أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمِنۡ اٰيٰتِهِ الَّيۡلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ‌ؕ لَا تَسۡجُدُوۡا لِلشَّمۡسِ وَلَا لِلۡقَمَرِ وَاسۡجُدُوۡا لِلّٰهِ الَّذِىۡ خَلَقَهُنَّ اِنۡ كُنۡتُمۡ اِيَّاهُ تَعۡبُدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں اور تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں اور تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو پھر بھی اگر یہ لوگ تکبر کریں تو جو فرشتے آپ کے رب کے پاس ہیں وہ رات اور دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں اور (اے مخاطب ! ) اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تو زمین کو خشک اور غیر آباد دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی نازل کرتے ہیں تو وہ تروتازہ ہو کر لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے، بیشک جس نے اس زمین کو زندہ کیا ہے وہی (قیامت کے دن) مردوں کو زندہ کرنے والا ہے، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے (حٰم ٓ السجدۃ : 37-39)

اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور توحید پر دلیل

حٰم ٓ السجدۃ : ٣٣ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ ” اور اس سے عمدہ کلام کس کا ہوسکتا ہے جو اللہ (کے دین) کی دعوت دے “ اور اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اللہ کے دین کی دعوت دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی الوہیت، اس کی توحید، اس کی قدرت اور اس کی حکمت پر دلائل پیش جائیں، رات اور دن اور سورج اور چاند وغیرہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں اور اس کی تقریر یہ ہے کہ سورج اور چاند کا طلوع اور غروب ایک مقرر شدہ نظام کے تحت تسلسل سے وجود میں آرہا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سورج اور چاند کسی ناظم کے تابع ہیں اور چونکہ پوری کائنات میں یہ نظام واحد ہے، اس سے واضح ہوا کہ اس کا ناظم بھی واحد ہے اور اس پوری دنیا میں سورج سے عظیم اور قوی چیزہ میں کوئی نظر نہیں آتی، وہ اگر اپنے مقام سے ذرا نیچے ہوتا تو اس کی تپش سے روئے زمین پر کوئی زندہ نہ رہتا اور اگر اوپر ہوتا تو سب سردی سے منجمد ہوجاتے، تو جس ذات نے اس عظیم سیارے کو اپنے نظام کا پابند کیا ہوا ہے وہی خالق عالم ہے، پھر وہ جب چاہتا ہے تو اس عظیم آفتاب کو گہن لگا کر بےنور کردیتا ہے اور یہ اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے اور اس میں اس سر متنبہ کرنا ہے کہ جو اتنے عظیم سورج کے نور کو سلب کرنے پر قادر ہے وہ ہماری آنکھوں سے بصارت کے نور کو اور ہمارے دلوں سے بصیرت کے نور کو زائل کرنے پر بطریق اولیٰ قادر ہے، اس لیے سورج گہن کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں صلوٰۃ کسوف پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے، حدیث میں ہے :

سورج گہن کے وقت نماز پڑھنا

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گہن لگ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کسوف پڑھائی اور اس میں بہت طویل قیام کیا اور سورة بقرہ کے لگ بھگ قرأت کی، پھر آپ نے بہت طویل رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھا کر بہت دیر کھڑے رے مگر یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے (دوبارہ) رکوع کیا اور بہت طویل رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں بہت طویل قیام کیا اور یہ پہلی رکعت کے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے بہت طویل رکوع کیا تھا، پھر اس کے بعد دوبارہ رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اس کے بعد آپ نماز سے فارغ ہوگئے اور سورج سے گہن دور ہوگیا اور سورج چمکنے لگا، پھر آپ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے نہ کسی کی حیات کی وجہ سے، پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو، صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! ہم نے دیکھا کہ آپ اپنے مقام سے کسی چیز کو پکڑنے لگے تھ، پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے جنت کو دیکھا اور میں انگوروں کا ایک خوشا پکڑنے لگا اور اگر میں اس کو لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس کو کھاتے رہتے اور مجھے دوزخ دکھائی گئی اور میں نے اس سے زیادہ دہشت ناک منظر آج تک نہیں دیکھا اور میں نے دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! کس وجہ سے ؟ آپ نے فرمایا : ان کی ناشکری کی وجہ سے، صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور اس کے احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان کے ساتھ ساری عمر احسان کرتے رہو، پھر وہ تم سے کوئی معمولی کمی دیکھ لیں تو کہتی ہیں : میں نے تو تم سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٥٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٨٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ١٤٩٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٦١، مسند احمد ج ٦ ص ٥٣ )

