وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 33
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اس سے عمدہ کلام کس کا ہوسکتا ہے جو اللہ (کے دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور اس سے عمدہ کلام کس کا ہوسکتا ہے جو اللہ (کے دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے، سو آپ برائی کو اچھے طریقے سے دور کریں، پس اس وقت جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسے وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو صبر کرتے ہوں اور یہ صفت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوں اور (اے مخاطب ! ) جب کبھی شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، بیشک وہ بہت سننے والا، خوب جاننے والا ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 33-36)
سابقہ آیات سے مناسبت
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ایسے اقوال نقل فرمائے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے سخت اعراض کرتے ہیں، مثلاً انہوں نے کہا : آپ ہمیں جس دین کی طرف بلا رہے ہیں اس کے خلاف ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ (حٰم ٓ السجدۃ : ٥) اور انہوں نے کہا : اس قرآن کو مت سنو اور اس کی قرأت میں لغو باتیں کرو۔ (حٰم ٓ السجدۃ : ٢٦) اب گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرمایا : ہرچند کہ اہل مکہ نے بہت دل آزار اور سنگین باتیں کہی ہیں لیکن آپ ان باتوں سے متاثر نہ ہوں اور ان کو اسی طرح پیہم تبلیغ کرتے رہیں کیونکہ دن حق کی دعوت دینا سب سے بڑی عبادت اور سب سے اہم اطاعت ہے، اس لیے فرمایا : اور اس سے عمدہ کلام اور کس کا ہوسکتا ہے جو اللہ (کے دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے۔
سابقہ آیات سے مناسبت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کی فضیلت کا ایک مرتبہ یہ ہے کہ وہ بری صفات کو ترک کرکے اور نیک صفات کو اپنا کر خود کامل ہوجائے اور اس سے بھی بڑی فضیلت یہ ہے کہ خود کامل ہونے کے بعددوسروں کو کامل بنائے، تو اس سے پہلی آیت میں انسان کے کامل ہونے کا مرتبہ بیان فرمایا تھا کہ بیشک جن لوگوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ اس پر مستقیم رہے۔ (حٰم ٓ السجدۃ : ٣٠) اور اس آیت میں انسان کے کامل گر ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور یہ انسان کی زیادہ بڑی فضیلت ہے۔
واعظ اور مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے وعظ پر خود بھی عمل کرے
اس آیت میں فرمایا ہے :” جو اللہ (کے دین) کی دعوت دے “ یعنی اللہ پر ایمان لانے اور اس کے تمام احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے، اس کے بعد فرمایا : ” وہ نیک کام کرے “ کیونکہ جو شخص خود نیک کام نہ کرے اور لوگوں کو نیک کام کرنے کی دعوت دے، وہ اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا مستحق ہے، قرآن مجید میں ہے :
یایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون (الصف :2) اے ایمان والو ! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون (الصف :3) اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناراضگی والی ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر خود عمل نہیں کرتے اور جب انسان وعظ اور تبلیغ کرے اور خود اس پر عمل نہ کرے تو اپنے حکم کی نافرمانی کرنے والا سب سے پہلا شخص وہ خود ہوگا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے دین میں دعوت دینے والے کے ساتھ یہ ذکر فرمایا کہ وہ نیک کام کرے۔ حدیث میں ہے :
حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں اس کے پیٹ سے نکل کر بکھر جائیں گی اور وہ ان کے ساتھ اس طرح چکر کاٹ رہا ہوگا، جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے، تمام دوزخی اس کے گرد اکھٹے ہوجائیں گے اور کہیں گے : اے فلاں شخص ! کیا بات ہے ؟ کیا تم ہم کو نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے ؟ اور برائی سے نہیں روکتے تھے ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں، میں تم کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود نیک عمل نہیں کرتا تھا اور میں برے کاموں سے روکتا تھا اور خود برے کام کرتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٩٨۔ ٣٢٦٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٨٩)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شب معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جس کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ میں نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ مجھے بتایا گیا یہ دنیا دار خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے، حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے تھے، کیا پس وہ عقل نہیں رکھتے تھے ؟ (اس حدیث کی سند صحیح ہے) ۔
(مسند احمد ج ٣ ص ١٢٠ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٩ ص ٢٤٤، رقم الحدیث : ١٢٢١١، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ، کتاب الزھد لوکیع رقم الحدیث : ٢٩٧، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٩٩٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٤٥٩، شعب الایمان رقم الحدیث : ٤٩٦٥، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٦٣٤)
” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ یا ” میں بالیقین مومن ہوں “ کہنے کی تحقیق
اس آیت میں فرمایا ہے : ” اور کہے کہ بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس قول کو سب سے عمدہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا داعی اور مبلغ کہے : میں بیشک مسلمانوں میں سے ہوں اور یہ شرط نہیں عائد کہ کہ وہ کہے کہ انشاء اللہ میں مسلمانوں میں سے ہوں، اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ آیا کہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں بالیقین مسلمانوں میں سے ہو یا نہیں بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ کہے : انشاء اللہ میں مومن ہوں۔
