اِلَيۡهِ يُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَةِؕ وَمَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَكۡمَامِهَا وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهٖؕ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ اَيۡنَ شُرَكَآءِىۡۙ قَالُـوۡۤا اٰذَنّٰكَۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَهِيۡدٍۚ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِلَيۡهِ يُرَدُّ عِلۡمُ السَّاعَةِؕ وَمَا تَخۡرُجُ مِنۡ ثَمَرٰتٍ مِّنۡ اَكۡمَامِهَا وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهٖؕ وَيَوۡمَ يُنَادِيۡهِمۡ اَيۡنَ شُرَكَآءِىۡۙ قَالُـوۡۤا اٰذَنّٰكَۙ مَا مِنَّا مِنۡ شَهِيۡدٍۚ ۞
ترجمہ:
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا اور جو پھل اپنے شگوفوں سے نکلتے ہیں اور جس مادہ کو کوئی حمل ہوتا ہے اور اس کے ہاں جو بچہ ہوتا ہے، ان سب کا اس کا علم ہے اور جس دن اللہ ان سب (مشرکوں) کو بلا کر فرمائے گا : میرے شریک کہاں ہیں ؟ وہ کہیں گے کہ ہم تجھے بتا چکے ہیں کہ ہم میں سے تو کوئی ان کو دیکھنے والا نہیں ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے گا اور جو پھل اپنے شگوفوں سے نکلتے ہیں اور جس مادہ کو کوئی حمل ہوتا ہے اور اس کے ہاں جو بچہ ہوتا ہے، ان سب کا اس کا علم ہے اور جس دن اللہ ان سب (مشرکوں) کو بلا کر فرمائے گا : میرے شریک کہاں ہیں ؟ وہ کہیں گے کہ ہم تجھے بتا چکے ہیں کہ ہم میں سے تو کوئی ان کو دیکھنے والا نہیں ہے اور ان سے وہ سب کم ہوجائیں گے جن کی اس سے پہلے وہ دنیا میں پرستش کرتے تھے اور وہ یہ سمجھ لیں گے کہ اب ان کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے انسان خیر کی دعا کرنے سے کبھی نہیں تھکتا اور اگر اسے کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اگر ہم اس کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا ذائقہ چکھائیں تو وہ یہ ضرور کہے گا کہ میں بہر صورت اس کا حق دار تھا اور میں یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو بیشک اس کے پاس میری خیر ہوگی، پس ہم ضرور کافروں کو ان کے کاموں کی خبر دیں گے اور ہم ان کو ضرور سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے (حٰم ٓ السجدۃ : 47-50)
اللہ تعالیٰ کا علم غیب قطعی اور ذاتی ہے اور مخلوق کو بالواسطہ غیب کا علم ہوسکتا ہے
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ قیامت کس وقت قائم ہوگی اس کا بالذات اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے، اسی طرح اس کائنات میں جو بھی حوادث رونما ہوتے ہیں کسی مادہ کو جب بھی حمل ہوتا ہے یا وضع حمل ہوتا ہے، جب بھی باغات میں پھل نکلتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، سب چیزوں کا للہ کا علم ہوتا ہے۔ امام فخرالدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
کیا یہ بات نہیں ہے کہ نجومی اپنے حساب سے سال میں ہونے والے اکثر واقعات کو جان لیتے ہیں، اسی طرح رمل سے اور خواب کی تعبیروں سے مستقبل میں ہونے والے اکثر واقعات کا پیشگی علم ہوجاتا ہے اور غیب کی باتوں کا پتا چل جاتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ان علوم کے ماہرین کو یقینی اور قطعی طور پر کسی غیب کی بات کا علم نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ ان کو کمزور درجہ کا ظن ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو علم ہے وہ قطعی اور یقینی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٧١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ اسی طرح محکمہ موسمیات والے پیشگی بتادیتے ہیں کہ بارش کب ہوگی اور کل موسم کا درجہ حرارت کیا ہوگا، لیکن یہ پیش گوئیاں ٩٠ فی صد درست ہوتی ہیں، اس لیے ان کے معاملہ میں امام رازی کا یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ یہ پیش گوئیاں قطعی اور یقینی نہیں ہوتیں۔ لیکن سورج گہن لگنے اور چاند گہن لگنے کی جو سالوں پہلے خبر دی جاتی ہے اور پوری دنیا میں ان کا نظام الاوقات بتادیا جاتا ہے یہ پیش گوئیاں سو فی صد صحیح ہوتی ہیں اور آج تک ان کی کوئی خبر غلط ثابت نہیں ہوتی، اسی طرح الٹرا سائونڈ کے ذریعے پیشگی بتادیا جاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اور یہ پیشگی خبر بھی سو فی صد صحیح ہوتی ہے، اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ علم آلات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو علم ہے وہ بغیر کسی آلہ کے ہے، اسی طرح جو فرشتہ ماں کے رحم میں لکھتا ہے کہ یہ بچہ مذکر ہے یا مونث، اس کی مدت حیات کتنی ہے، اس کا رزق کتنا ہے اور یہ سعید ہے یا شقی ہے اس کا علم اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم یقینی اور قطعی ہے اور بغیر کسی آلہ اور سبب کے ہے اور بغیر تعلیم کے اور ذاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو بھی وحی اور الہام کے ذریعہ غیب کا علم ہوتا ہے اور ان کے لیے بالواسطہ غیب کا علم ماننا ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کا انکار کرنا عناد اور گمراہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 47
[…] تفسیر […]