أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَللّٰهُ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَالۡمِيۡزَانَ‌ؕ وَمَا يُدۡرِيۡكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيۡبٌ ۞

ترجمہ:

اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب کو نازل فرمایا اور میزان کو قائم فرمایا اور (اے مخاطب ! ) تجھے کیا پتا شاید کہ قیامت قریب ہو

الشوریٰ : ١٨۔ ١٧ کا خلاصہ

الشوریٰ ١٨۔ ١٧ میں فرمایا :” اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب کو نازل فرمایا اور میزان کو قائم فرمایا اور (اے مخاطب ! ) تجھے کیا پتا شاید کہ قیامت قریب ہو اس کے جلد آنے کا وہی مطالبہ کرتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور جو لوگ قیامت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کے آنے سے ڈرتے ہیں “ الایۃ

اللہ تعالیٰ نے جب اسلام کے برحق ہونے پر دلائل قائم فرما دیئے تو اسلام کے مخالفین کو قیامت کے وقوع سے ڈرایا، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نازل فرمایا ہے جس میں انواع و اقسام کے دلائل اور براہین ہیں، سابقہ امتوں کے نیک لوگوں کے اعمال صالحہ اور بدکاروں اور منکروں کے عبرت ناک انجام کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے میزان کو نازل کیا ہے جس میں اعمال کا وزن کیا جائے گا اور کسی شخص کو یہ معلوم نہیں کہ قیامت کب آئے اور قیامت آنے کے بعد کسی شخص کو برے کاموں سے بچنے اور ان پر توبہ کرنے اور نیک کاموں کے کرنے کی مہلت نہیں ملے گی، اس لیے ہر صاحب عقل شخص پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لائے، برے کاموں اور رسم و رواج کے جھوٹے بندھنوں کو توڑ دے اور نیک کاموں کو اختیار کرے۔

چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں اور مشرکوں کو عموماً قیامت کے اچانک واقع ہونے سے ڈراتے رہتے تھے اور اہل مکہ نے ابھی تک وقوع قیامت کی علامات سے کوئی علامت نہیں دیکھی تھی اس لیے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ کاش قیامت ہوجاتی حتیٰ کہ ہم کو بھی پتا چل جاتا کہ آیا ہم حق پر ہیں یا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : اس کے جلد آنے کا مطالبہ وہی کرتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور جو لگ قیامت کے آنے پر یقین رکھتے ہیں وہ اس کے آنے سے ڈرتے ہیں۔

میزان کا لغوی اور شرعی معنی

اس آیت میں ” میزان “ کا لفظ ہے، علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی ٨١٧ ھ لکھتے ہیں : میزان کا معنی ہے : عدل اور مقدار۔ (القاموس المحیط ص ١٢٣٨، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ) علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :

میزان اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے چیزوں کا وزن کیا جاتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ۔ (الانبیاء :47) قیامت کے دن ہم انصاف کی میزانوں کو رکھیں گے۔

فاما من ثقلت موازینہ فھوفی عیثۃ راضیۃ واما من خفت موازینہ فاماہ ھاویۃ (القاریۃ :6-9)

پس رہا وہ جس (کی نیکیوں) کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور رہا وہ جس (کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہ ھاویہ (دوزخ کی گہرائی، تہ میں ہوگا )

زجاج نے کہا : قیامت کے دن جس میزان کا ذکر ہے اس کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے، ایک تفسیر یہ ہے کہ میزان کے دو پلڑے ہیں اور دنیا میں میزان (ترازو) کو اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ عدل کریں اور قیامت کے دن اس میں لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا، بعض علماء نے کہا : میزان اس کتاب کا نام ہے جس میں مخلوق کے اعمال لکھے ہوئے ہیں۔ ابن سیدو نے کہا : حدیث میں ہے کہ میزان کے دو پلڑے ہیں۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٠) (لسان العرب ج ١٥ ص ٢٠٥، داراصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)

میزان کا شرعی معنی یہ ہے : وہ چیز جس میں حقوق واجبہ کا وزن کیا جائے عام ازیں کہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ہوں اور اس کا لغوی معنی ہے : عدل کا آلہ اور وزن کا معنی ہے : کسی چیز کی مقدار کی معرفت، اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر میزان عقل رکھ دی ہے جس سے خیر اور شر اور حسن او قبح کا ادراک کیا جاتا ہے، اسی میزان عقل کو عرف میں ضمیر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ہر مسلمان کے دل میں ایک میزان شرع ہوتی ہے جس سے وہ احکام شرعیہ کا وزن کرتا ہے اور کسی بھی کام کے ارادے کے وقت وہ میزان اس کو بتاتی ہے کہ وہ کام اس کے لیے شرعاً جائز ہے یا ناجائز، قرآن مجید میں ہے۔

بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ولو القی معاذئرہ (القیامۃ :14-15)

بلکہ انسان کو اپنے نفس پر بصیرت حاصل ہے خواہ وہ کتنی تاویلات کرے

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 17