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ اس مسئلہ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اکثر متقدمین کا یہ مذہب ہے اور امام شافعی بھی ان ہی میں سے ہیں اور حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی روایت ہے کہ یہ کہنا چاہیے کہ انشاء اللہ میں مومن ہوں اور اکثر علماء نے منع کیا ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مؤقف ہے، کیونکہ مومن وہ شخص ہے جس کو اللہ عزوجل کے واحد ہونے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تصدیق ہو اور یہ تصدیق ہر شخص کو معلوم ہوتی ہے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہ نہیں ہوتا اور جس کو اس تصدیق کے حصول میں تردد ہو وہ مومن ہو ہی نہیں سکتا اور جب کسی شخص کو اپنے مومن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے تو وہ یقین کے ساتھ کہے : بیشک میں مومن ہوں اور اس کے ساتھ انشاء اللہ نہ کہے تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ وہ مومن نہیں ہے، کیونکہ انشاء اللہ اس چیز کے متعلق کہا جاتا ہے جو اس وقت حاصل نہ ہو اور مستقبل میں اس کا حصول متوقع ہو، اس لیے اولیٰ یہ ہے کہ اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنے کو ترک کردیا جائے۔
اور جو علماء کہتے ہیں کہ انشاء اللہ میں مومن ہوں کہا جائے، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
(١) میں مومن ہوں کے ساتھ اللہ کا ذکر تبرک کے لیے کیا جاتا ہے اور ادب کا تقاضا یہی ہے کہ تمام کام اللہ کی مشیت کے حوالے کردیئے جائیں اور خود ستائی سے گریز کیا جائے اور رہا یہ کہ انشاء اللہ کہنے سے شک اور تردد کا وہم ہوتا ہے تو وہ مستقبل کے اعتبار سے ہے، یعنی جس طرح میں اب مومن ہوں انشاء اللہ مستقبل میں بھی مومن رہوں گا، لیکن یہ دلیل صرف یہ فائدہ دیتی ہے کہ انشاء اللہ میں مومن ہوں کہنا جائز ہے نہ یہ کہ یہ کہنا میں بیشک اور بالیقین مومن ہوں کہنے پر راجح ہے اور ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنے سے جو یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت مومن نہیں ہے، اس دلیل سے یہ ہم بھی دور نہیں ہوتا اور باقی رہا تبرک اور ادب کی وجہ سے ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنے کا جواز تو اس میں ایمان کی کیا تخصیص ہے دیگر اعمال اور طاعات کے ساتھ بھی یہ کہنا چاہیے، مثلاً انشاء اللہ میں نمازی ہوں، انشاء اللہ میں روزہ دار ہوں وغیرہ وغیرہ۔
(٢) جس تصدیق پر نجات کا مدار ہے وہ ایک مخفی چیز ہے اور شیطان اس کے زوال کے درپے رہتا ہے، اسی لیے انسان کو ہرچند کہ ایمان کے حصول کا یقین ہے لیکن اس کو یہ اطمینان نہیں ہے کہ اس کا ایمان سلامت رہے گا، ہوسکتا ہے کہ بیخبر ی میں اس کے منہ سے کوئی ایسی نکل جائے جو ایمان کے خلاف ہو، اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کو اللہ کے حوالے کردے اور یوں کہے : میں انشاء اللہ مومن ہوں، اس دلیل میں یہ سقم ہے کہ اگر بیخبر ی میں اس کے منہ سے کوئی کلمہ کفر نکل گیا ہے تو ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنا تو صحیح ہوگا لیکن وہ فی الواقع مومن نہیں ہوگا۔
(٣) امام الحرمین نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اس وقت مومن ہے لیکن جس ایمان پر نجات اور فوز و فلاح کا مدار ہے وہ یہ ہے کہ اس کا ایمان پر خاتمہ ہو، پس متقدمین کہتے ہیں کہ ایمان پر خاتمہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کردینا چاہیے خواہ بغیر کسی شک اور تردد کے وہ فی الحال مومن ہے، اور وہ ” انشاء اللہ میں مومن ہوں “ اسی اعتبار سے کہے، یعنی مرتے وقت کا ایمان اللہ کی مشیت پر موقوف ہے نہ کہ اس وقت کا ایمان، اب اس پر یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ جب وہ اس وقت ایمان سے متصف ہے تو ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنا صحیح نہیں ہے، جیسا کہ اس وقت وہ زندہ ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انشاء اللہ میں زندہ ہوں، کیونکہ وہ انشاء اللہ مومن ہوں جو کہہ رہا ہے وہ خاتمہ کے اعتبار سے کہہ رہا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کو وقت ایمان کے تحقق اور حصول میں کوئی شک نہیں ہے لیکن اس پر یقین نہیں ہے کہ اس کا ایمان آخر عمر تک ثابت اور قائم رہے گا، وہ برے خاتمہ سے ڈرتا ہے اور ایمان پر خاتمہ کی امید رکھتا ہے، اس لیے جس ایمان پر اس کی عذاب سے نجات اور اخروی فوزو فلاح کا مدار ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے کردیتا ہے تاکہ اس آیت کے تقاضے پر عمل ہو۔
ولا تقولن یشای انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ۔ (الکہف :23-24) اور آپ کسی کام کے متعلق ہرگز یوں نہ کہیں کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اس کام کے ساتھ انشاء اللہ کہیں۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص ٢١٧۔ ٢١٥، نشورات الرضی، رقم ایران، ١٤٠٩ ھ، شرح عقائدص ٩٦، کراچی)
واضح رہے کہ اس دلیل کا مفاد بھی صرف اتنا ہے کہ ایمان پر خاتمہ کی تاویل سے ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنا صحیح ہے نہ کہ مطلقا “ میں انشاء اللہ مومن ہوں “ کہنا صحیح ہے، کیونکہ جب وہ کہے گا : ” میں انشاء اللہ مومن ہوں “ تو اس سے متبادر یہی ہوگا کہ اس کو اس وقت ایمان کے حصول میں شک ہے اور اس آیت سے استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں مستقبل میں کیے جانے والے کاموں کے متعلق انشاء اللہ کہنے کی ہدایت دی ہے نہ کہ ان کاموں کے متعلق جن سے وہ اس وقت متصف ہے۔
قرآن اور سنت سے انبیاء اور مرسلین کی دعوت کا ثبوت
اس آیت میں اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کا ذکر ہے اور اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والا سب سے پہلے (١) انبیاء (علیہم السلام) کا گروہ ہے (٢) اس کے بعد علماء دین اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں (٣) اور ان کے بعد حکام اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں (٤) اور ان کے بعض مؤزنین ہیں (٥) اور آخری مرتبہ ہر مومن کا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلائے، سو یہ کل پانچ اقسام ہیں : ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں ہر داعی الی الخیر کی تھوڑی تھوڑی تفصیل ذکر کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق۔
(١) انبیاء علہیم السلام لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف معجزات سے، دلائل سے اور جہاد کے ذریعہ دعوت دیتے ہیں، ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
یایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشرا ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا (الاحزاب :45-46) اے نبی ! بیشک ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، گواہی دینے والا، ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا اور اللہ کے حکم سے اس کے دین کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ السنۃ وجادلھم بالتیھی احسن۔ (النحل :125)