سورج گہن کی نماز کے طریقہ میں مذاہب ائمہ

علامہ یحییٰ بن شریف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نماز کسوف (سورج گہن کی نماز) میں رکوع کی تعداد میں مذاہب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ہمارے مذہب میں نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو ررکوع اور دو سجدہ ہیں (جیسا کہ مذکور الصور حدیث میں ہے) اور امام مالک، امام احمد، اسحاق ابوثور اور دائود ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے اور ابراہیم نخعی، ثوری اور امام اعظم ابوحنیفہ نے کہا کہ نماز کسوف جمعہ کی نماز اور صبح کی نماز کی طرح دو رکعت ہے۔ المجموع شرح المہذب ج ٦ ص ١٣٢۔ ١٢٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٣ ھ)

فقہاء احناف کی دلیل یہ ہے کہ نماز کسوف میں رکوع کی تعداد میں اضطراب ہے، مذکور الصدر حدیث میں ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے اور بعض احادی میں ایک رکعت میں تین رکوع کا ذکر ہے اور بعض احادیث میں ایک رکعت میں چار رکوع کا ذکر ہے اور بعض احادیث میں ایک رکعت میں پانچ رکوع کا ذکر ہے اور جو حدیث مضطرب ہو وہ لائی استدلال نہیں ہے، اس لیے ہم نے ان مضطرب روایات کو ترک کردیا اور اس حدیث پر عمل کیا جس حدیث میں اصل کے مطابق ایک رکعت میں ایک رکوع کا ذکر ہے۔

ایک رکعت میں تین رکوع کرنے کی حدیث یہ ہے :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گہن لگ گیا جس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے حضرت ابراہیم (رض) فوت ہوئے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو رکعت نماز میں چھ رکوع اور چار سجدے کیے۔ (صحیح مسلم : الکسوف : ١٠۔ رقم بلاتکرار : ٩٠٤۔ الرقم المسلسل : ٢٠٦٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٧٨، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٨٢٣، جامع المسانید والسنن مسند جابر بن عبداللہ رقم الحدیث : ٥١٨) ایک رکعت میں چار رکوع کرنے کی یہ حدیثیں ہیں :

طائوس نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب سورج کو گہن لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دور کعت میں آٹھ رکوع اور چار سجدے کیے۔ (صحیح مسلم : کسوف ١٨، رقم بلاتکرار : ١٩٠٨، الرقم المسلسل : ٢٠٧٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٨٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٦٠ )

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کسوف پڑھائی، آپ نے قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی۔ پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت پھر اسی طرح پڑھی۔ (صحیح مسلم : الکسوف : ١٩۔ رقم بلاتکرار : ٩٠٩۔ الرقم المسلسل : ٢٠٧٧، سنن للنسائی رقم الحدیث : ١٤٦٧ )

ایک رکعت میں پانچ رکوع کرنے کی یہ حدیث ہے :

حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو نماز کسوف پڑھائی، آپ نے لمبی سورتوں میں سے قرأت کی اور ایک رکعت میں پانچ رکوع کیے اور دو سجدے کیے، پھر دوسری رکعت بھی آپ نے اسی طرح پڑھی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٨٢)

فقہاء احناف کے نزدیک سورج گہن کی نماز کا طریقہ

فقہاء احناف کا مسلک یہ ہے کہ نماز کسوف میں باقی نمازوں کی طرح دو رکعت میں سے ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہیں اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گہن لگ گیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں اتنا لمبا قیام کیا کہ لگتا تھا اب رکوع نہیں کریں گے، پھر آپ نے رکوع کیا اور اتنا لمبا رکوع کیا کہ لگتا تھا کہ اب رکوع سے سر نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا اور اتنی دیر کھڑے رہے لگتا تھا کہ اب سجدہ نہیں کریں گے، پھر آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ لگتا تھا کہ اب سجدہ سے سر نہیں اٹھائیں گے، پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور اتنی دیر بیٹھے رے کہ لگتا تھا اب دوسرا سجدہ نہیں کریں گے، پھر آپ نے دوسرے سجدہ سے سر اٹھایا اور اسی طرح دوسری رکعت پڑھی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٩٤، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٨٦٧، مسند احمد ج ٢ ص ١١٩١، المستدرک ج ١ ص ٣٢٩ )

آیت سجدہ

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اور تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے “ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ہرچند کو وہ عظیم سیارے ہیں لیکن یہ ان کی ذاتی فضیلت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سجدہ کیے جانے کے مستحق ہوں، ان کا خالق تو اللہ عزوجل ہے، وہ جب چاہے سورج اور چان کو فنا کردے یا ان کی روشنی کو زائل کردے اور تم اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور اپنے نظام قدرت کے مسخر کردیا ہے، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 37