اِنَّ الَّذِيۡنَ يُلۡحِدُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا لَا يَخۡفَوۡنَ عَلَيۡنَا ؕ اَفَمَنۡ يُّلۡقٰى فِى النَّارِ خَيۡرٌ اَمۡ مَّنۡ يَّاۡتِىۡۤ اٰمِنًا يَّوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّهٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 40
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُلۡحِدُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا لَا يَخۡفَوۡنَ عَلَيۡنَا ؕ اَفَمَنۡ يُّلۡقٰى فِى النَّارِ خَيۡرٌ اَمۡ مَّنۡ يَّاۡتِىۡۤ اٰمِنًا يَّوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّهٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
ترجمہ:
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی ہیں، آیا جو شخص دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو اطمینان سے قیامت کے دن آئے گا، تم جو چاہو کرو بیشک وہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی ہیں، آیا جو شخص دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو اطمینان سے قیامت کے دن آئے گا، تم جو چاہو کرو بیشک وہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے بیشک جن لوگوں نے قرآن کا اس وقت کفر کیا جب وہ ان کے پاس پہنچ چکا تھا (ان کا عذاب دیا جائے گا) بیشک یہ بہت معزز کتاب ہے اس میں باطل کہیں سے نہیں آسکتا نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے، یہ کتاب بہت حکمت والے، حمد کیے ہوئے کی طرف سے نازل شدہ ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 40-42)
الحاد کا معنی اور اس کا مصداق
اس سے پہلے حٰم ٓ السجدۃ : ٣٣ میں یہ بتایا تھا کہ انسان کا سب سے عمدہ منصی اور مرتبہ اللہ کے دین کی دعوت دینا ہے، پھر حٰم ٓ السجدۃ : ٣٧ میں یہ بتایا کہ اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات اور صفات پر دلائل قائم کیے جائیں اور ان کی آیات میں یہ بتایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین میں شبہات ڈالتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہیں، پھر ان کو ڈراتے ہوئے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا : ” تم جو چاہو کرو بیشک وہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ “
اس آیت میں کج بحثی کے لیے ” یلحدون “ فرمایا ہے، یلحدون الحاد سے ماخوذ ہے، علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ الحاد کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الحاد کا مادہ لحد ہے، لحد اس گڑھے کو کہتے ہیں جو درمیان سے بغلی جانب جھکا ہوا ہوتا ہے، الحاد کا معنی ہے : حق سے انحراف کرنا، الحاد کی دو قسمیں ہیں (١) کسی کو اللہ کا شریک قرار دینا (٢) ان اسباب کو ماننا جو شرک کی طرف پہنچائیں، قسم ایمان کے منافی ہے اور دوسری قسم ایمان کی گرہ کو کمزور کردیتی ہے لیکن ایمان کو باطل نہیں کرتی، قرآن مجید میں ہے :
الذین یلحدون فی اسمائہ۔ (الاعراف :180)
جو لوگ اللہ کے اسماء میں الحاد کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی دو قسمیں ہیں : (١) اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت بیان کی جائے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے، مثلاً یہ کہنا کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے، یا فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات بیان کرنا جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں (مثلاً میاں یا اللہ سائیں کہنا) (المفردات ج ٢ ص ٥٧٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
اس آیت میں فرمایا ہے : ” جو لوگ ہماری آیتوں میں الحاظ کرتے ہیں “ یہاں الحاد سے کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق مفسرین کے حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) قتادہ نے کہا : اس سے مراد ہے : جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں (٢) ابو مالک نے کہا : جو لوگ ہماری آیتوں سے انحراف کرتے ہیں (٣) ابن زید نے کہا : جو لوگ ہماری آیتوں کا کفر کرتے ہیں (٤) سدی نے کہا : جو لوگ ہمارے رسولوں سے عنادرکھتے ہیں (٥) مجاہد نے کہا : اس سے مراد ہے : جو مسلمان قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو کفار سیٹیاں بجاتے ہیں اور تالیاں پیٹتے ہیں۔
اس کے بعد فرمایا : ” آیا جو شخص دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو اطمینان سے قیامت کے دن آئے گا “۔
اس کی تفسیر میں مفسرین کے حسب ذیل اقوال ہیں :
(١) عکرمہ نے کہا : جو شخص دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ ابوجہل ہے اور جو شخص قیامت کے دن اطمینان سے آئے گا وہ حضرت عمار بن یاسر ہیں۔