لوگوں کو اپنے رب کی طرف حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان کے سامنے بہترین طریقہ سے دلائل پیش کیجئے۔ اور اس سلسلہ میں بعض احادیث یہ ہیں :
حضرت ابو موسیٰ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال اور اللہ نے جس دین کو دے کر مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک شخص کسی قوم کے پاس گیا اور ان سے جاکر کہا : میں نے تمہارے خلاف ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں تمہیں کھلا کھلا ڈرانیوالا ہوں، سو نجات حاصل کرو، نجات حاصل کرو، پس ایک جماعت نے اس کی بات مان لی اور وہ اپنی سہولت سے کسی طرف نکل گئے اور انہوں نے نجات پالی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٧٤)
قرآن اور سنت سے علماء دین کی دعوت کا ثبوت
(٢) اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والوں میں دوسرا درجہ علماء کا ہے، علماء کی دعوت الی الخیر اور ان کی اطاعت کرنے کے متعلق قرآن مجید کی یہ آیات ہیں :
یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم۔ (النساء :59)
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں صاحبان امر ہیں یعنی علماء کی۔
واذ اخذاللہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ فنبذوہ وراء ظھورھم واشتروا بہ ثمنا قلیلا فبئس مایشترون (آل عمران :187)
اور جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب (کے علماء) سے یہ عہد لیا کہ تم اس کتاب (کے احکام) کو ضرور لوگوں کے سامنے بیان کرو گے اور اس میں سی کسی حکم نہیں نہیں چھپائو گے تو انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اس کتاب کے بدلے میں تھوڑی قیمت لے لی، پس بری ہے وہ چیز جس کو وہ خریدتے تھے
اور علماء دین کے ذمہ جو دین کی دعوت دینے کے فرائض ہیں اس کے متعلق یہ احادیث ہیں :
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
صرف دو شخصوں پر رشک کرنا مستحسن ہے : ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہوا اور اسے اس مال کو حق کے راستے میں خرچ کرنے پر مسلط کردیا ہو اور ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم) عطا کی ہو اور وہ اس حکمت سے لوگوں کے فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨١٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨١٦، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٧٠٦)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص سے کسی چیز کے علم کے متعلق سوال کیا گیا اور اس نے اس کے علم کو چھپالیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈال دے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٥٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٥٤٨ )
حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو ہم سے کسی حدیث کو سنے، پھر اس کو یاد رکھے حتیٰ کے اس حدیث کی تبلیغ کرے، پس بعض حامل فقہ اس حدیث کو اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچادیں اور بعض حامل فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٦٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٥٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣٠)
سنن ابن ماجہ میں ان الفاظ کے بعد یہ اضافہ ہے : تین مسلمانوں کے دلوں میں کھوٹ نہیں آتا، جو اللہ کے لیے اخلاص سے عمل کرے، جو ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کرے اور جو مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ لازم رہے۔
علماء دین کی اقسام
امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
علماء کی تین اقسام ہیں : (١) علماء باللہ (٢) علماء صفات اللہ (٣) علماء باحکام اللہ۔
رہے علماء باللہ تو یہ حکماء ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یوتی الحکمۃ من یشاء ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرالکثیرا۔ (البقرہ :269)
وہ جس کو چاہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی۔
اور رہے علماء بصفات اللہ تو وہ علماء اصول ہیں (اصول سے مراد اصول فقہ، اصول تفسیر اور اصول حدیث ہے اور علم کلام بھی اسی میں داخل ہے)
اور رہے علماء باحکام اللہ تو اس سے مراد فقہاء ہیں (یعنی وہ علماء جو احکام شرعیہ کے عالم ہیں اور ہر پیش آمدہ مسئلہ کا حل قرآن اور سنت سے نکال سکتے ہیں اور اپنے امام کے اصول کے موافق اجتہاد کرنے اور مسائل کے استخراج پر قادر ہیں ) ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٦٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ اسمعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
علماء کی تین اقسام ہیں : (١) عالم باللہ غیر عالم بامر اللہ (٢) عالم بامر اللہ غیر عالم باللہ (٣) عالم باللہ وبامر اللہ۔
عالم باللہ غیر عالم بامر اللہ سے مراد وہ علماء ہیں جن کے دل پر معرفت الٰہیہ کا غلبہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات کے مشاہد میں مستغرق رہتے ہوں اور اس کی صفات کبریاء کے مطالعہ میں منہمک رہتے ہوں اور ان کو احکام شرعیہ کا تفصیلی علم حاصل کرنے کا موقع نہ ملے اور انہوں نے صرف قدر ضروری علم کے حصول پر اکتفاء کرلی ہو (جیسا کہ غوث عبدالعزیز دباغ (رح) ، یہ امی بزرگ تھے) ۔
عالم بامر اللہ غیر عالم باللہ سے مراد وہ علماء ہیں جن کو حلال اور حرام کی معرفت ہوا وہ احکام شرعیہ کے اسرار اور دقائق کے جاننے والے ہوں، لیکن ان کو اللہ تعالیٰ کی جلال ذات کے اسرار کی معرفت نہ ہو اور نہ وہ اس کے جمال کے محرم ہوں، خواہ وہ عارفین کے ماننے والے ہوں یا ان کا انکار کرنے والے ہوں (ان کو ظاہر شریعت کا عالم کہا جاتا ہے جیسا کہ آج کل کے معروف علماء ہیں) ۔
عالم باللہ وبامر اللہ سے مراد وہ علماء ہیں جو پہلی دونوں قسموں کے فضائل کے جامع ہوں، وہ کبھی اللہ کی محبت میں وارفتہ ہوتے ہیں اور کبھی مخلوق پر شفقت اور رحمت کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں، وہ جب اللہ کی یاد میں مشغول ہوتے ہیں تو گویا کہ مخلوق کو نہیں پہچانتے اور جب مخلوق کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں تو لگتا ہے ان ہی میں سے ایک ہیں، گویا کہ انہیں اللہ کی کوئی معرفت نہیں ہے، پس عارف مخلوق کو اللہ کی طرف دعوت دینا ہے اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے اسرار بیان کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈالتا ہے۔ پھر اس قدر کمال سے متصف ہونے کے باوجود تواضع اور انکسار سے کہتا ہے : بیشک میں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں اور یہ مرسلین اور صدیقین کا طریقہ ہے۔ (روح البیان ج ٨ ص ٣٤٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
