اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کرےکہ ہم ایسےبن جائیں

💚 أبو حمْزَةَ ، مُحَمَّدُ بنُ ميمونٍ المُرْوَزِيُّ السُّكَّرِيُّ۔ ( المتوفی 167 ھ )

تبع تابعین ، ائمہ مسلمین اور ثقہ محدثین میں سے ہیں ۔

حضرت عبد اللہ ابن المبارك نے تنہا آپ کو پوری ایک جماعت قرار دیا ہے۔

: « السُّكري کا مطلب ہے شیرینی والا ، چینی کا کاروباری۔

آپ چینی فروش تو نہ تھے لیکن زبان و بیان میں چینی جیسی شیرینی ضرور موجود تھی ۔

مستجاب الدعوات بزرگ تھے ۔ حرف بحرف قبولیت دعاء کی طرح آپ کی عبادت گذاری اور زہد و تقوی بھی زبان زد عام تھے ۔

زہد اور مہمان نوازی کا یہ عالم کہ 30 سال گزرنے کے بعد یہ عقدہ کھلآ کہ کوئی مہمان آیا ہوا ہے تو پیٹ بھر کھانا کھایا وگرنہ نہیں

كرم و سخاوت کا یہ عالم کہ پڑوسی یا پاس آنے والوں میں سے کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کی شفاء کے لیئے صدقہ یہ کیا کرتے تھے اور صدقہ بھی اتنا جو اس مریض کے نفقے خرچے صدقے جتنا ہوتا تھا

پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے عالم کا اندازہ اس انوکھی مثالی سخاوت سے لگائیے

آپ کے ایک پڑوسی نے اپنا مکان فروخت پر لگایا ، گاہک آیا تو چار ہزار دینار مانگے ، اس نے قیمت زیادہ ہونے کی شکایت کی تو کہا کہ دو ہزار دینار تو مکان کی قیمت ہے اور دو ہزار ابو حمزة کے پڑوس کی ہے ۔ اب گاہک نے پڑوس کو قابل فروخت بنانے کی بات کی تو کہا کہ اس پڑوس کی قیمت کیسے نہ لگاؤں جو بیمار پڑوں تو صحت و شفاء ہونے تک پورا خرچہ دے ، کہیں جاؤں تو بال بچوں کی بے فکری اس کی وجہ سے ہو ، کچھ دن نظر نہ آؤں تو معلوم کرنے آ جائے ۔

فقیر کو عرض کرنے دیجئے کہ یہ سب قرآن و حدیث کی ہدایات ہیں ۔ حضرت نے صرف ان پر عمل فرمایا ہے اور تراجم کی کتب میں اپنے تذکرے یادگار بنا دیئے ۔

اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو خصوصاً اس فقیر کی تا قیامت نسل کو اسلام کے اعلی اخلاق حسنہ کا مظہر بنا کر رکھے ۔

✒️ فقیر خالد محمود

ادارہ معارف القرآن کشمیر کالونی کراچی

بدھ

30 جون 2021