وَاِمَّا يَنۡزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 36
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِمَّا يَنۡزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞
ترجمہ:
اور (اے مخاطب ! ) جب کبھی شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، بیشک وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شیطان کے وسوسوں سےمحفوظ رہنا
حٰم ٓ السجدۃ : ٣٦ میں فرمایا : ” اور (اے مخاطب ! ) جب کبھی شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، بیشک وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔ “
اس آیت میں ” نزغ “ کا لفظ ہے، علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ نے اس کے حسب ذیل معانی لکھے ہیں :
کسی چیز میں طعن کرنا، کسی کی غیبت کرنا، لوگوں کے درمیان فساد ڈالنا، کسی کو بہکانا اور ورغلانا اور کسی کو وسوسہ ڈالنا۔ (القاموس المحیط ج ٣ ص ١٦٦، داراحیاء التراث الاسلامی، بیروت، ١٤١٢ ھ)
علامہ محمد بن مکرام ابن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :
حٰم ٓ السجدۃ : ٣٦ میں اس کا معنی ہے : انسان کے دل میں وسوسہ ڈالنا اور اس کو گناہ کرنے کے لیے بہکانا۔ (لسان العرب ج ٨ ص ٤٥٤، نشر ادب الحوذۃ، ایران، ١٤٠٥ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ اے مخاطب ! اگر شیطان تمہارے دل میں کوئی وسوسہ ڈالے اور تم کو اس حکم پر عمل کرنے سے روکے کہ تم بدی کا جواب نیکی سے اور بُرائی کا جواب اچھائی سے دو تو تم اس کے وسوسہ سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
ہم نے اس آیت کو اس پر محمول کیا ہے کہ اس میں عام انسان سے خطاب ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شیطان کے وسوسہ ڈالنے سے محفوظ ہیں، حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص کے ساتھ جنات میں سے ایک ساتھی مسلط کردیا جاتا ہے، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ کے ساتھ بھی ؟ آپ نے فرمایا : میرے ساتھ بھی، مگر یہ کہ اللہ نے اس کے خلاف میری مدد فرمائی، وہ مسلمان ہوگیا اور وہ مجھے نیکی کے سوا اور کوئی مشورہ نہیں دیتا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨١٤، مسند احمد ج ١ ص ٣٨٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ٦ ص ١٥٩، رقم الحدیث : ٣٦٤٨، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٦ ھ، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٥٢٣، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٥١٤٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤١٧، دلائل النبوۃ ج ٧ ص ١٠١، مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤٣٨، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٢٥، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن مسعود رقم الحدیث : ٨٣٣)
قاضی عیاض متوفی ٥٤٤ ھ اور علامہ نووی متوفی ٦٧٦ ھ نے لکھا ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جسم میں شیطان کے ڈالے ہوئے مرض سے اور اپنے دل میں اس کے وسوسہ سے اور اپنی زبان میں اس کے کلام سے معصوم ہیں۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٨ ص ٣٥١، صحیح مسلم بشرح النووی ج ١١ ص ٧٠٠٨)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حضرت آدم کے اوپر دو خصلتوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے (١) میرا شیطان کافر تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف میری مدد کی، وہ مسلمان ہوگیا اور میری ازواج میری (نیکیوں میں) مددگار ہیں۔ (٢) حضرت آدم کا شیطان کافر تھا اور ان کی بیوی ان کی (ظاہری) معصیت پر ان کی مددگار تھیں۔ (دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٤٨٨، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٤٧٩٦، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٥٨٨٥، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١٩٣٦، تاریخ بغداد ج ٣ ص ٣٣١)
غصہ نہ کرنے اور معاف کردینے کی فضیلت میں قرآن اور سنت کی تصریحات
انسان جو کسی پر غضب ناک ہوتا ہے تو دراصل یہ بھی شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے ہوتا ہے، انسان کو چاہیے کہ جب اسے کسی بات پر غصہ آئے تو وہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور صبر کرے اور جس پر غصہ آیا ہے اس کو معاف کردے اور اس کی قرآن اور سنت میں بہت فضیلت ہے۔
والکظمین الغیظ والعافین عن الناس، واللہ یحء المحسنین۔ (آل عمران :134)
غصہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
والذین یجتلبون کبئرالاثم والفواحش واذا ما غضبوا ھم یغفرون۔ (الشوریٰ :37)
اور جو لوگ کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائی کے کاموں سے اجتناب کرتے اور جب وہ (کسی بات پر) غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں۔ حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ ختم ہوجائے تو فبہا ورنہ وہ لیٹ جائے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٨٢، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٦٥٩، جامع المسانید والسنن مسند ابی ذر رقم الحدیث : ١١٤٨٦)
حضرت سلیمان بن صردرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامے دو آدمی ایک دوسرے سے لڑے، ان میں ایک غضب ناک ہوا، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : مجھے ایک ایسے جملہ کا علم ہے کہ اگر وہ یہ جملہ کہہ دے تو اس کا غضب فرو ہوجائے گا، وہ جملہ یہ ہے : اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، ایک شخص جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی تھی وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا : تم جانتے ہو کہ ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا تھا ؟ اس نے کہا : نہیں، اس نے کہا : آپ نے فرمایا تھا : مجھے ایسے جملہ کا علم ہے کہ اگر اس نے وہ جملہ کہہ دیا تو اس کا غصہ ختم ہوجائے گا، وہ جملہ ہے : اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، اس شخص نے کہا : کیا تم مجھے دیوانا سمجھتے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦١٠)
ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ ہم عروہ بن محمد کے پاس گئے، ان سے ایک شخص نے ایسی بات کہی جس سے وہ غضب ناک ہوگئے، پھر انہوں نے اٹھ کر وضو کیا اور کہا : میرے والد نے میرے دادا عطیہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک غضب شیطان کی جانب سے ہوتا ہے اور بیشک شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ صرف پانی سے بجھائی جاتی ہے، پس جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہو تو وہ وضو کرے۔ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٨٤، مسند احمدج ٤ ص ٢٢٦ )
حضرت معاذ بن انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنے غصہ کے تقاضے کو پورا کرنے پر قادر ہو اس کے باوجود وہ اپنے غصے کو ضبط کرلے تو قیامت کے دن سبحانہ اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلا کر فرمائے گا : تم بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جس حور کو چاہو لے لو۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٧٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٠٢١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٨٦)
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا تھا اس کی ہم کو خبر دے دی، اس کو یاد رکھا جس نے یادرکھا اور جو اس کو بھول گیا وہ بھول گیا، اس اثناء میں آپ نے فرمایا : بیشک دنیا سرسبز اور میٹھی ہے اور بیشک اللہ تم کو اس دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھنے والا ہے کہ تم اس دنیا میں کیا کرتے ہو، سنو دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، نیز آپ نے فرمایا سنو کسی آدمی کا رعب تمہیں حق بات کہنے سے نہ روک دے، جب کہ تم کو اس کا علم ہو، پھر حضرت ابوسعید رونے لگے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! ہم نے بہت سی ایسی چیزیں دیکھیں جن سے ہم مرعوب ہوگئے، آپ نے مزید فرمایا : سنو ! ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا، جس کی مقدار اس کی عہد شکنی کے برابر ہوگی اور سربراہ مملکت سے عہد شکنی سے بڑی اور کوئی عہد شکنی نہیں، اس کی عہد شکنی کا جھنڈا اس کی سرین کے پاس گاڑ دیا جائے گا اور اس کی احادیث میں ہم کو یاد ہے، آپ نے فرمایا : سنو ! بنو آدم کو مختلف طبقات میں پیدا کیا گیا ہے، سنو ان میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو دیر میں غصہ آتا ہے اور جلدی چلا جاتا ہے اور ان میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کو جلد غصہ آتا اور جلد چلا جاتا ہے اور یہ برابر سربرا ہے اور بعض وہ ہوتے ہیں جن کو جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے، سنو ان میں سب سے افضل وہ لوگ ہیں جن کو دیر میں غصہ آئے اور جلد چلا جائے اور سب سے بدتر وہ ہیں جن کو جلد غصہ آئے اور دیر میں جائے، سنو ! بیشک غغضب ابن آدم کے دل میں ایک چنگاری ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ غضب ناک شخص کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور اس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، پس جس شخص کی یہ کیفیت ہو اس کو چاہیے کہ وہ زمین پر لیٹ جائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٩١، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧٥٢، مسند احمد ج ٣ ص ٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٧٣، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ١١٠١، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٧ ص ٩١، دلائل النوۃ ج ٦ ص ٣١٧، جامع المسانید والسنن مسند ابوسعید الخدری رقم الحدیث : ١٠٤٥ )
غصہ کرنے کے دینی اور دنیاوی نقصانات
غصہ نہ کرنے اور غیظ وغضب کے تقاضوں کو ترک کرنے اور معاف کرنے کے حسب ذیل فوائد ہیں :
(١) غصہ کرنے سے بلڈپریشر بڑھتا ہے اور بلڈپریشر کا مریض غصہ کرے تو اس کو فالج ہونے کا خطرہ ہے یا دماغ کی رگ پھٹ جانے کا، ہمارے علاقے میں ہائی بلڈپریشر کے ایک مریض ہیں، وہ کسی بات پر غصہ ہوئے اور ان کے پورے جسم پر فالج ہوگیا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
(٢) جب آدمی غصہ کو ترک کرتا ہے اور انتفام نہیں لیتا تو وہ صبر کرنے کی اعلیٰ صفت سے متصف ہوتا ہے۔
(٣) غیظ وغضب میں وہی شخص آتا ہے جس میں تفاخر اور تکبر ہو اور یہ جاہلیت کی صفت ہے اور غصہ میں نہ آنا انسان کے منکسر المزاج اور متواضع ہونے کی دلیل ہے۔
(٤) شیطان انسان کے خون کو جوش میں لاتا ہے تاکہ انسان کو دینی اور دنیاوی نقصان ہو اور مسلمان اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر غصہ کو دور کرتا ہے اور حلم اور صبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے۔
(٥) غصہ روکنے پر اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم سے مد دحاصل کرنی چاہیے اور وضو کرنے سے، پانی پینے سے اور اپنی حالت بدلنے سے کہ اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔
(٦) وہ غصہ مذموم ہے جو دنیاوی امور اور اپنے ذاتی معاملات میں ہو اور جو غصہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالفوں اور دشمنوں پر ہو اور اللہ کی حدود کے توڑنے پر ہو اور دین کی سربلندی اور احیاء سنت کے لیے ہو وہ غصہ محمود ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 36