قرآن اور سنت سے امراء اور حکام کی دعوت کا ثبوت
(٣) اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دینے والوں میں تیسرا درجہ امراء اور حکام کا ہے، یہ قوت اور اقتدار سے اور ہر دور کے مروج اور موثر ہتھیاروں سے کفار کے خلاف جہاد کرتے ہیں اور اللہ کے دن کو سربلند کرتے ہیں اور اسلام کی نشرواشاعت کرتے ہیں، اسلام کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں اور اپنے ملک میں اسلامی نظام کو قائم کرتے ہیں، اللہ کی حدود کو نافذ کرتے کرتے ہیں، نمازوں کی ادائیگی اور زکوٰۃ کی وصولیابی کا نظام قائم کرتے ہیں، فوج کا محکمہ، عدالتیں اور دینی درسگاہیں قائم کرتے ہیں اور بیت المال سے ناداروں، یتیموں، بیوائوں اور بےروزگاروں کے وظائف جاری کرتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :
الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واتوالزکوٰۃ وامرو بالمعروف ونھوا عن المنکر وللہ عاقبۃ الامور (الحج :41)
یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار عطا فرمادیں تو یہ نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کی وصولیابی کا نظام قائم کریں گے اور نیک کاموں کا حکم دیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے
وعداللہ الذین امنوامنکم وعملوا الصلحت لیسخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبد لنھم من بعد خوفھم امنا۔ (النور :55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، اللہ ان سے وعد فرما چکا ہے کہ ضرور بہ ضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ضرور ان کے لیے اپنے پسندیدہ دین کو محکم کردے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔
حضرت زہیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عدل اور انصاف کرنے والے قیامت کے دن نور کے منبروں پر ہوں گے، اللہ کے دائیں جانب ہوں گے اور اس کے دونوں جانب دائیں ہیں، جو لوگ اپنی رعیت میں عدل کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٨٢٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٧٩)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بنی اسرائیل کے انبیاء ان کا نظام حکومت چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوجاتا اور بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، عنقریب میرے خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، پس تم اوّل کی بیعت پوری کرو، پھراوّل کی بیعت پوری کرو اور ان کے حقوق ادا کرو، وہ اپنے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ان کا اللہ ان سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٥٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٧١)
قرآن اور سنت سے مؤذنین کی دعوت کا ثبوت
(٤) اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والوں میں چوتھا درجہ مؤذنین کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ اذان دیتے ہیں تو ہرچند کہ یہ بالذات نماز کی دعوت دیتے ہیں، لیکن اذان کے الفاظ اپنے اندر معنی کے وسیع سمندر کے سموئے ہوئے ہیں، اول تو نماز تمام عبادات کی جامع ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت ہے، نماز کے لیے صاف اور پاک کپڑا خریدنا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے اور یہ زکوٰۃ کے قریب ہے، حالت نماز میں کھانے پینے اور لذات نفسانیہ سے اجتناب ہے اور یہ روزے کے قریب ہے، قبلہ کی طرف منہ کرنا ہے اور اس میں حج بیت اللہ کی روح ہے، اپنے کاروبار اور آرام کو چھوڑ کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد کی طرف جانا اور یہ نفس کے ساتھ جہاد ہے اور یہ جہاد اکبر ہے، اس میں قرآن کی تلاوت ہے، تسبیحات کا پڑھنا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود کا پڑھنا ہے، مسلمانوں کی اور فرشتوں کی خیر خواہی ہے، ذکر اذکار ہے، توبہ ہے، گناہوں سے استغفار ہے، اعتکاف ہے، اور دعا ہے، غرض اسلام کی تمام اہم عبادات کا خلاصہ نماز میں ہے، پس جب مؤذن نماز کی طرف بلاتا ہے تو وہ اسلام کی تمام عبادات کی طرف بلاتا ہے اور اذان میں مؤذن فلاح کی طرف بلاتا ہے اور دین اور دنیا کی فلاح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہے، سو مؤذن جب دعوت دیتا ہے تو وہ بھی دین کی ایک اہم دعوت ہے، قرآن اور سنت میں اس کا ذکر ہے :
یایھالذین امنوا اذ نودی لصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذرو البیع ذلکم خیر الکم ان کنتم تعلمون (الجمعہ :9)
اے ایمان والوں ! جب جمعہ کے دن نماز کی اذان کہی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ، یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم کو علم ہے
اذان کی فضیلت میں احادیث
اذان اور مؤذنین کی فضیلت میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ملک (خلافت) قریش میں ہے اور قضاء انصار میں ہے اور اذان حبشہ میں ہے اور امانت ازد میں ہے (یعنی یمن میں) ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٩٣٦، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٢ ص ١٧٢، مسند احمد ج ٢ ص ٣٦٤ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٤ ص ٣٦٨، رقم الحدیث ٨٧٦١، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٧ ھ)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن مؤذن سب سے لمبی گردن والے ہوں گے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٨٦١، مسند احمد ج ٣ ص ١٢٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٠ ص ١٤٥، رقم الحدیث : ١٢٧٢٩، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ١٤١٨ ھ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٨٧، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٨٠٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٥١١٨)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے منتظر ہوں گے، ایک قول یہ ہے کہ ان کی لمبی گردنیں اس لیے ہوں گی کہ جب قیامت کی دن زیادہ پسینہ آئے گا تو وہ پسینہ ان کے کندھوں سے متجاوز ہو کر ان کی گردنوں تک نہ پہنچ سکے، ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ رئیس اور سردار ہوں گے کیونکہ عرب سردار کو کنایۃ، لمبی گردن والا کہتے تھے، ایک قول یہ ہے کہ ان کے متبعین سب سے زیادہ ہوں گے اور ایک قول یہ ہے کہ ان کے نیک اعمال سب سے زیادہ ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ ! ائمہ کو ہدایت دے اور مؤرخین کی مغفرت فرما (اس حدیث کی سند صحیح ہے) ۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٢٣٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٢ ص ٨٩ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٩٦، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣٤٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٤٧ )
