وَلَئِنۡ اَذَقۡنٰهُ رَحۡمَةً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُ لَيَقُوۡلَنَّ هٰذَا لِىۡ ۙ وَمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً ۙ وَّلَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰى رَبِّىۡۤ اِنَّ لِىۡ عِنۡدَهٗ لَـلۡحُسۡنٰى ۚ فَلَـنُنَـبِّـئَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَلَـنُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِيۡظٍ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 50
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَئِنۡ اَذَقۡنٰهُ رَحۡمَةً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُ لَيَقُوۡلَنَّ هٰذَا لِىۡ ۙ وَمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً ۙ وَّلَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰى رَبِّىۡۤ اِنَّ لِىۡ عِنۡدَهٗ لَـلۡحُسۡنٰى ۚ فَلَـنُنَـبِّـئَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا وَلَـنُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِيۡظٍ ۞
ترجمہ:
اگر ہم اس کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا ذائقہ چکھائیں تو وہ یہ ضرور کہے گا کہ میں بہر صورت اس کا حق دار تھا اور میں یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو بیشک اس کے پاس میری خیر ہوگی، پس ہم ضرور کافروں کو ان کے کاموں کی خبر دیں گے اور ہم ان کو ضرور سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے
تفسیر:
حٰم ٓ السجدۃ : ٥٠ میں فرمایا : ” اگر ہم اس کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا ذائقہ چکھائیں تو وہ یہ ضرور کہے گا کہ میں بہر صورت اس کا حق دار تھا “ اس آیت میں اور کلیف سے مراد بیماری، سختی اور فقر ہے اور رحمت سے مراد وسعت، کشادگی اور دولت ہے، وہ کہتا ہے کہ میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے اس رحمت کا مستحق تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ میرے اعمال سے راضی تھا اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ان نعمتوں کا دینا اللہ تعالیٰ پر واجب تھا اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں دے کر اس کوا متحان میں مبتلا کیا ہے تاکہ مصائب پر اس کا صبر اور انعامات پر اس کے شکر کا اظہار ہو۔ اس کے بعد فرمایا : ” اور میں یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو بیشک اس کے پاس میری خیر ہوگی “
اس آیت میں حسنیٰ اور خیر سے مراد جنت ہے، وہ بغیر کسی نیک عمل کے جن کی تمنائیں کرتا ہے۔ حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب نے کہا : کافر کی دو تمنائیں ہوں گی : دنیا میں اس کی یہ تمنا ہوگی کہ اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو اس کے پاس میری خیر یعنی جنت ہوگی اور آخرت میں اس کی یہ تمنا ہوگی کہ اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو اس کے پاس میری خیر یعنی جنت ہوگی اور آختر میں اس کی یہ تمنا ہوگی :: اے کاش ! ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ہم مومنوں سے ہوجائیں۔ (الانعام :27)
پھر فرمایا : ” پس ہم ضرور کافروں کو ان کے کاموں کی خبر دیں گے “ یعنی کافروں کو ان کے اعمال کی سزا دیں گے، اس آیت میں لام قسمیہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ قسم کھا کر یہ بات فرماتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 50