فَاِنِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فَالَّذِيۡنَ عِنۡدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوۡنَ لَهٗ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَهُمۡ لَا يَسۡئَـمُوۡنَ۩۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 38
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاِنِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فَالَّذِيۡنَ عِنۡدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُوۡنَ لَهٗ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ وَهُمۡ لَا يَسۡئَـمُوۡنَ۩ ۞
ترجمہ:
پھر بھی اگر یہ لوگ تکبر کریں تو جو فرشتے آپ کے رب کے پاس ہیں وہ رات اور دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں
فرشتوں کی دائمی تسبیح پر ایک اشکال کا جواب
حٰم ٓ السجدۃ : ٣٨ میں فرمایا : ” پھر بھی اگر یہ لوگ تکبر کریں تو جو فرشتے آپ کے رب کے پاس ہیں وہ رات اور دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں “
یہ آیت سجدہ ہے اور فقہاء احناف کے نزدیک یہ قرآن مجید میں گیارہویں آیت سجدہ ہے۔
اس آیت میں فرشتوں کی صفت میں فرمایا ہے کہ وہ رات اور دن اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیع کرتے رہتے ہیں، اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب فرشتے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں تو وہ باقی کام کس وقت کرتے ہیں کیونکہ قرآن مجید نے ان کے اور کاموں کا بھی ذکر فرمایا ہے، مثلاً :
نزل بہ الروح الامین علی قلبک۔ (الشعراء :193-194) جبریل امین نے قرآن مجید کو آپ کے قلب پر نازل کیا۔ ان الذین توفھم الملٓئکۃ۔ (النساء :97) بیشک فرشتوں نے جن لوگوں کی روح قبض کی۔
تنزل الملٓئکۃ والروح فیھا باذن ربھم۔ (القدر :4) فرشتے اور جبریل اپنے رب کی اجازت سے شب قدر میں نازل ہوتے ہیں۔ اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جن فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں وہ فرشتوں کی خاص نوع ہیں، وہ اکابر ملائکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور یہ اس کے خلاف نہیں ہے کہ دوسرے فرشتے ان کاموں میں مشغول رہتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمہ لگا دیئے ہیں۔
بشر اور فرشتوں میں باہمی افضیلت کی تحقیق اور امام رازی کی تفسیر پر بحث ونظر
امام فخرالدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ فرماتے ہیں :
کیا یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ فرشتے بشر سے افضل ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ! کیونکہ اعلیٰ درجہ والوں سے ادنیٰ درجہ والوں کے حال پر استدلال کیا جاتا ہے، پس یوں کہاں جائے گا کہا گر یہ کفار اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے تکبر کرتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے اکابر ملائکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس نوع میں اعلیٰ درجہ والوں کے حال کے حسن سے ادنیٰ درجہ والوں کے خلاف استدلال ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٦٧، داراحیاء التراث، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں : اس دلیل سے مطلقاً فرشتوں کا بشر سے افضل ہونا لزم نہیں آتا، بلکہ فرشتوں کا کفار سے افضل ہونا لازم آرہا ہے، باقی فرشتوں اور بشر کے درمیان افضلیت کی تحقیق اس ترح ہے :
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں :
معتزلہ، فلاسفہ اور اشاعرہ کا مسلک یہ ہے کہ فرشتے بشر سے افضل ہیں حتیٰ کہ نبیوں اور رسول سے بھی افضل ہیں اور جمہور اس سنت کا مسلک یہ ہے کہ بشر فرشتوں سے افضل ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے :
رسل بشر، رسل ملائکہ سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ عامۃ البشر سے افضل ہیں اور عامۃ البشر (یعنی مؤمنین نہ کہ کفار) عامۃ الملائکہ سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ البشر سے بالا اجماع افضل ہیں، بلکہ بالضرورۃ افضل ہیں۔
رسل بشر کی رسل ملائکہ سے افضلیت اور عامۃ البشر کی عامۃ الملائکہ سے افضلیت پر حسب ذیل دلائل ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعظیم اور تکریم کے لیے ان کو سجدہ کریں اور حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کی تعظیم کا حکم دیا جاتا ہے۔
(٢) جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس نے حضرت آدم کو تمام چیزوں کے اسماء کی تعلیم دی تو اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ حضرت آدم کی تعظیم اور تکریم کی وجہ سے استحقاق بیان کی جائے۔
(٣) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان اللہ اصطفی آدم ونوحا وال ابرھیم وال عمرن علی العٰلمین (آل عمران :33)
بے شک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے اور تمام جہان میں فرشتے بھی شامل ہیں۔
(٤) انسان میں شہوت اور غضب ہے اور اس کو کھانے پینے، رہنے اور لباس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں اس کو علمی اور عملی کمال کے حصول سے مانع ہوتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان عوارض اور موانع کے باوجود عبادت کرنا اور علمی اور عملی کمال حاصل کرنا، ان کی عبادت سے بہت افضل ہے جن کو عبادت کرنے سے کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں ہے، اس لیے انسان کا عبادت کرنا فرشتوں کی عبادت کرنے سے بہت افضل ہے۔ (شرح عقائد نسفی ملخصا، ص ١٢٦، کراچی)
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 38