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذان اور اقامت کے درمیان دعارد نہیں ہوتی۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١١٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ١٩ ص ٢٣٤، رقم الحدیث : ١٢٢٠٠، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٨ ھ، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٠ ص ٢٢٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٢١، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٠٩، کتاب الدعا، للطبرانی رقم الحدیث : ٤٨٣، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٣٦٢ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تک مؤذن کی اذان کی آواز جاتی ہے وہاں تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اور ہر تر اور خشک چیز اس کی اذان سن کر اس کی گواہی دیتی ہے اور اس کو پچیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١ ص ٤٨٣ طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٤٦٤ جدید، مسند احمد ج ٢ ص ٢٦٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٢٤ )
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر جن اور انس اور پتھر اور درخت مؤذن کی اذان کی گواہی دیتا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج ١ ص ٤٨٤ طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٨٦٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ، مسند احمد ج ٣ ص ٢ )
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
زازان نے کہا : اگر لوگوں کو اذان کی فضیلت کا علم ہوجائے تو وہ اذان دینے کے لیے ایک دوسرے سے تلواروں کے ساتھ لڑیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ٢٠٣، رقم الحدیث : ٢٣٣٥، درارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے کہا : اگر مجھے اذان دینے کی طاقت ہو تو وہ میرے نزدیک حج، عمرہ اور جہاد سے زیادہ محبوب ہے۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٢٠٣، رقم الحدیث : ٢٣٣٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا : اگر میں مؤذن ہوتا تو مجھے حج کرنے یا جہاد کرنے کی پروانہ ہوتی۔
(مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٢٠٤، رقم الحدیث : ٢٣٤٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : ” ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ “ الخ (حٰم ٓ السجدۃ :33) میری رائے میں صرف مؤرخین کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (منصف ابن ابی شبہ ج ١ ص ٢٠٤، رقم الحدیث : ٢٣٤٨۔ ٢٣٤٧ )
اذان میں ” اشھدان محمد الرسول اللہ “ سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا
علامہ شمس الدین محمد الخراسائی القھستانی المتوفی ٩٦٢ ھ لکھتے ہیں :
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
اذان کے کلمات سن کر ان کے جواب میں وہی کلمات کہنا مستحب ہے اور جب رسالت کی شہادت سنے تو پہلی شہادت سن کر کہے ” صلی اللہ تعالیٰ علیک یارسول اللہ “ اور دوسری شہادت سن کر کہے : ” قرۃ عینی بک یارسول اللہ “ پھر اپنے دونوں انگوٹھے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے : ” اللھم متعنی بالسمع والبصر “ (اے اللہ ! میری سماعت اور بصارت سے مجھ کو فائدہ پہنچا) ۔ (جامع الرموزج ١ ص ١٢٥، ایج ایک سعیدکمپنی، کراچی)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ نے اس عبارت کو اپنی تفسیر میں علامہ قہستانی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
(روح البیان ج ٨ ص ٣٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ نے مذکور الصدر عبارت کو نقل کرنے کے بعد ” کنز العباد “ کے حوالے سے لکھا ہے جو انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے گا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی جنت کی طرف قیادت کریں گے اور لکھا ہے کہ اسی طرح فتاویٰ صوفیہ میں بھی ہے اور کتاب الفردوس میں ہے : جس نے اذان میں ” اشھد ان محمد رسول اللہ “ سننے کے بعد اپنے انگوٹھوں کو چوما اس کی قیادت کروں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا۔ (روالمختار ج ٢ ص ٦٣۔ ٦٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ سید احمد بن محمد الطحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ نے ” کنزالعباد “ اور قہستانی کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : امام دیلمی نے ” کتاب الفردوس “ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مرفوعاً یہ روایت ذکر کی ہے کہ جس نے اذان میں ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “ سن کر انگشت شہادت کو چوم کر آنکھوں پر لگایا میں اس کی شفاعت کی شہادت کروں گا، اسی طرح حضرت خضر (علیہ السلام) سے بھی منقول ہے اور فضائل میں اس قسم کی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی ص ٢٠٦۔ ١٠٥، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
علامہ فہستانی، علامہ اسماعیل حقی، علامہ شامی اور علامہ طحطاوی نے ” کنزالعباد “ اور امام دیلمی کی ” مسند الفردوس “ کے حوالے سے جس حدیث کا ذکر کیا ہے اس کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی ٩٠٢ ھ لکھتے ہیں :
