وَاِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَى الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِيۡضٍ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 51
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَى الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِيۡضٍ ۞
ترجمہ:
اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر (ہم سے) دور ہوجاتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا ہوجاتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر (ہم سے) دور ہوجاتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے والا ہوجاتا ہے آپ کہیے کہ بھلا یہ بتائو کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہو اور تم نے اس کا کفر کیا ہو تو اس سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہوگا جو مخالفت میں حق سے بہت دور چلاجائے ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں اطراف عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے نفسوں میں بھی حتیٰ کہ ان پر منکشف ہوجائے گا کہ یہ قرآن برحق ہے، کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ آپ کا رب ہر چیز پر گواہ ہے سنو بیشک ان کو اپنے رب سے ملاقات کے متعلق شک ہے، سنو وہ ہر چیز پر محیط ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 51-54)
حٰم ٓ السجدۃ : ٥١ میں فرمایا ہے :” اور جب ہم انسان (یعنی کافر) پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر ہم سے دور ہوجاتا ہے “
حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت میں انسان سے مراد عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف ہیں، جنہوں نے اسلام سے منہ پھیرلیا اور اس سے دور ہوگئے اور یہ فرمایا : ” اور پہلو بچا کر (ہم سے) دور ہوجاتا ہے “ اس کا معنی ہے : وہ حق کی اطاعت اور اتباع کرنے سے خود کو بلند سمجھتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے سامنے تکبر کرتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو پھر لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے، یعنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور گڑ گڑاتا ہے اور فریاد کرتا ہے اور کافر مصیبت میں اپنے رب کو پہچانتا ہے اور راحت میں اپنے رب کو نہیں پہچانتا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 51