أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَا تَسۡتَوِى الۡحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِىۡ بَيۡنَكَ وَبَيۡنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِىٌّ حَمِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے، سو آپ برائی کو اچھے طریقے سے دور کریں، پس اس سے جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسے وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے

حٰم ٓ السجدۃ : ٣٤ میں فرمایا :” اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے، سو آپ برائی کو اچھے طریقے سے دور کریں، پس اس وقت جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسے وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے۔ “

نیکی اور بدی کی تفسیر میں علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی نے حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں :

(١) ابن عیسیٰ نے کہا : نیکی سے مراد نرم بات ہے اور بدی سے مراد سخت اور تلخ بات ہے۔

(٢) نیکی سے مراد صبر کرنا ہے اور بدی سے مراد انتقام لینا ہے۔

(٣) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : نیکی سے مراد ایمان ہے اور بدی سے مراد شرک اور کفر ہے۔

(٤) ابن عمبیر نے کہا : نیکی سے مراد معاف کرنا ہے اور بدی سے مراد انتقام لینا ہے۔

(٥) ضحاک نے کہا : نیکی سے مراد حلم اور بردباری ہے اور بدی سے مراد تندخوئی، بدمزاجی اور فحش کلام ہے۔

(٦) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : نیکی سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل سے محبت کرنا ہے اور بدی سے مراد ان سے بغض رکھنا ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١٨٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جو شخص تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے تم اس کے ساتھ بردباری سے پیش آئو، امام ابوبکر بن العربی نے کہا : نیکی سے مراد مصافحہ کرنا ہے، حدیث میں ہے :

عطاء بن ابی مسلم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایک دوسرے سے مصافحہ کرو، یہ کینہ کو دور کرتا ہے اور ایک دوسرے کو تحفے دو اور ایک دوسرے سے محبت رکھو اس سے بغض دور ہوتا ہے۔ (موطاء امام مالک رقم الحدیث : ١٧٣١، ج ٢ ص ٤٠٧، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب دو مسلمان ملاقات کرتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر محبت اور خیرخواہی سے مصافحہ کرتا ہے تو ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٢١٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٢٧، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٥٧٣)

حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں یہ روایت بھی ہے کہ اگر کوئی شخص تم کو بُرا کہے تو تم اس سے کہو اگر تم صادق ہو تو اللہ مجھے معاف کرے اور اگر تم کاذب ہو تو اللہ تمہیں معاف فرمائے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو ایک شخص نے بُرا کہا تو انہوں نے اس کو اسی طرح جواب دیا تھا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٣٢٣۔ ٣٢٢، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حسن اخلاق کے متعلق احادیث

اس کے بعد فرمایا : ” سو آپ بُرائی کو اچھے طریقے سے دور کریں، پس اس وقت جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے جیسے وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے۔ “

اس آیت میں حسن اخلاق کی تلقین کی گئی ہے اور حسن اخلاق کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آخری وصیت اس وقت کی جب میں گھوڑے کی رکاب میں پیررکھ رہا تھا، آپ نے فرمایا : اے معاذ بن جبل ! لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٧١٦، ج ٢ ص ٤٠٣، دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا آپ ان میں سے آسان کام کو اختیار کرتے تھے، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ اس کام سے سب سے زیادہ دور ہونے والے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا الایہ کہ کہ اللہ کی حدود توڑی جائیں، اگر اللہ کی حدود توڑی جاتیں تو آپ اللہ کے انتقام لیتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٦٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩٩٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٨٥، جامع المسانید والسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٨٨٢)

حضرت علی بن حسین بن علی ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی شخص کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ فضول اور بےمقصد باتوں اور کاموں کو ترک کردے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣١٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٧٦)

یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ انسان اپنے حسن اخلاق سے رات کو نماز میں قیام کرنے والے اور دن میں روزہ رکھنے والے کے اجر کو پالیتا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٩٨، موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٧٢١ )

سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں : کیا میں تم کو اس کام کی خبر نہ دوں جس میں نماز اور صدقہ سے بہت زیادہ خیر ہے ؟ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں، انہوں نے کہا : دو آدمیوں میں صلح کرانا اور تم بغض رکھنے سے اجتناب کرو، یہنیکیوں کو کاٹ ڈالتا ہے۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٧٢٢، ج ٢ ص ٤٠٤، بیروت)

امام مالک فرماتے ہیں کہ ان کو یہ حدیث پہنچی کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تم میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کو مکمل کردوں۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٧٢٣، ج ٢ ص ٤٠٤)

حضرت عبدالرحمان بن عوٹ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کیا : یارسول اللہ ! مجھے چند ایسی باتیں بتائیں جو زندگی میں میرے کام آئیں اور زیادہ باتیں نہ بتائیں ورنہ میں بھول جائوں گا، آپ نے فرمایا : تم غصہ نہ کیا کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١١٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٢٠ )

حضرت ابوہریرہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھ کے، وہ دونوں ایک دوسرے کے پاس سے گزریں، ایک اس طرف منہ کرلے، دوسرا اس طرح منہ کرلے، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کے ساتھ ابتداء کرے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٧٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩١١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٣٢)

علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ خطرہ ہو کہ اگر وہ فلاں شخص سے گفتگو کرے گا اور اس سے راہ ورسم رکھے گا تو اس سے اس کے دین میں ضرر پہنچے گا، یا اس کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے اس کو کوئی دنیاوی نقصان پہنچے گا تو وہ تین دن کے بعد بھی اس سے قطع تعلق رکھ سکتا ہے، نیز قرآن اور سنت میں یہ حکم ہے کہ ظالموں، بدعتیوں اور فساق اور فجار سے قطع تعلق کرنا لازم ہے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ ناپسندیدگی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٧٦، سنن ابودائود رقم الحدیث ٤٩١٠ سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٣٥، جامع المسانید والسنن مسند انس بن مالک رقم الحدیث : ٣٠٨٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم بدگمانی کرنے سے بچو، کیونکہ بدگمان سب سے جھوٹی بات ہے اور لوگوں کے متعلق تجسس نہ کرو اور دنیا میں رغبت نہ کرو اور حسد نہ کرو اور بغض نہ کرو اور ایک دوسرے سے اعراض نہ کرو اور اے اللہ کے بندہ ! بھائی بھائی ہوجائو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٦٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩١٧، موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٧٣٠)

بدگمانی نہ کرنے کا محمل یہ ہے کہ بغیر کسی دلیل کے کسی کے دین داری میں بدگمانی نہ کرو اور تجسس نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے عیوب تلاش نہ کرو اور دنیا میں رغبت نہ کرو کا معنی یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں کی وجہ سے دوسروں کو حقیر اور کم تر نہ جانو اور حسد نہ کرو کا معنی ہے : کسی کے پاس دنیاوی نعمتیں دیکھ کر اس سے حسد نہ کرو، ہاں کسی کی دینی نعمتوں پر رشک کرنا مستحسن ہے کہ اس کے پاس یہ نعمت رہے اور مجھے بھی مل جائے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال ہر جمعہ کو دو بار پیش کیے جاتے ہیں اور پیر کو اور جمعرات کو، پھر ہر عبد مومن کی مغفرت کردی جاتی ہے، سو اس بندے کو جو اپنے بھائی سے (غیرشرعی) بغض رکھتاہو (فرشتوں سے) کہا جاتا ہے : ان دونوں کو رہنے دو حتیٰ کہ یہ صلح کرلیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٢، موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٨٣٣)

 

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 34