زندگی سھل ہی سھل ۔

🌳 تصوف کی کسی کتاب میں پڑھا تھا ۔ آج پھر یاد آ گیا ( چند روز قبل ایک دوست کہہ رہے تھے کہ آپ کی تحریر ملتی ہے تو ہم قیافے دوڑاتے ہیں کہ اس تحریر کا پس منظر یہ ہو سکتا ہے ، یہ ہو سکتا ہے )

حضرت مولانا جلال الدين رومی نے اپنے شيخ حضرت شمس الدين التبريزي۔ رحمة الله تعالى عليهما سے پوچھا :

📛 ‏” نفس کی آگ کیسے ٹھنڈے ہو سکتی ہے ؟

جواب ملا : استغناء کے ساتھ ،

میرے بیٹے بے نیاز سے بن جاؤ ، جو چھوڑ دیتا ہے وہ بادشاہ اور مالک ہو جاتا ہے ۔

دوستو ! اتنی پیاری اور گہری بات کوئی خاص اللّٰہ والا ہی کہہ اور سمجھا سکتا ہے ۔

انسان اپنی نفسانی خواہشات کے دیوانہ پن اور حوائج بر آری کے تسلط کی بناء پر دست سوال دراز کرتا ہے اور نتیجتاً اپنا وقار و مقام کھو بیٹھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ اس دیوانگی کو چھوڑ دے تو شاہوں جیسا ہے ۔

کئی ذلتیں ، رسوائیاں صرف کچھ پانے کی پاداش میں ملتی ہیں۔

نفس کی ہر خواہش کو چھوڑ دینے والا ڈھیروں عزتوں کا مالک اور رکھوالا ہوتا ہے ۔

✅ اب جناب جلال الدين رومی نے دوسرا سوال کیا :

‏انسان کے بارے میں کچھ ارشاد ہو ؟

‏فرمایا : تیرے حوالے سے لوگ دو طرح کے ہیں ۔؛

جو تجھے چھوڑنا چاہتا ہے ، بند دروازوں کے کسی چھوٹے سوراخ میں سے بھی وہ نکلنے کی سبیل بنا کے تجھے ضرور چھوڑ دے گا اور جو تجھ سے محبت کرنے کا پروگرام رکھتا ہو گا وہ بند دروازے کے سوراخ میں سے تیرے پاس پہنچنے کی کوئی سبیل بنا ہی لے گا “.

فقیر خالد محمود عرض گذار ہے کہ تقدیر اور توکل پر پختہ ایمان کے درس کے ساتھ کسی کو ہر حال میں اپنا بنا کے رکھنے کی بیگار سے ممانعت کا درس بھی موجود ہے ۔

✒️فقیر خالد محمود

معارف القرآن کشمیر کالونی کراچی

منگل 29 جون 2021