أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا يُقَالُ لَـكَ اِلَّا مَا قَدۡ قِيۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِكَ ‌ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوۡ مَغۡفِرَةٍ وَّذُوۡ عِقَابٍ اَ لِيۡمٍ۞

ترجمہ:

(اے رسول مکرم ! ) آپ کے خلاف وہی باتیں کہی جارہی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں کے خلاف کہی جاتی رہی ہیں، بیشک آپ کا رب (مؤمنوں کے لیے) ضرور مغفرت والا ہے اور (کافروں کے لیے) درد ناک عذاب والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(اے رسول مکرم ! ) آپ کے خلاف وہی باتیں کہی جارہی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں کے خلاف کہی جاتی رہی ہیں، بیشک آپ کا رب (مؤمنوں کے لیے) ضرور مغفرت والا ہے اور (کافروں کے لیے) درد ناک عذاب والا ہے اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں کردیتے تو وہ ضرور کہتے کہ اس کی آیتیں تفصیل سے کیوں نہیں بیان کی گئیں، کیا کتاب کی زبانہ عجمی ہو اور رسول کی زبان عربی ہو ؟ آپ کہیے : یہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایات اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے، ان لوگوں کو بہت دور سے ندا کی جارہی ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 44-43)

کفار کی دل آزار باتوں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ملحدین کو ڈرایا اور دھمکایا تھا، پھر قرآن مجید کی آیات کی عظمت اور شرف کو بیان فرمایا اور کتاب اللہ کے درجہ کی بلندی کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے مضمون سابق کو دہرایا اور وہ یہ ہے : ” اور کافروں نے کہا : آپ ہمیں جس دین کی طرف بلا رہے ہیں، ہمارے دلوں میں اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایک حجاب ہے سو آپ اپنا کام کریں اور بیشک ہم اپنا کام کرنے والے ہیں “ (حٰم ٓ السجدۃ :5) پھر اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ کے خلاف وہی باتیں کہی جارہی ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں کے متعلق کہی جاتی رہی ہیں، یعنی جس طرح پہلے رسولوں پر طعن کیا جاتا تھا اور ان کے متعلق دل آزار باتیں کی جاتی تھیں سو ایسی ہی باتیں آپ کے متعلق بھی کی جارہی ہیں، لہٰذا آپ اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیجئے اور اللہ کے دین کی تبلیغ اور دعوت میں مشغول رہیے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 43