حٰم ٓ- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 1
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
حٰمٓ ۞
ترجمہ:
حٰم ٓ
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
حٰم ٓ عٓسٓقٓ اللہ بہت غالب اور بہت حکمت والا ہے، وہ اسی طرح آپ کی طرف اور آپ سے پہلے رسولوں کی طرف وحی نازل فرماتا رہا ہے اسی کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور وہ بہت بلند اور بہت عظیم ہے (الشوریٰ : 1-4)
حٰم ٓ عٓسٓقٓ کی تاویلات
الشوریٰ : ٢۔ ١ میں جو حروف مقطعات ذکر کیے گئے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کے اسماء کی طرف اشارہ ہے، ح سے حلیم، حافظ اور حکیم کی طرف اشارہ ہے، میم سے ملک، ماجد، مجید، منان، مومن اور مہیمن کی طرف اشارہ ہے اور حٰم ٓ میں ان سب اسماء کے ابتدائی حروف ہیں اور عین سے عالم، علیم، عدل اور عالی کی طرف اشارہ ہے اور سین سے سید، سمیع اور سریع الحساب کی طرف اشارہ ہے اور قاف سے قادر، قدیر، قاہر، قریب اور قدوس کی طرف اشارہ ہے اور عٓسٓقٓ میں ان سب اسماء کے ابتدائی حروف کی طرف اشارہ ہے۔ (لطائی الاشارات ج ٣ ص ١٥٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے ان حروف مقطعات کی تفسیر میں اپنی سند کے ساتھ اس روایت کا ذکر کیا ہے :
ایک شخص حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آیا، اس وقت ان کے پاس حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بھی بیٹھے ہوئے تھے، اس شخص نے حضرت ابن عباس سے ان حروف کی تفسیر پوچھی، حضرت ابن عباس نے کچھ دیر سرجھکایا، پھر منہ پھیرلیا، اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا، حضرت ابن عباس نے پھر اس سے منہ پھیرلیا اور اس کے سوال کو ناگوار جانا، اس شخص نے پھر تیسری بار سوال کیا، انہوں نے اس کو پھر کوئی جواب نہیں دیا، تب حضرت حذیفہ (رض) نے اس شخص سے کہا : میں تم کو ان حروف کی تفسیر بتاتا ہوں اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر کے سوال کو کیوں برا جانا، دراصل یہ حروف مقطعات ان کے اہل بیت میں سے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئے ہیں، اس شخص کو عبدالالہٰ یا عبداللہ کہا جائے گا، وہ مشرق کے دریائوں میں سے ایک دریا کے پاس اترے گا، وہ وہاں دو شہر بسائے گا، ان دوشہروں کے درمیان دریا بہتا ہوگا، جب اللہ تعالیٰ اس شخص کے ملک اور اس کی حکومت کے زوال کا ارادہ فرمائے گا تو ان دونوں شہروں میں سے ایک شہر پر رات کے وقت ایک آگ آئے گی جو اس شہر کو جلا کر راکھ کردے گی، وہاں کے لوگ اس شہر کو دیکھ کر تعجب کریں گے، اسے دیکھ کر یوں لگے گا جیسے یہاں پر کبھی کچھ تھا ہی نہیں، اس شہر میں صبح کے وقت تمام سرکش اور متکبر لوگ جمع ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان متکبرین سمیت اس شہر کے تمام لوگوں کو جلا کر خاکستر کردے گا، حٰم ٓ کا معنی یہ ہے کہ یہ عزیمت ہے اور ایسا ہونا ضروری ہے اور عسق میں عین سے مراد عدل ہے، سین سے مراد ہے ” سیکون “ یعنی عنقریب ایسا ہوگا اور قاف سے مراد ہے یہ واقعہ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان حروف مقطعات میں ان دو سہروں کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے۔ (جامع البیان جز ٢٥ ص ١١۔ ١٠، رقم الحدیث : ٢٣٦٣٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام ابواسحاق الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ اور علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص ٣٠٢، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١١٥، الدرامنثور ج ٧ ص ٢٨٩، روح البیان ج ٨ ص ٣٨١، روح المعانی جز ٢٥ ص ١٧)
تاہم کسی مستند ماخذ سے یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کون سے دو شہر ہیں جن کی ہلاکت کا ان حروف میں اشارہ ہے اور نہ کسی اور معتبر ذریعہ سے حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کی اس روایت کی تائید مل سکی۔
علامہ اسماعیل حقی نے لکھا ہے کہ اس دریا سے مراد یا دجلہ ہے، عراق میں دجلہ کے کنارے دخلہ اور دجیل نام کے دو سہر تھے، ان کو زمین میں دھنسا دیا گیا تھا، اس روایت میں وہی مراد ہیں۔ ہو اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
علامہ ابوالحسن بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
ان حروف مقطعات کی سات تاویلات ہیں :
(١) قتادہ نے کہا : حٰم ٓ عٓسٓقٓ قرآن مجید کے اسماء میں سے اسم ہیں (٢) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : یہ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے وہ اسم ہیں جن کی اس نے قسم کھائی ہے (٣) مجاہد نے کہا : یہ اس سورت کے افتتاحی الفاظ ہیں (٤) عبداللہ بن بریدہ نے کہا : یہ اس پہاڑ کا نام ہے جو تمام دنیا کو محیط ہے (٥) محمد بن کعب نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کے قطعات : ہیں حا اور میم رحمن کا قطعہ ہے، عین علیم کا، سین قدوس کا اور قاف قاہر کا قطعہ ہے (٦) عطاء نے کہا : ان حروف میں مستقبل کے حوادث کی طرف اشارہ ہے، حا سے حرب یعنی لڑائیوں کی طرف اشارہ ہے اور میم سے ملکوں کے منتقل ہونے کی طرف اشارہ ہے، عین سے عدد یعنی دشمنوں کی طرف اشارہ ہے، سین سے سنین یعنی قحطوں کے سال کی طرف اشارہ ہے اور قاف سے زمین کے بادشاہوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف اشارہ ہے (٧) ان حروف سے حضرت عذیفہ بن یمان (رض) کی بیان کردہ حکایت کی طرف اشارہ ہے کہ مشرق میں دریا کے کنارے ایک شہر ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دے گا، حٰم ٓ کی تاویل ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عزیمت ہے یعنی ایسا ضرور ہوگا اور عین کی تاویل ہے کہ وہ اس کا عدل ہے، سین کی تاویل ہے سیکون، یعنی عنقریب ایسا ہوگا اور قاف کی تاویل ہے : یہ خبر واقع ہوگی۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٩٢۔ ١٩١، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
دراصل علماء کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر لفظ کے اسرار اور اس کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ہر عالم نے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق ان حروف مقطعات کی حقیقت تک رسائی کی کوشش کی ہے اور میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ حروف مقطعات، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان رمز ہیں اور ان کا علم ان ہی کو ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 1
[…] تفسیر […]