اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ۚ فَاِنۡ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخۡتِمۡ عَلٰى قَلۡبِكَ ؕ وَيَمۡحُ اللّٰهُ الۡبَاطِلَ وَيُحِقُّ الۡحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖۤ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 24
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ۚ فَاِنۡ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخۡتِمۡ عَلٰى قَلۡبِكَ ؕ وَيَمۡحُ اللّٰهُ الۡبَاطِلَ وَيُحِقُّ الۡحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖۤ ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞
ترجمہ:
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ رسول نے اللہ پر جھوٹ بول کر بہتان تراشا ہے ؟ پس اگر اللہ چاہے گا تو آپ کے دل پر مہر لگا دے گا اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلام سے ثابت رکھتا ہے، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایک اعتراض کا جواب
الشوریٰ : ٢٤ میں فرمایا :” یہ کہتے ہیں کہ رسول نے اللہ پر جھوٹ بول کر بہتان تراشا ہے ؟ پس اگر اللہ چاہے گا تو آپ کے دل پر مہر لگا دے گا اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلام سے ثابت رکھتا ہے، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے “
اس آیت میں افتراء اور کذب کے دو لفظ ہیں، افترا کا معنی ہے : اپنی طرف سے بات گھڑ کر کسی کی طرف منسوب کرنا اور کذب کا معنی ہے : خلاف واقع بات کو بیان کرنا خواہ کسی سے سن کر بیان کرے یا اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کریں۔
کفار کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے جو نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور آپ قرآن مجید کی آیات تلاوش کرکے یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے، سو آپ کا یہ کہنا جھوٹ ہے اور اللہ تعالیٰ پر افتراء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کا رد کرتے ہوئے فرمایا : پس اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ آپ کی دل پر مہر لگا دے گا، یعنی اگر اللہ چاہتا تو آپ کے دل پر ایسی مہر لگا دیتا کہ آپ کسی چیز کا ادراک نہ کرسکتے، نہ کسی حرف یا لفظ کا تلفظ کرسکتے حتیٰ کہ آپ کوئی بات نہ کرسکتے، پس اگر آپ بالفرض اللہ پر افترا کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر ایسی مہر لگا دیتا اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل پر ایسی مہر نہیں لگائی تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ پر افتراء نہیں باندھا اور کفار کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
” اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلام سے ثابت رکھتا ہے “ اس کے دو محمل ہیں (١) اگر بالفرض سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ پر افتراء باندھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دیتا اور حق کو ثابت کردیتا (٢) یہ کفار جو آپ کی نبوت پر طعن کررہے ہیں کہ آپ پر حقیقت میں وحی نازل نہیں ہوئی اور آپ نے اللہ تعالیٰ پر (العیاذ باللہ) افتراء باندھا ہے انکا یہ طعن باطل ہے اور آپ کی نبوت برحق ہے، اللہ تعالیٰ ان کے طعن کو مٹادے گا اور آپ کی نبوت کو ثابت کردے گا۔
اس کے بعد فرمایا : بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے “ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نہ تمہارے جسموں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٦٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٣٣، تتمہ جامع المسانید والسنن مسند ابوہریرہ رقم الحدیث : ٥٠١٠)
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 24