُدٰى فَاَخَذَتۡهُمۡ صٰعِقَةُ الۡعَذَابِ الۡهُوۡنِ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَۚ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 17
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاَمَّا ثَمُوۡدُ فَهَدَيۡنٰهُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰى عَلَى الۡهُدٰى فَاَخَذَتۡهُمۡ صٰعِقَةُ الۡعَذَابِ الۡهُوۡنِ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَۚ ۞
ترجمہ:
اور رہے ثمود تو ہم نے ان کو ہدایت دی تھی، لیکن انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی، سو ان کے کرتوتوں کے باعث سخت ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا
تفسیر:
حٰم ٓ السجدۃ : ١٧ میں فرمایا : ” اور رہے ثمود تو ہم نے ان کو ہدایت دی تھی، لیکن انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی، سو ان کے کرتوتوں کے باعث سخت ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا “
اس سوال کا جواب کہ قوم ثمودہدایت پانے کے بعد کیسے گمراہ ہوگئی
ثمود اس قبیلہ کا نام ہے جس کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو معبوث کیا گیا تھا، اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دے دی تھی تو پھر انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر کیسے ترجیح دی، اللہ تعالیٰ کے ہدایت دینے کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ تاحیات ایمان پر قائم رہتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہدایت کے دو معنی ہیں :
(١) ایسے راستے کو دکھانا جو انسان کو مطلوب تک پہنچادے خواہ انسان اس راستے پر چل کر مطلوب تک پہنچے یا نہ پہنچے جیسا کہ اس آیت میں ہے :
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (الشوریٰ :52) اور بیشک آپ ضرورسیدھا راستہ دکھاتے ہیں
(٢) ایسی رہنمائی کرنا جو انسان کو مطلوب تک پہنچانے والی ہو، جیسا کہ اس آیت میں ہے :
واللہ لا یھدی القوم الکفرین (البقرہ :264) اور اللہ کافروں کو مطلوب تک نہیں پہنچاتا، یعنی ان کو صاحب ایمان نہیں بناتا
اس تمہید کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ہدایت کا دوسرا معنی مراد نہیں ہے، بلکہ پہلا معنی مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات پر دلائل قائم کردیئے تھے اور ان کو عقلی عطا کی تھی جس سے وہ ان نشانیوں کو دکھ کر منزل تک پہنچ سکتے تھے، پھر عقل کی مدد کے لیے رسولوں کو بھیجا اور ان کی معجزات سے تائید فرمائی لیکن انہوں نے اس ہدایت کو قبول کرنے کے بجائے اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید میں رہنا پسند کرلیا۔ اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم یہاں ہدایت کا دوسرا معنی بھی مراد لے سکتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہدایت دینے سے وہ ایمان لے آئے تھے اور انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا معجزہ دیکھنے کے بعد ان کی تصدیق کردی تھی لیکن بعد میں وہ شیطان کے بہکانے میں آگئے اور انہوں نے حضرت صالح کی اطاعت پر ان کی نافرمانی کو ترجیح دی اور ان کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔
صاعقہ کا معنی
فرمایا : ” تو پھر سخت ذلت کے عذاب کی کڑک نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا “ اس آیت کے الفاظ ہیں : ” صاعقۃ العذاب الھون “۔ ھون کے معنی ہیں : اہانت اور ذلت اور صاعقۃ کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
اجسام علویہ (جیسے بادل اور بجلی وغیرہ) سے جو سخت گڑگڑاہٹ کی آواز آئے اس کو صاعقہ کہتے ہیں، پھر اس کی تین قسمیں ہیں :
(١) صعق بہ معنی موت جیسا کہ اس آیت میں ہے : فصعق من فی السموت ومن فی الارض۔ (الزمر : 68)
پس وہ سب ہلاک ہوگئے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں۔
(٢) صاعقہ بہ معنی عذاب جیسا کہ اس آیت میں ہے :
انذرتکم صعقۃ مثل طعقۃ عاد وثمود (حٰم ٓ السجدۃ : 13) میں نے تم کو ایسے عذاب سے ڈرایا ہے جو عاد اور ثمود کے عذاب کی مثل ہے
(٣) صاعقۃ بہ معنی آگ جیسا کہ اس آیت میں ہے : ویرسل الصوا اعق فیصیب بھا من یشاء۔ (الرعد :13)
وہی آسمان سے آگ گراتا ہے اور جس پر چاہتا ہے ڈال دیتا ہے۔
یہ تمام چیزیں صاعقہ یعنی فضا سے آنے والی سخت گڑگڑاہٹ والی ہولناک آواز سے حاصل ہوتی ہیں۔ کبھی بجلی گرتی ہے تو اس سے فقط آگ حاصل ہوتی ہے جس کا ذکر الرعد : ١٣ میں ہے اور کبھی اس ہولناک آواز کے ساتھ عذاب دیا جاتا ہے جس کا ذکر حٰم ٓ السجدۃ : ١٣ میں ہے اور کبھی اس ہولناک آواز کے نتیجہ میں موت آتی ہے جس کا ذکر الزمر : ٨٦ میں ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٣٦٩، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٣١٨ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 17