تَـكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِهِنَّ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِى الۡاَرۡضِؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
تَـكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡ فَوۡقِهِنَّ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ يُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِى الۡاَرۡضِؕ اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞
ترجمہ:
عنقریب آسمان (اس کی ہیبت سے) اپنے اوپر پھٹ پڑیں گے اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں، سنو ! بیشک اللہ ہی بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
عنقریب آسمان (اس کی ہیبت سے) اپنے اوپر پھٹ پڑیں گے اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں، سنو ! بیشک اللہ ہی بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے اور جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا مددگار بنالیا ہے، اللہ ان سے خبردار ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی میں قرآن کی وحی کی ہے، تاکہ آپ اہل مکہ اور اس کے گردونواح والوں کو عذاب سے ڈرائیں اور اسی طرح آپ یوم حشر کے عذاب سے ڈرائیں، جس کے وقوع میں کوئی شک نہیں ہے، (اس دن) ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ دوزخ میں ہوگا (الشوریٰ : 5-7)
فرشتوں کا تسبیح اور حمد کرنا
الشوریٰ : ٥ میں ” یتفطون “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر تفطر ہے، اس کا معنی ہے : کسی چیز کا طول کی جانب پھٹنا، اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کے جلال اور اس کی خشیت سے عنقریب آسمان پھٹ پڑیں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لو انزلنا ھذا القران علی جبل لرائتہ خاشعا متصدعا من خشیۃ اللہ۔ (الحشر :21)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو (اے مخاطب ! ) تو دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔
اس آیت میں فرمایا ہے : ” آسمان اپنے اوپر پھٹ پڑیں “ یعنی آسمان کے پھٹنے کی ابتداء اوپر کی جانب سے نیچے کی جانب ہوگی، اوپر کی جانب کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ اللہ کی عظمت اور جلال پر دلالت کرنے والی عظیم نشانیاں اوپر کی جانت ہیں، جیسے عرش، کرسی اور عرش کے گرد تسبیح، تہلیل، تکبیر، تحمید اور تہلیل کرنے والے فرشتے، جن کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لیے مناسب یہ تھا کہ آسمانوں کے پھٹنے کی ابتداء اوپر کی جانب سے ہوتی، بایں طور کہ پہلے سب سے اوپر کا آسمان پھٹ کر نچلے آسمان پر گرتا علیٰ ہذا القیاس ترتیب وار سب آسمان ایک دوسرے پر ٹوٹ کر گرتے۔
اس کے بعد فرمایا : اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں یعنی جو چیزیں اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کا شریک اور اس کی اولاد اور دیگر صفات جسمانیہ سے اس کی تنزیہ بیان کرتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ اس کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں، تسبیح کو حمد پر اس لیے مقدم فرمایا ہے کہ نامناسب چیزوں سے خالی ہونا، مناسب چیزوں کے ساتھ متصف ہونے پر مقدم ہوتا ہے۔
فرشتے صرف مؤمنین کے لیے استغفار کرتے ہیں یا تمام روئے زمین والوں کے لیے ؟
اس کے بعد فرمایا : ” اور زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں “ زمین والوں میں تو مؤمنین اور کافرین سب داخل ہیں لیکن فرشتے صرف مؤمنین کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ویستغفرون للذین امنوا۔ (المومن :7) اور فرشتے مؤمنین کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
اس لیے اس آیت میں زمین والوں سے مراد مؤمنین ہیں اور مطلق مقید پر محمول ہے، یا اس آیت سے مراد یہ ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لیے تو مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور کافروں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ مغفرت کے اہل ہوجائیں اور ایمان لے آئیں اور کافروں اور فاسقوں سے عذاف مؤخر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کی توفیق عطا کردے اور یوں وہ تمام زمین والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، مؤمنین کے لیے طلب مغفرت کی دعا کرتے ہیں، فاسقوں کے لیے توبہ کی توفیق کی دعا کرتے ہیں اور کافروں کے لیے حصول ایمان کی دعا کرتے ہیں اور ہر ایک کے لیے حسب حال دعا کرتے ہیں، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قرآن مجید میں ہے کہ فرشتے کفار پر لعنت کرتے ہیں اور ان کے لیے حصول ایمان کی دعا تو لعنت کے منافی ہے، قرآن مجید میں ہے :
اولئک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین (البقرہ :161) ان کافروں پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی
اس کا جواب یہ ہے کہ لعنت ان کافروں پر ہے جو کفر پر مرگئے، یہ پوری آیت اس طرح ہے :
ان الذین کفروا وماتوا وھم کفار اولئیک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین (البقرہ :161)
بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ کفر پر ہی مرگئے ان ہی پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی خلاصہ یہ ہے کہ مردہ کافروں پر فرشتے لعنت کرتے ہیں اور زندہ کافروں کے لیے حصول ایمان اور طلب توبہ کی دعا کرتے ہیں اور مؤمنین کے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اس اعتبار سے اس آیت میں فرمایا کہ فرشتے زمین والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ المومن : ٧ میں فرمایا ہے : ” جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو فرشتے اس کے گرد ہیں وہ مؤمنین کے لیے استغفار کرتے ہیں “ اس آیت میں دو قیدیں ہیں اور الشوریٰ کی اس آیت میں مطلقاً فرمایا ہے : ” فرشتے زمین والوں کے لیے استغفار کرتے ہیں “ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں ترقی ہے، پہلے فرمایا تھا کہ حاملین عرش استغفار کرتے ہیں، اس آیت میں فرمایا : ” تمام فرشتے مؤمنین کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ “
اور اس آیت کے آخر میں فرمایا : ” سنو ! بیشک اللہ ہی بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے “
یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کے ساتھ اور بغیر توبہ کے بھی مؤمنوں کے گناہ بخش دیتا ہے اور ان پر رحم فرماتا ہے بایں طور کہ ان کو جنت عطا فرماتا ہے اور اپنی رحمت سے ان کو قرب اور وصال عطا فرماتا ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بنو آدم کے لیے استغفار کریں کیونکہ وہ بہت زیادہ گناہ کرتے ہیں اور ہرچند کہ کفار شرک کرتے ہیں اور بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کا رزق منقطع نہیں کرتا اور نہ دنیا میں ان کے عیش اور آسائش کو ختم کرتا ہے اور دنیا میں ان سے عذاب مؤخر کرکے ان کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور آخرت میں ان کو عذاب دے گا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 5