تَرَى الظّٰلِمِيۡنَ مُشۡفِقِيۡنَ مِمَّا كَسَبُوۡا وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمۡؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِىۡ رَوۡضَاتِ الۡجَـنّٰتِۚ لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
تَرَى الظّٰلِمِيۡنَ مُشۡفِقِيۡنَ مِمَّا كَسَبُوۡا وَهُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمۡؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِىۡ رَوۡضَاتِ الۡجَـنّٰتِۚ لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّهِمۡؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَضۡلُ الۡكَبِيۡرُ ۞
ترجمہ:
آپ دیکھیں گے کہ ظالم اپنے کرتوتوں سے خوف زدہ ہوں گے اور ان کے کرتوتوں کا وبال ان پر نازل ہوگا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے، یہی بہت بڑا فضل ہے
الشوریٰ : ٢٢ میں فرمایا : آپ دیکھیں گے کہ ظالم اپنے کرتوتوں سے خوف زدہ ہوں گے اور ان کے کرتوتوں کا وبال ان پر نازل ہوگا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے، یہی بہت بڑا فضل ہے “
اپنی عبادات کے بجائے اللہ تعالیٰ کے فضل پر نظر رکھنا
اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے باہر دیکھنے والے کو، کہ گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قیامت کے دن اپنے جرائم اور گناہوں سے خوف زدہ ہوں گے اور یہ جو فرمایا ہے کہ ” ان کے کرتوتوں کا وبال ان پر نازل ہوگا “ کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف دنیا میں اپنی خواہشوں اور اپنی شہوتوں کے تقاضوں پر عمل کرتے رہے اور باطل لذات میں ڈوبے رہے، اس کا وبال ان پر لازم ہوگا، یا تو دنیا میں بایں طور کہ ان پر مصائب اور شدائد کا نزول ہوگا اور مہلک بیماریاں ان پر حملہ آور ہوں گی یا آخرت میں ان کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی ہوگی، الا یہ کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کو معاف فرمادے۔
ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے، اس لیے قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ وہ کافروں کے انجام کے بعد مؤمنوں کے انجام کا ذکر فرماتا ہے، اس آیت کے پہلے حصہ میں کافروں یا بدکردار فاسقوں کا ذکر فرمایا تھا، اس لیے اس اب آیت کے آخری حصہ میں مؤمنوں کے نیک انجام کا ذور فرمارہا ہے کہ وہ جنت کے باغات میں ہوں گے یعنی وہ جنت کے سب سے خوب صورت حصے میں ہوں گے، باغات میں سبزہ ہوتا ہے اور سبزہ کی طرف دیکھنے سے آنکھوں کو تراوت حاصل ہوتی ہے اور نظر تیز ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے : تین چیزیں نظر کو تیز کرتی ہیں (١) سبزہ کی طرف دیکھنا، بہتے ہوئے پانی کی طرف دیکھنا اور خوب صورت چہرے کی طرف دیکھنا، حافظ سیوطی نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٤٨٦)
نیز فرمایا : ” ان کو جنت میں ہر وہ چیز حاصل ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے، اہل جنت کو جس چیز میں سب سے زیادہ لذت حاصل ہوگی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے، اس کے بعد ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی تسبیح اور تہلیل سے لذت حاصل ہوگی اور کھانے پینے اور دیگر نفسانی خواہشوں کی حیثیت ثانوی ہوگی، پھر فرمایا : ” یہی بہت بڑا فضل ہے “ اس کا معنی یہ ہے کہ مومن کو اپنی عبادتوں پر جو اجر وثواب ملے گا وہ اس کے استحقاق کی وجہ سے نہیں ملے گا محض اللہ کے فضل کی وجہ سے ملے گا۔
انسان دنیا میں جو بھی نیک کام کرتا ہے اور جو بھی عبادت کرتا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے کرتا ہے، ١٩٨٥ ء سے پہلے میں کمر کے شدید درد میں مبتلا تھا، اس وقت میں لاہور میں تھا اور مجھے کوئی امید نہیں تھی کہ میں کوئی تحریری کام کرسکوں گا، میں نے اپنی قابل ذکر کتابیں فروخت کردی تھی۔ پھر چھ جولائی ١٩٨٥ ء کو مفتی منیب الرحمن صاحب نے ٹیلی فون کرکے مجھے کراچی آنے کی دعوت دی تو میرا خیال تھا کہ میں وہاں زندگی کے باقی ماندہ دن پورے کروں گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے وہاں مفتی منیب الرحمن کی وساطت سے ایسے اسباب اور سہولتیں فراہم کیں کہ مجھے تصنیف و تالیف کے کام کے لیے نشأۃ ثانیہ مل گئی اور آج ١٩ دسمبر ٣٠٠٤ ء تک اٹھار سال کا عرصہ میں، میں نے شرح صحیح مسلم کی سات ضخیم جلدیں لکھیں جو تقریباً آٹھ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں اور اب میں بتیان القرآن کی دسویں جلد لکھ رہا ہوں اور اس کے بھی اب تک نوہزار صفحات لکھے جاچکے ہیں اور یہ میرا کارنامہ نہیں ہے، میں تو زندگی سے ہار بیٹھا تھا، یہ اسی کا کام ہے اور اس کی شان ہے جو مردوں میں جان ڈال دیتا ہے، قطرہ نیساں کو گہربنا دیتا ہے، ایک نجس قطرہ کو انسان کے حسین و جمیل پیکر میں ڈھال دیتا ہے، تو اگر میں یہ کہوں کہ میرے اس کام کے عوض اللہ مجھے اجروثواب عطا فرمائے تو یہ بہت غلط اور جھوٹی بات ہوگی، میں کیا ہوں، میرا کام کیا ہے، سب کچھ اسی کی توفیق سے اور اسی کے فضل سے ہوا ہے، میں اس کے فضل سے صرف بخشش کا طلب گار ہوں، میں اجروثواب کا اور جنت کا طالب نہیں ہوں، یہ تو بہت بڑی نعمتیں ہیں، میں کب ان کے لائق ہوں، وہ آخرت میں میرے گناہوں پر پردہ رکھ لے اور مجھے معاف فرمادے تو یہی اس کا بہت بڑا کرم اور بہت عظیم فضل ہے
القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 22