أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ لَهُمۡ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَهُمۡ مِّنَ الدِّيۡنِ مَا لَمۡ يَاۡذَنۡۢ بِهِ اللّٰهُ‌ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةُ الۡفَصۡلِ لَقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ وَاِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا ایسا راستہ مقرر کردیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر (قیامت کا) فیصلہ مقرر نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور بیشک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے

الشوریٰ ٢١ میں فرمایا : ” کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا ایسا راستہ مقرر کردیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر (قیامت کا) فیصلہ مقرر نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور بیشک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے “

خود ساختہ شریعتوں کی مذمت

اس سے پہلی آیت میں دنیا اور آخرت کے لیے کوشش کرنے والوں کے احوال اور ان کے انجام بتائے۔ اس آیت میں گمراہی کی اصل بتائی ہے جس کی وجہ سے انسان آخرت کی بجائے دنیا کو اپنا مقصود بنالیتا ہے اور اس آیت میں کفار کے شرکاء کا ذکر فرمایا ہے، اس کی تفصیل میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) شرکاء سے مراد کافروں کے دو شیاطین ہیں جنہوں نے ان کے لیے شرک اور کفر کو، قیامت کے انکار کو اور دنیا کی رنگینیوں اور زیب وزینت کو، کھانے پینے اور جنس کی ناجائز لذات کو مزین کیا۔

(٢) شرکاء سے مراد ان کے وہ بت ہیں جن کو کفار استحقاق عبادت میں اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں، ان کی پرستش کرتے تھے، ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے، ان کے سامنے جانروں کو قربان کرتے تھے اور مصائب اور شدائد میں ان کے نام کی دھائی دیتے تھے، رہا یہ کہ بت تو بےجان ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ انہوں نے ان کافروں کو گمراہ کردیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بت ان کے گمراہ ہونے کے سبب تھے، اس لیے ان کی طرف گمراہ کرنے کی نسبت کردی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول نقل فرمایا ہے :

رب انھن اضللن کثیرا من الناس۔ (ابراہیم :36)

اے میرے رب ! بیشک ان بتوں نے بہت لوگوں کو راستہ سے بھٹکایا ہے۔

(٣) اہل مکہ کو قدیم زمانے کے کفار نے گمراہ کیا اور ان کے لیے ایک شریعت بنادی جس میں بتوں کی پرستش تھی، ان کو اللہ کی بارگاہ میں سفارشی قرار دینا تھا، اللہ کے نام پر ذبح کیے بغیر مردار جانوروں کو کھانا تھا اور بحیرہ، سائبہ، حام اور وصیلہ، بتوں کے لیے نامزد جانوروں کے کھانے اور ان سے کام لینے کو حرام قرار دیتا تھا، کعبہ میں برہنہ طواف کرنا تھا، عام لوگوں کے لیے حج میں عرفات کو وقوف کے لیے مقرر کرنا اور قریش کے لیے مزولفہ کو مقرر کرنا تھا اور حج کرنے کے بعد گھروں کے اصلی دروازوں کے بجائے پچھلے دروازوں سے یا مکان کی پچھلی دیوار کو پھاند کر آنا تھا، یہ وہ کام تھے جن کو ان کے بڑوں نے بطور شریعت کے اپنا لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ان کاموں سے منع فرمایا ہے اور ان کی مذمت کی ہے۔

جب تک انسان بالغ نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ اس کو احکام شرعیہ کا مکلف نہیں کرتا، بلوغت سے پہلے انسان مختلف کاموں کا عادی ہوجاتا ہے، بالغ ہونے کے بعد اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی عادتوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے، اگر انسان اپنی عادتوں اور نفسانی لذتوں میں مشغول رہا اور احکام شرعیہ پر عمل نہ کیا، برے کاموں کو ترک نہ کیا اور نیک کاموں کو اختیار نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانی کرکے اپنی جان پر ظلم کرتا رہا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوگا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں فرمایا : اور بیشک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

ہمارے زمانہ میں بھی بعض گمراہ فرقوں نے اپنی طرف سے نئی نئی شریعتیں بنالی ہیں اور اپنے باطل نظریات کو دین میں داخل کرلیا ہے، بعض لوگوں نے مستحبات کو فرائض اور واجبات کا درجہ دے دیا ہے اور بعض لوگوں نے مباحات اور مستحبات کو حرام قرار دے دیا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 21