(٢) ابن زیاد نے کہا : جس کو دوزخ کی آگ میں جھونکا جائے گا وہ اوجہل ہے اور جو قیامت کے دن اطمینان سے آئے گا وہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) ہیں۔
(٣) مقاتل نے کہا : جن کو دوزخ کی آگ میں جھونکا جائے گا وہ ابوجہل اور اس کے ساتھی ہیں اور اطمینان کے ساتھ قیامت کے دن آئیں گے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
(٤) ابن بحر نے کہا : اس آیت میں عموم مراد ہے، دوزخ میں جھونکا جانے والا کافر ہے اور قیامت کے دن مطمئن ہو کر آنے والے مؤمنین ہیں۔ (النکت والعیون للمادردی ج ٥ ص ١٨٥۔ ١٨٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اور یہ جو فرمایا ہے : تم جو چاہو کرو، یہ دھمکانے کے لیے فرمایا ہے یعنی تمہارے کفر پر اصرار کی وجہ سے تمہارے لیے دوزخ کا عذاب واجب ہوچکا ہے، اب تم جو چاہو کرو، تمہاری کسی کوشش سے یہ عذاب ٹل نہیں سکتا۔
جعلی پیروں اور بناوٹی صوفیوں کا الحاد
اس آیت میں فرمایا ہے : ” جو لوگ ہماری آیتوں میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے مخفی نہیں ہے “ اس سے ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو علم اور معرفت سے خالی ہوتے ہیں اور زہد اور تقویٰ کا اظہار کرتے ہیں، وہ کشف اور الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو بیعت کرتے ہیں اور اپنی روحانیت اور کرامتوں کا چرچا کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اغنیاء اور احکام ان کے پاس آئیں اور ان کے زہد اور تقویٰ سے متاثر اور مرعوب ہوں، وہ علماء دین کی تحقیر کرتے اور لوگوں کو ان سے متنفر کرتے ہیں اور بغیر علم کے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرتے ہیں اور وعظ اور تقریریں کرتے ہیں، لوگ ان سے مسائل معلوم کرتے ہیں اور وہ بغیر علم کے فتاویٰ جاری کرتے ہیں، لوگ ان کو بھاری بھاری نذرانے دیتے ہیں اور وہ مال و دولت سے اپنے مریدوں میں اضافہ کرتے ہیں، حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اپنے بندوں کے سینے سے نہیں نکالے گا لیکن اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھالے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیر اور پیشوا بنالیں گے، ان سے سوال کیا جائے گا اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٣، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٢، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص رقم الحدیث : ٦١٠)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آخر زمانہ میں ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے بدلہ میں دنیا کو طلب کریں گے، وہ لوگوں کے سامنے درویشی ظاہر کرنے کے لیے بھیڑ کی نرم کھال کا لباس پہنیں گے، ان کی زبانیں چینی سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح ہوں گے، کیا وہ (میری مہلت دینے سے) دھوکا کھا رہے ہیں یا وہ (میری مخالفت پر) جرأت کررہے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٠٥، مصنف علدالرزاق رقم الحدیث ١٨٦٥٠، مسند احمد ج ١ ص ١١٣، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٨٤٤٣، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥٣٢٣ )
ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی ١٠١٤ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
یہ لوگ صوفیاء اور درویشوں کا لباس پہن کر اور ریاکاری سے عبادت کرکے لوگوں کو دھوکا دیں گے اور لوگوں کو اپن معتقد اور مرید بنانے کے لیے اور دنیا کا مال بٹورنے کے لیے، زہدوتقویٰ کا اظہار کریں گے اور وہ نیک اور خدا سرت علماء سے عداوت رکھیں گے، ان پر حیوانی صفات اور شہوات کا غلبہ ہوگا اور وہ اپنے نام ونمود کے لیے کاروائی کریں گے۔ (مرقاۃ المفاتیح ج ٩ ص ١٨٣۔ ١٨٢، مکتبہ حقانیہ، پشاور)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مخلوق کو پیدا کیا ہے جن کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل ایلوے سے زیادہ کڑوے ہوں گے، پس میں اپنی ذات اور صفات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے ان کے لیے ایسا فتنہ مقرر کردیا ہے جس میں مبتلا ہو کر بردبار آدمی بھی حیران ہوگا، کیا یہ لوگ مجھ پر دھوکا کھا رہے ہیں یا مجھ پر جرأت کررہے ہیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٠٤، المسند الجامع رقم الحدیث : ٨٢٧٩، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمر رقم الحدیث : ٧٦٠) ایلوے کا معنی ہے : گھیکوار کے گودے کا خشک کیا ہوا رس۔ (قائد اللغات ص ١٣٦، فیروز اللغات ص ١٥٠) گھیکو ایک قسم کا پودا ہے جس کے پتے بہت لمبے ہوتے ہیں اور ان سے لیس دار مادہ نکلتا ہے۔ (فیروز اللغات ص ١٠٣٥)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 40