وَمَا كُنۡتُمۡ تَسۡتَتِرُوۡنَ اَنۡ يَّشۡهَدَ عَلَيۡكُمۡ سَمۡعُكُمۡ وَلَاۤ اَبۡصَارُكُمۡ وَلَا جُلُوۡدُكُمۡ وَلٰكِنۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعۡلَمُ كَثِيۡرًا مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا كُنۡتُمۡ تَسۡتَتِرُوۡنَ اَنۡ يَّشۡهَدَ عَلَيۡكُمۡ سَمۡعُكُمۡ وَلَاۤ اَبۡصَارُكُمۡ وَلَا جُلُوۡدُكُمۡ وَلٰكِنۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعۡلَمُ كَثِيۡرًا مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور تم اس وجہ سے اپنے گناہ نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی لیکن تمہارا یہ گمان تھا کہ تم جو کچھ کام کررہے ہو ان کو اللہ نہیں جانتا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور تم اس وجہ سے اپنے گناہ نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی لیکن تمہارا یہ گمان تھا کہ تم جو کچھ کام کررہے ہو ان کو اللہ نہیں جانتا اور تمہارا اپنے رب کے ساتھ یہی گمان ہے جس نے تہیں ہلاک کردیا، پس تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے اب اگر یہ صبر کریں تب بھی ان کا ٹھکانہ دوزخ ہی ہے اور اگر وہ اللہ کی ناراضگی دور کرنے کو طلب کریں تب بھی وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے جن سے ناراضگی دور کی جائے گی اور ہم نے ان کے لیے کچھ ایسے ساتھی ان پر مسلط کردیئے تھے جنہوں نے ان کے لیے ان کے سامنے کے اور ان کے بعد کے امور کو ان کی نگاہوں میں خوش نمابنادیا تھا اور ان کے حق میں اللہ کا وہ قول ثابت ہوگیا جو ان سے پہلے جنات اور انسانوں کے گروہوں میں ثابت ہوچکا تھا اور بیشک وہ نقصان اٹھنے والوں میں سے تھے (حٰم ٓ السجدۃ : 22-25)
اللہ کے ساتھ اس گمان کی مذمت کہ اس کو بندوں کے اعمال کا علم نہیں ہوگا
حٰم ٓ السجدۃ : ٢٢ میں فرمایا ہے : ” اور تم اس وجہ سے اپنے گناہ نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی لیکن تمہارا یہ گمان تھا کہ تم جو کچھ کام کررہے ہو ان کو اللہ نہیں جانتا “
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کفار کوئی بُرا اور شرم ناک کام کرنے لگتے تو وہ اپنے کام کو چھپاتے تھے لیکن ان کا چھپانا اس لیے نہیں ہوتا تھا کہ ان کو یہ خطرہ تھا کہ ان کے کان، اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھال اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کے برے کاموں کی شہادت دیں گی کیونکہ وہ نہ قیامت کے قائل تھے اور نہ مرنے کے بعد اٹھنے کے اور نہ حساب اور کتاب کے معترف تھے، بلکہ ان کا چھپ کر گناہ کرنا اس لیے تھا کہ ان کا یہ گمان تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اعمال کا پتا نہیں چلتا جو چھپ کر کیے جائیں۔
اما محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٦٥٦ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیت اللہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے، یہ بہت موٹے اور جسیم تھے اور ان کے دلوں میں فقہ بہت کم تھی، پس ان میں سے ایک نے کہا : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سن رہا ہے، دوسرے نے کہا : اگر ہم زور سے باتیں کریں گے تو وہ سنے گا اور اگر آہستہ باتیں کریں گے تو وہ نہیں سنے گا، دوسرے نے کہا : اگر وہ ہماری زور سے کی ہوئی باتیں سن سکتا ہے تو وہ ہماری آہستہ سے کی ہوئی باتیں بھی سن سکتا ہے، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : اور تم اس وجہ سے اپنے گناہ نہیں چھپاتے تھے۔ الخ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨١٧، سنن الرتمذی رقم الحدیث : ٣٢٤٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٤٦٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٣٢٨ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 22