امام دیلمی نے ” مسند الفردوس “ میں روایت کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مؤذن سے ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “ سنا تو اپنی دونوں انگشت شہادت کے باطن کو چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھا اور پھر اپنی ان انگلیوں کو آنکھوں پر پھیرا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے میرے دوست کے فعل کی مثل فعل کیا اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے گی، اس حدیث کی سند صحیح الذاتہ نہیں ہے (یعنی صحیح لغیر ویا حسن ہے، زیادہ سے زیادہ ضعیف ہے) اسی طرح ابو العباس احمد بن ابی بکر الردادا الیمانی نے اپنی کتاب ” موجبات الرحمۃ وعزالم المغفرۃ “ میں ایسی سند سے روایت کیا ہے جس میں مجہول راوی ہیں اور وہ سند منقطع ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا : جب مؤذن نے ” اشھدان محمدا رسول اللہ “ کہا تو جس شخص نے اس کو سن کر یہ کہا : ” مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ پھر اپنے انگوٹھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھا تو اس کو کبھی آشوب چشم نہیں ہوگا، پھر ایک غیر معروف سند کے ساتھ فقیہ محمد بن الباب سے روایت کیا کہ ایک مرتبہ آندھی سے ان کی آنکھ میں مٹی کا کوئی ذرہ پڑگیا جس کی وجہ سے ان کی آنکھ میں شدید تکلیف ہوئی اور وہ باوجود کوشش کے اس کو اپنی آنکھ سے نہ نکال سکے، پھر جب انہوں نے مؤذن سے ” اشھدان محمدا رسول اللہ “ سنا تو یہی دعا کی تو وہ ریزہ فی الفور نکل گیا، الرداد نے کہا : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل میں سے ہے اور الشمس محمد بن صالح نے اپنی تاریخ میں بعض مصر قدماء سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے اذان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر سنا، پھر پر درود پڑھا اور اپنی انگشت شہادت اور انگوٹھے کو چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرا تو اس کی آنکھیں کبھی دکھنے نہیں آئیں گی اور ابن صالح نے کہا میں نے اس کو فقیہ محمد بن زرندی سے سنا ہے، وہ بعض شیوخ عراق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں پر اپنی انگلیاں پھیرتے وقت کہا : ” صلی اللہ علیک یاسیدی یارسول اللہ یا حبیب قلبی ویانور بصری ویا قرہ عینی “ اور جب سے انہوں نے یہ عمل شروع کیا ان کی آنکھیں دکھنے نہیں آئیں، ابن صالح نے کہا : اس کو سننے کے بعد میں بھی یہ عمل کرتا ہوں اور میری آنکھیں دکھنے نہ آئیں اور فقیہ زاہد بلالی نے حضرت حسن (علیہ السلام) سے روایت کیا ہے کہ جس نے اذان میں ” اشھدان محمدا رسول اللہ “ سن کر یہ کہا : ” مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھا وہ اندھا ہوگا اور نہ اس کی آنکھیں کبھی دکھیں گی اور ابو نصر خواجہ نے کہا کہ جس حدیث میں ہے : جش شخص نے مؤذن سے اذان میں ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “ سن کر اپنے انگوٹھوں کو چوما اور ان کو اپنی آنکھوں پر پھیرا اور آنکھوں پر پھیرتے وقت یہ دعا کی : اے اللہ ! میری آنکھوں کی حفاظت فرما اور سید نا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں کی برکت سے ان کو منور فرما، تو وہ اندھا نہیں ہوگا، ان احادیث میں سے کسی حدیث کا بھی سند مرفوع ہونا صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ (المقاصد الحسنۃ ص ٣٨٤۔ ٣٨٣، رقم الحدیث : ١٠٢١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٠٧ ھ)
علامہ سخاوی نے حدیث مرفوع کے صحیح لذاتہ ہونے کی نفی کی ہے، یعنی اس سلسلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سند صحیح لغیرہ، سند حسن یا سند ضعیف سے ہوسکتا ہے، نیز انہوں نے حدیث مرفوع کی صحت کی نفی کی ہے یعنی حدیث موقوف کی صحت کی نفی نہیں کی، یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا یہ فعل سند صحیح سے ثابت ہے، ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ کی بھی یہی تحقیق ہے جس کو انشاء اللہ ہم عنقریب نقل کریں گے۔ علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی المتوفی ١١٦٢ ھ نے علامہ سخاوی کی مکمل عبارت من وعن نقل کی ہے۔ (کشف الخفاء ومنریل الالباس ج ٢ ص ٢٠٧۔ ٢٠٦، مکتبۃ الغزالی)
ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی ١٠١٤ ھ نے علامہ سخاوی کی عبارت کا خلاصہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : میں کہتا ہوں کہ جب اذان میں ” اشھدان محمدا رسول اللہ “ سن کر انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرنے کا عمل حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ثابت ہے تو یہ عمل کے لیے کافی ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : تم پر میری سنت اور میرے خلفاء رالشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٦) ایک قول یہ ہے کہ نہ یہ عمل کیا جائے نہ اس سے منع کیا جائے اور اس قول کا غریب ہونا اصحاب فہم پر مخفی نہیں ہے۔ (الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ص ٢١٠، رقم الحدیث : ٨٢٩ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٠٥ ھ)
میں کہتا ہوں : علامہ قہستانی متوفی ٩٦٢ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ، علامہ اسید احمد طحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ، علامہ متوفی ١٢٥٢ ھ نے اس عمل کو مستحب کہا ہے اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر کی سنت ہے اور ہمارے عمل کے لیے کافی ہے، نیز اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس عمل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت، آپ کے ادب اور اجلال کا اظہار ہے اور ہر وہ فعل جس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور اجلال کا اظہار ہوتا ہو اس کا کرنا فقہاء کے نزدیک مستحسن ہے۔ علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں :
بعض لوگ مدینہ کے قریب سواری سے اتر جاتے ہیں اور پیدل چل کر مدینہ میں داخل ہوتے ہیں ان کا یہ فعل مستحسن ہے اور ہر وہ فعل جس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب اور اجلال میں زیادہ دخل ہو اس کو کرنا مستحسن ہے۔ (فتح القدیر ج ٣ ص ١٦٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ) مدینہ کے قریب سواری سے اتر جانا اور پیدل چل کر مدینہ میں داخل ہونا اس فعت کی کسی حدیث میں اصل نہیں ہے، اس کے باوجو فقہاء کے نزدیک یہ فعل مستحسن ہے تو جس فعل کی احادیث میں اصل ہو اور اس فعل کا حضرت ابوبکر کی سنت ہونا ثابت ہو تو اس کا مستحسن ہونا کس قدر زیادہ ہوگا۔
مسجد میں اذان دینے کا شرعی حکم
ہمارے بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، اس سلسلہ میں پہلے ہم اذان دینے کی جگہ کے متعلق احادیث کا ذکر کریں گے، اس کے بعد عبارات فقہاء کا ذکر کریں گے۔
امام ابودائود سلیمان بن اشعت بحستانی متوفی ٢٧٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
عروہ بن الزبیر بیان کرتے ہیں کہ بنو نجار کی ایک عورت نے بیان کیا کہ مسجد (نبوی) کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا، پس حضرت بلال (رض) اس کے اوپر فجر کی اذان دیتے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥١٩)
السائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے تو مسجد کے دروازے پر اذان دی جاتی تھی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٨٨)
