وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡاۚ وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡاۚ وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو صبر کرتے ہوں اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوں
لوگوں کی زیادتی پر صبر کرنا اور انہیں جواب نہ دینا اولوالعزم لوگوں کا طریقہ ہے
حٰم ٓ السجدۃ : ٣٥ میں فرمایا : ” اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو صبر کرتے ہوں اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوں۔ “ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کا کوئی ماتحت اس کی نافرمانی کرے یا اس کے مزاج کے خلاف کوئی کام کرے تو وہ جوش غضب میں آکر اس کو سخت سزا دیتا ہے، یا کوئی شخص کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کرے تو وہ اس سے انتقام لینے پر تل جاتا ہے اور ایسے مواقع پر ضبط کرنا اور اپنے سرکش نفس کو صبر اور ضبط کے ساتھ قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ہے :
وجزاو سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظلمین۔ (الشوریٰ :40) اور بُرائی کا بدلہ اسی کی مثل بُرائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے اور بیشک اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ ولمن صبروغفران ذلک لمن عزم الامور۔ (الشوریٰ :41)
اور جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو بیشک یہ ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ اور صبر کا یہ عظیم مقام وہی لوگ پاسکتے ہیں جو بڑے نصیب والے ہوں۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوبکر (رض) کو ایک شخص نے گالی دی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دیکھ رہے تھے، پہلی ساعت میں حضرت ابوبکر (رض) نے معاف کردیا، پھر ان کا غضب جوش میں آیا اور انہوں نے بھی اس کو بُرا کہا، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھ گئے، حضرت ابوبکر آپ کے پیچھے گئے اور کہا : اس شخص نے مجھے گالی دی تھی، پہلے تو میں نے اس کو معاف کردیا اور درگزر سے اٹھ گیا آپ بھی تشریف فرما تھے، پھر جب میں اس سے بدلہ لینے لگا تو آپ اٹھ گئے یا نبی اللہ ! تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری طرف سے ایک فرشتہ اس کو جواب دے رہا تھا اور جب تم بدلہ لینے لگے تو وہ فرشتہ چلا گیا اور شیطان آگیا۔ پس اے ابوبکر ! میں شیطان کے ہوتے ہوئے وہاں پر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٣٥٧٩، دارالفکر، بیروت)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص فضائل کی نفسانیہ اور قوت روحانیہ سے متصف ہو اور وہ صاحب نفس مطمئنہ ہو وہی غضب کے موقع پر صبر کرسکتا ہے کیونکہ وہی شخص انتقام لینے میں مشغول ہوگا جس کا نفس ضعیف ہو بلکہ جو صاحب نفس امارہ ہو کیونکہ جس کا نفس قوی ہوتا ہے اور وہ صاحب نفس مطمئنہ ہو وہ ایسے واقعات سے متاثر نہیں ہوتا جو موجب غضب ہوں، خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے باطن کو صاف کرے حتیٰ کہ اس کے نزدیک تلخ اور شیریں اور پسندیدہ اور ناپسندیدہ امور برابر ہوجائیں۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا حضرت ابوبکر (رض) کا نفس قوی نہیں تھا اور وہ صاحب نفس مطمئنہ نہیں تھے، پھر انہوں نے بعد میں اس شخص کو جواب دینا کیوں شروع کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) کا یہ فعل بظاہر خلاف اولیٰ تھا لیکن حقیقت میں ہماری نیکیوں سے افضل تھا کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) کا یہ فعل ہی اس کا سبب بنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مشاہد کیا کہ جب انسان کسی کی زیادتی پر صبر کرے اور خود بدلہ نہ لے تو فرشتہ اس کی طرف سے جواب دیتا رہتا ہے۔
بعض لوگوں نے بعدمسائل میں مجھ سے اختلاف کیا ہے اور اس اختلاف کی بناء پر وہ مجھے سب وشتم کرتے رہتے ہیں اور انہوں نے میرے خلاف مضامین شائع کیے اور مختلف کتابچے بھی لکھے جن میں مجھے جی بھر کر کو سا، میں نے ان میں سے کسی کو جواب نہیں دیا، میں صرف یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے غیظ وغضب میں برحق ہیں تو اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے اور اگر میں حق پر ہوں تو اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 35