فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ يَذۡرَؤُكُمۡ فِيۡهِ ؕ لَيۡسَ كَمِثۡلِهٖ شَىۡءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞- سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 11
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ يَذۡرَؤُكُمۡ فِيۡهِ ؕ لَيۡسَ كَمِثۡلِهٖ شَىۡءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
ترجمہ:
وہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے، اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے اور مویشیوں سے جوڑے بنائے، وہ تمہیں اس میں پھیلاتا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، وہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا ہے
تفسیر:
الشوریٰ : ١١ میں فرمایا : ” وہ آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے، اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے بنائے اور مویشیوں سے جوڑے بنائے، وہ تمہیں اس میں پھیلاتا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، وہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا ہے “
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے مماثلت کی نفی
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جنس میں سے جوڑے بنائے اور مویشیوں کی جنس سے بھی جوڑے بنائے، اس آیت میں فرمایا ہے : ” یذرئوکم “ اس کا معنی ہے : وہ تم کو رحم میں پیدا کرتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ تم کو پیٹ میں پیدا کرتا ہے، الزجاج نے کہا : اس کا معنی ہے : وہ تمہاری کثرت کرتا ہے اور تم کو زمین میں پھیلاتا ہے، تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تمہاری نسل اور افزائش میں اضافہ ہو۔
اور فرمایا : ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے “ یعنی اللہ عزوجل اپنی عظمت اور کبریاء میں اور اپنے اسماء کی بلندی میں اور اپنی صفات کی برتری میں بےمثل اور بےنظیر ہے اور مخلوق میں سے کوئی چیز اس کے مشابہ اور مماثل نہیں ہے، ہرچند کو بعض صفات اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق میں بظاہر مشترک ہیں، مثلا اس آیت میں فرمایا : ” ھوالسمیع البصیر “ اور انسان کے متعلق فرمایا ” فجعلنہ سمیعا بصیرا “ (الدھر 2) لیکن انسان کی سماعت اور بصارت حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کی سماعت اور بصارت قدیم ہے، انسان کی سماعت اور بصارت کا زوال ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کی سماعت اور بصارت کا زوال ممتنع ہے۔ انسان بھی دوسروں پر رحم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنی مخلوق پر رحم فرماتا ہے۔
حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم ان پر رحم کرو جو زمین میں ہیں، تم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان میں ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٥٠٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کے رجال صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٨٧، حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٢١٠، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٢٨١، کنز العمال رقم الحدیث : ٥٩٧٥، جامع المسانید والسنن مسند جریر ابن عبداللہ رقم الحدیث : ١٥٨٧)
لیکن اللہ تعالیٰ بالذات اور بغیر واسطہ کے رحم فرماتا ہے اور لوگ بالعرض اور متعدد وسائط سے رحم کرتے ہیں، وہ بغیر کسی غرض اور بغیر کسی عوض کے رحم فرماتا ہے اور لوگ کسی نہ کسی غرض اور کسی نہ کسی عوض سے ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کی ذات کی مثل کوئی ذات نہیں ہے اور اس کے اسم (اللہ) کی مثل کوئی اسم نہیں ہے اور اس کی صفت کی مثل کوئی صفت نہیں ہے اور اس کے فعل کی مثل کسی کا فعل نہیں ہے۔ سمیع، بصیر، ید، عین، وجہ اور رحم وغیرہ لفظ ایک جیسے ہیں لیکن ان کے معانی اور مصداق میں متعددجہات سے فرق ہے۔
ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ” لیس کمثلہ شیء “ کا لفظی معنی ہے اس کی مثل کے کوئی شیء مثل نہیں ہے، کیونکہ کاف کا معنی بھی مثل ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ سے مماثلت کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی مثل مماثلت کی نفی ہے۔ اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے کہ اس آیت میں کاف زائد ہے، بعض نے کہا : یہ کاف تاکید کے لیے ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ عرب کے محاورہ کے موافق ہے، عرب کہتے ہیں : ” مثلک لا یبخل “ آپ جیسا شخص بخل نہیں کرتا اور مراد ہوتا ہے : آپ بخل نہیں کرتے، سو یہ آیت محاورہ عرب کے موافق ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 11