اور مسجد میں اذان دینے کی کراہت کے متعلق فقہاء کی حسب ذیل تصریحات ہیں :
علامہ طاہر بن عبدالرشید بخاری حنفی متوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں :
اذان مسجد کے مینار یا مسجد سے باہر دینی چاہیے اور مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (خلاصۃ ج ١ ص ٤٩، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
علامہ عثمانبن علی الزیلعی حنفی متوفی ٧٣٤ ھ لکھتے ہیں :
سنت یہ ہے کہ اذان منارہ میں ہو اور اقامت مسجد میں۔ (تبیین الحقائق ج ١ ص ٢٤٦، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان، ١٤٢١ ھ)
علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں :
اذان مشذنۃ (مینار) میں دینی چاہیے اور اگر وہ نہ ہو تو فناء مسجد دینی چاہیے، فقہاء نے کہا ہے کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٢٥٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ شمس الدین محمد الخراسانی القہستانی المتوفی ٩٦٢ ھ لکھتے ہیں :
شریعت میں اصل یہ ہے کہ اذان بلند جگہ پر دی جائے، تاکہ سب لوگوں کو خبر ہوجائے اور یہ سنت ہے جیسا کہ قفیہ میں مذکور ہے اور یہ کہ مسجد میں ادان نہ دی جائے کیونکہ یہ مکروہ ہے جیسا کہ نظم میں ہے، لیکن جلابی میں مذکور ہے کہ مسجد میں اذان دی جائے گی یا اس جگہ میں جو مسجد کے حکم میں ہو اور مسجد سے بعید جگہ میں اذان نہ دی جائے۔
(جامع الرموز ج ١ ص ١٢٣، ایچ۔ ایم سعید کمپنی، کراچی، پاکستان)
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں :
سنت یہ ہے کہ اذان بلندجگہ پر دی جائے اور اقامت زمین پر کہی جائے۔ (البحرالرائق ج ١ ص ٢٥٥، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ) علامہ سید احمد بن محمد الطحطاوی حنفی متوفی ١٢٣١ ھ لکھتے ہیں :
اور ظاہر ہے کہ مغرب کی اذان بھی بلند جگہ پر دی جائے جیسا کہ السراج میں مذکور ہے اور مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے، جیسا کہ قہستانی نے النظم سے نقل کیا ہے اور اگر وہاں کوئی بلند جگہ اذان دینے کے لیے نہ ہو تو فناء مسجد میں اذان دی جائے جیسا کہ فتح القدیر میں مذکور ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص ١٩٨۔ ١٩٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ) ہرچند کہ فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو مکروہ کہا ہے، لیکن اس پر ایک اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی حدیث میں یہ تو مذکور ہے کہ حضرت بلال (رض) ایک اونچے مکان کی چھت پر چڑھ کر صبح کی اذان دیتے تھے لیکن کسی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں اذان دینے سے منع فرمایا ہو اور فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ کوئی چیز ان وقت تک مکروہ تنزیہی نہیں ہوسکتی جب تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصیت کے ساتھ اس چیز سے منع نہ فرمایا ہو۔۔
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں : ولایلزم ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلا بدلھا من دلیل خاص۔
مستحب کو ترک کرنے سے کراہت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ ثبوت کراہت کے لیے خاص دلیل ضروری ہے۔ (البحر الرائق ج ٢ ص ١٦٣، المکتبۃ الماجدیہ، کوئٹہ )
دوسرا اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ سنت یہ ہے کہ اذان مسجد کے مینار میں دی جائے، حالانکہ عہد رسالت میں مساجد میں مینار نہ تھے۔ علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں مسجد میں مینار نہیں تھے، نہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں نہ حضرت عمر کے زمانہ میں، حضرت عثمان کے زمانہ میں مقام زوراء پر اذان دی جاتی تھی، پھر بنوامیہ کے زمانہ میں مینار بنائے گئے، حتیٰ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں بھی چار مینار بنائے گئے۔ (شرح سنن ابودائود ج ٤ ص ٤٢٧، مکتبۃ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)
اس پر تیسرا اشکال یہ ہے کہ سنن ابودائود کی جس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت بلال ایک بلند مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے۔ امام ابودائود نے اس حدیث کو احمد بن محمد بن ایوب سے روایت کیا ہے، علامہ عینی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے کہا : یہ کذاب ہے، ابن الجوزی نے اس کا ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ (شرح سنن ابودائود ج ٢ ص ٤٧٠، مکتبۃ الرشید، ریاض ١٤٢٠ ھ)
اس پر چوتھا اشکال یہ ہے کہ بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اذان مسجد میں بھی دی گئی ہے :
امام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عن ہشام عن ابیہ قال امرالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلا لا ان یوذن یوم الفتح فوق الکعبۃ۔ ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کو فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ وہ کعبہ کے اوپر چڑھ کر اذان دیں۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٢٠٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
علامہ سید محمد امین عمر بن عبدالعزیز، ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اس بحث میں لکھتے ہیں :
حافظ سیوطی نے ” اوائل “ میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے مسجد کے مینار پر چڑھ کر اذان دی وہ شرجیل بن عامر المرادی تھا اور بنو سلمہ نے حضرت معاویہ (رض) کے حکم سے اذان کے لیے مینار بنائے، اس سے پہلے مینار نہیں تھے، امام ابن سعد نے حضرت ام زید بن ثابت کی سند سے روایت کیا ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ مسجد کے گرد میرا گھر سب سے اونچا تھا اور حضرت بلال (رض) ابتداء میں اس کے اوپر چڑھ کر اذان دیتے تھے، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مسجد تعمیر فرما لی، اس کے بعد حضرت بلال مسجد کی چھت کے اوپر اذان دیتے تھے اور چھت کے اوپر کوئی بلند چیز رکھ لیتے تھے۔ (روالمخار ج ٢ ص ٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام ابن سعد کی اس روایت کو علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ اور ” الفتہ الاسلامی “ کے مخرج نے بھی ذکر کیا ہے۔
(روح البیان ج ٨ ص ٣٥٠۔ ٣٤٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ، حاشیۃ الفقہ الاسلامی جۃ ص ٥٤٦ )
امام ابن سعد کی جس روایت کا علامہ شامی وغیرہ نے ذکر کیا ہے، یہ روایت ہم کو ” الطبقات الکبریٰ “ میں نہیں ملی، لیکن امام ابن سعدی کی اور بھی تصانیف ہیں مثلا تاریخ اور الطبقات الصغریٰ ہوسکتا ہے کہ یہ روایت ان میں سے کسی کتاب میں ہو۔ اس پر پانچواں اشکال یہ ہے کہ بعض فقہاء نے مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے جیسا کہ علامہ قہستانی نے نقل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں چھٹی اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ فقہاء نے جو بلند جگہ پر اور مینار پر اذان دینے کا طریقہ بتایا ہے اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ اذان کی آواز تمام جگہوں پر پہنچ جائے اور اب جب کہ لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز زیادہ آسانی سے دور دور تک پہنچ جاتی ہے تو مینار پر چڑھ کر اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ مینار بھی چالیس ہجری کے بعد بنائے گئے ہیں، آج کل عموماً مسجد کے محراب میں اذان دینے کے لیے ایک جگہ بنالی جاتی ہے اور وہاں لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں اذان دینے سے منع نہیں فرمایا، یہ ممانعت صرف چھٹی صدی ہجری اور بعد کے بعض فقہاء سے منقول ہے، جب کہ اس کے برخلاف احادیث سے مسجد میں اذان دینا ثابت ہے اور بعض فقہاء نے بھی مسجد میں اذان دینے کو بلا کراہت جائز کہا ہے، نیز اذان میں اللہ کا ذکر ہے اور مسجد میں اللہ کی ذکر سے روکنے پر سخت وعید ہے۔
ومن اظلم ممن منع مسجد اللہ انیذکر فیھا السمہ۔ (البقرہ :114) اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مساجد میں اللہ کے اسم کے ذکر کرنے سے منع کرے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا منع ہے، اس لیے مسجد میں آواز بلند نہیں کرنی چاہیے اور اذان بلندآواز سے دی جاتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے سب سے بڑی مسجد یعنی کعبہ کی چھت پر حضرت بلال سے اذان دلوائی، مساجد میں دینی جلسے کیے جاتے ہیں جن میں بلند آواز سے تلاوت کی جاتی ہے، نعتیں پڑھی جاتی ہیں، نعرہتکبیر اور نعرہ رسالت لگاجاتے ہیں جن سے ساری مسجد گونج اٹھتی ہے، نمازوں کے بعد ذکر یا بالجبر کیا جاتا ہے، جلسوں میں اور جمعہ کی نماز کے بعد بلند آواز سے صلوٰۃ وسلام پڑھا جاتا ہے، مذکور الصدر حدیث اور اہل سنت کے معمولات سے معلوم ہوا کہ مساجد میں اللہ کے نام اور اس کے ذکر کو بلند آواز سے کرنا ل ممنوع نہیں ہے البتہ مساجد میں بلندآواز سے جو ذکر ممنوع ہے وہ یہ ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جو شخص یہ سنے کہ کوئی شخص اپنی گم شدہ چیز کا بلند آواز سے مسجد میں اعلان کررہا ہے، اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ اللہ تیری گم شدہ چیز کو واپس نہ کرے، کیونکہ مساجد کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٨، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٧٠٦)
اور ہمارے ہاں رواج ہے کہ گم شدہ چیزوں کا مساجد کے لائوڈ اسپیکر سے اعلان کیا جاتا ہے، سو اگر خطرہ ہے تو ان اعلانات کو خطرہ ہے، اللہ کے نام کے ذکر اور اذان کو کیا خطرہ ہے، ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ متقدمین مسجد کے مینار میں اذان دینے کے لیے اس وجہ سے کہتے تھے کہ بلند جگہ پر اذان دینے سے آواز سب لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور اب لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ یہ مقصد زیادہ اچھے اور بہتر طریقہ سے پورا ہوجاتا ہے، اس لیے محراب مسجد میں جو لائوڈ اسپیکر پر اذان دی جاتی ہے یہ بالکل شرعاً جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اذان کے مباحث میں سے ایک مبحث اذان کے بعد دعا ہے، اس کی تحقیق ہم نے بتیان القرآن ج ٣ ص ١٧٥۔ ١٧٤ میں کردی ہے۔
ایک اور مبحث ہے : اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنا، اس کی تحقیق ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٥٥١۔ ٥٤٩ میں کردی ہے، نیز ذکر باجبر ص ٢٤٥۔ ٢٣٤ میں بھی ہم نے اذان کے بعد صلوٰۃ وسلام پڑھنے پر مفصل بحث کی ہے۔
(٥) قرآن اور سنت سے عام مؤمنین کی دعوت کا ثبوت
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ۔ (آل عمران :110)
تم بہترین امت ہو جس کو لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے، تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور ائما اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یایھا الذین امنوا قوا انفسکم اھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ۔ (التحریم :6)
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اور اس سلسل میں احادیث یہ ہیں :
طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے نماز عید سے پہلے خطبہ پڑھا اور وہ کروان تھا، اس کی طرف ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : نماز خطبہ پر مقدم ہے، مروان نے کہا : وہ طریقہ ترک کردیا گیا، حضرت ابوسعید خدری (رض) نے کہا : اس شخص نے پانا فرض ادا کردیا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم میں سے جس یخص نے کسی بُرائی کو دیکھا وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے اس کو بُرا کہے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو دل سے اس کو بُرا جانے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٩، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٤٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٧٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٠٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١٣)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال ہوگا، سربراہ مملکت اپنے عوام کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے عوام کے متعلق سوال ہوگا اور گھر کا سربراہ اپنے گھروالوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے متعلق سوال ہوگا اور بیوی اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے اس کے گھر کے متعلق سوال ہوگا اور نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے مالک کے مال کے متعلق سوال ہوگا اور بیٹا اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس کے باپ کے مال کے متعلق سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٩٣، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٦٤٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٠٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٩، جامع المسانید والسنن مسندابن عمر رقم الحدیث : ١٤٩٨)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 33